کچھ بھی پیغامِ محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں


مغموم اور صابر والدین کی التجا تھی کہ کوئی اور مشال ایسے نہ مارا جائے۔ چترال میں کل ایک “گستاخ” کی جان بخشی شاید ان ہی کی دعا کا نتیجہ ہے ورنہ یہ قوم حد نافذ کرنے میں دیر کتنی لگاتی ہے؟ کاش، اس غم زدہ ماں کی دعا کی تاثیر کو ہمیشگی میسر آ جائے۔

غیر ملکی اخبارات میں مشال خان کی خبر پر لوگوں کی رائے پڑھ لیجئے۔ وہ چند ہیں جو اس ظلم کو ہمارے معاشرے کی عمومی انتہا پسندی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اکثریت مذہب کو موردِ الزام ٹھہرانے والوں کی ہے۔ اب کیا ان میں سے ہر ایک کو روک روک کر یہ بتائیں کہ دیکھیں، ہم ایسے ہیں، ہمارا دین ایسا نہیں؟ ان غیر مسلموں کو یہ تلقین کریں کہ گو ہم بوجہ مصروفیات قرآنِ کریم کا مطالعہ نہیں کر پاتے لیکن آپ بلاناغہ اپنی زبان میں ترجمہ پڑھیں؟ یہ اقرار بھی کر لیں کہ ہم ابھی تک سیرتِ خاتم الانبیاﷺ پر کوئی مستند کتاب نہ پڑھ سکے، اگر پڑھی بھی تو وہ ہماری عادات و اطوار کو تبدیل ہرگز نہ کر پائی، لیکن آپ ضرور ایک کوشش فرمائیں؟ اب تبلیغ کا رنگ یہ ہوا جائے کہ ہم اچھے نہیں ہیں لیکن ہمارا دین بہت اچھا ہے، لہذٰا آپ اس کی پیروی کریں؟ خدا کی کتاب کہتی ہے کہ دوسروں کو وہ کام کرنے کو کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے۔ کسی نو مسلم سے تصدیق کر لیں، اس کا ذہن کسی حقیقی مظہر کے مشاہدے سے تبدیل ہوا ہو گا، محض کتابیں پڑھنے سے نہیں۔ اگر واقعی ہم اسلام کے نفاذ میں سنجیدہ ہیں تو تبدیلی خود میں لانا ہو گی۔ جب خود عملی پیکر بن جائیں تو کسی کو راغب کرنے کے لیے طویل واعظ یا دقیق علمی بحث کی ضرورت ہرگز نہیں رہتی۔

ہماری بد دیانتی، دروغ گوئی، اخلاق باختگی، مفاد پرستی اور بے شمار ساجی برائیاں ایک طرف، بڑھتی ہوئی شدت پسندی واقعی ایسا مسئلہ ہے کہ رُک کر سوچنا پڑے گا۔ اپنی نا امیدی پر شرمندگی، لیکن گمان ہے کہ بائیں طرف کے معتدل لوگوں کی مخلص کاوشیں بھی شاید اس عفریت کا خاتمہ نہ کر پائیں۔ سبب، طالب علم کی رائے میں، عدم اعتماد ہے۔ شرمین عبید کی دستاویزی فلمیں ہمیں معاشرے کا گھناؤنا روپ کم، اہلِ مغرب کی سازش زیادہ نظر آتی ہیں۔ ملالہ کی علم دوستی اور قربانی، اغیار کا پروپیگنڈہ لگتا ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے خالصتاً علمی اور منطقی دلائل اسلام دُشمنی کے سوا کچھ بھی محسوس نہیں ہوتے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں، “کون کہہ رہا ہے؟”۔ بعد میں مشروط طور پر دیکھا جاتا ہے، “کیا کہہ رہا ہے؟”۔

علمائے کرام کو آگے آنا ہو گا۔  حضور! “سر تن سے جدا” کا پیمان آپ نے لیا ہے، اب قانون کی پیروی کا درس بھی آپ ہی دیں گے تو اثر پائے گا۔ اگر مشال خان کے بہیمانہ قتل، جس کی جتنی بھی مذمت جائے کم ہے، پر آپ کی اکثریت خاموشی اختیار فرمائے گی تو اس کے دو ہی مطالب لیے جائیں گے۔ اول، ہر سوچنے والا ذہن آپ کو بھی شریکِ جرم سمجھے گا۔ دوم، آپ کے پیروکار، جو کہ اکثریت میں ہیں، اس قبیح فعل کو روا جانیں گے اور ایسے واقعات کا اعادہ ہوتا رہے گا۔

یہ صرف آپ ہیں جو اس ذہنی بیمار قوم کو سمجھا سکتے کہ رسولِ خداﷺ کا بہترین امتی بننا ہمارا پہلا فرض ہے۔ اہلِ علم کے علاوہ یہ کون بتائے گا کہ وہ بڑھیا جو آپﷺ پر کوڑا پھینکتی تھی، آپﷺ اس کی تیمارداری کرنے جایا کرتے تھے، اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کے گھر کا کام کرتے تھے۔ طائف والے پتھر مار کر زخمی کرتے تو آپﷺ ان کی آئندہ نسلوں کے لیے بھی دعا فرماتے تھے۔ فتح مکہ کے روز، جب آپﷺ ہر طرح سے حاوی تھے، تب بھی معاف فرما دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ابو سفیان، جو جانی دشمن تھا، کے گھر میں امان لینے والوں کے لیے بھی معافی تھی۔

قبلہ! یہ محض آپ ہیں جو اس جلد باز قوم کو یہ سمجھا سکتے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے، “اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ”۔ حضور! یہ اہلِ علم ہی کا کہنا ہے کہ ‘فاسق’ وہ ہوتا ہے جو جزوی طور پر خدا کی نافرمانی کرے۔ سادہ سا مطب یہ بنتا ہے کہ اس شخص، جو کبھی کبھار جھوٹ بولے، یا کسی قسم کی بد دیانتی کرے یا کوئی بھی اور منوعہ فعل انجام دے، کی گواہی فوراً، بِلا تصدیق، نہیں مانی جا سکتی۔ اس ایک آیت کے تناظر میں توہینِ مذہب کے سینکڑوں واقعات محض ایک لمحے میں بے بنیاد ثابت ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی سوچی سمجھی سازش کے تحت، مذہب کی توہین کا ارتکاب کر رہا ہے تو واقعاتی شہادتوں کے ساتھ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے، قانون موجود ہے۔

شاہی مسجد چترال کے خطیب نے اُس ذہنی طور پر معذور شخص کی جان بچا کر ان زمینی خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو انسان ثابت کر دیا۔ ان کے لیے بے حساب عزت اورسلامتی کی دعا۔ لیکن ہجوم کا رویہ کسی طور بھی روا نہیں۔ جہالت پر مبنی جنونیت کے پر تشدد واقعات کسی طرح بھی اسلام کی خدمت ہیں نہ ہی رسولِ خدا ﷺ سے محبت۔ ترجیحی بنیادوں پر اس سوچ کی درستی لازم ہے کہ ایمان کا اولین تقاضا اپنے کردار و اعمال کی درستی ہے نہ کہ دوسروں پر حدیں نافذ کرنا۔ علما اس ذمہ داری سے کیسے نظریں چرا سکتے ہیں؟ حضرتِ اقبالؔ یاد آتے ہیں۔

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں

پسِ تحریر: ‘ہم سب’ کی جانب سے رواداری کے فروغ کے لیے علمائے کرام کے انٹرویوز کا سلسلہ قابلِ تحسین ہے۔ احمد لدھیانوی صاحب سے شروعات بھی قابلِ ستائش، کہ تکفیریت کے فروغ میں ان کی جماعت کا قابلِ قدر حصہ ہے۔۔۔ تجویز صرف اتنی ہے کہ انٹرویو کا سوالنامہ ترتیب دیتے ہوئے خیال رکھا جائے کہ مقصد معاشرتی اصلاح ہی رہے نا کہ علماء اور سیاسی شخصیات کی ذاتی تشہیر۔

(محترم ظفر عباس، آپ کی تحریر جس قدر مدلل اور پرتاثیر ہے۔ خاتمہ کلام پر آپ کی تجویز بھی اسی قدر صائب ہے۔ ہم سب سوالات کی حد تک پوری کوشش کرے گا کہ مقصد معاشرے میں ہم آہنگی، رواداری اور امن کا فروغ رہے۔ ہمیں قوم کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی بلند نظری سے پوری توقع ہے کہ وہ اصولی مکالمے کو ذاتی تشہیر کے فروتر مقصد کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ مدیر)   


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).