جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ کے عالمی ادب پر اثرات


پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ واقعی صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

اس فیصلے کے بعد میاں صاحب کا معاملہ تین راستوں پر بھٹک چکا ہے

1۔ اخلاقی طور پر میاں صاحب پانامہ لیکس میں ان کے بیٹوں کی آف شور کمپنیوں کی انکشاف کے دن سے ہی مجرم ہیں کیونکہ ٹیکس دستاویزات میں غیر ظاہر شدہ آف شور کمپنی کا مطلب ہی غیرقانونی دولت ہوتی ہے۔ اس انکشاف کے بعد یہ بحث کہ کمپنیز کس کے نام پر ہیں، کون زیر کفالت ہے اور کون نہیں ہے، قطری شہزادے کی دریا دلی کی حقیقت کیا ہے، ان ساری باتوں کی حقیقت ان عدالتی حیلہ بازیوں کی ہے جیسے کسی ہتک عزت کا دعوی دائر کرنے والے شخص سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ پہلے خود کو باعزت ثابت کرے۔

2۔ ’ادبی‘ طور پر بھی میاں صاحب جسٹس کھوسہ کی اختلافی نوٹ میں گاڈ فادر کی حوالے کے بعد مجرم بن چکے ہیں۔ چونکہ گاڈ فادر میں ماریو پوزو طے کر چکے ہیں کہ ’ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘ اور میاں نوازشریف کے پاس چونکہ بڑی دولت ہے اس لیے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مجرم ہیں۔ جسٹس سعید نے اس ڈائیلاگ کی مددسے ایک بڑا مسئلہ تو چٹکی بجاتے ہی حل کردیا مگر اس ’حل‘ سے خود کئی اور مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’بڑی دولت‘ کی قانونی مقدار کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس سے بڑی دولت سے وابستہ لازمی جرم کی نوعیت کیا ہے۔ بادی النظر میں تو بڑی اور چھوٹی دولت فلسفے کی اصطلاح میں ایک نسبی اور اضافی چیز ہے یعنی کہ فرد سے فرد اس کا تصور مختلف ہوتا ہے تو گویا کہ 10 لاکھ روپیہ کی دولت رکھنے والا شخص 5 لاکھ روپیہ والے کے نزدیک مجرم ہوتا ہے اور 5 لاکھ روپیہ رکھنے والا آدمی کو 2 لاکھ روپیہ کا مالک مجرم سمجھ سکتا ہے اس حساب سے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مجرم دنیا میں سب سے زیادہ فلاحی کام کرنے والا شخص بل گیٹس ہے۔

3۔ قانونی لحاظ سے میاں صاحب کے جرم کا فیصلہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیق کے نتیجے میں مرتب ہونے والے رپورٹ کی عدالت کے سامنے آنے کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔

اب آپ کو بتانا یہ ہے کہ یہ فیصلہ تاریخی فیصلہ کس معنی میں ہے؟ اس فیصلے نے مستقبل میں ججز اور وکلا کا کام آسان اور ادبی تخلیق کاروں کا کام مشکل بنا دیا ہے۔

20 اپریل 2017 سے پہلے کی دنیا میں ججوں اور وکلاء کا کام عدالتی فیصلوں کی نظائر اور قانون کے دفعات کی تلاش کے گرد گھومتا تھا جبکہ ناول نگار تخیل کی کھلی فضا میں محو پرواز ہوکر خوبصورت ادبی شہ پارے تخلیق کیا کرتے تھے۔

مگر 20 اپریل کے بعد عدالت کی دنیا بدل گئی ہے۔ اب جج عدالتی نظائر اور قانونی شواہد کے بجائے اپنے فیصلوں کے لیے کسی بھی ناول اور فلم کے کسی بھی ڈائیلاگ کو بنیاد بنا سکتے ہیں جبکہ اس صورتحال نے مستقبل کی تخلیق کاروں کے لیے سوچنے اور لکھنے کا دائرہ انتہائی محدود کردیا ہے۔ اب ہر تخلیق کار کو لکھتے ہوئے یہ چیز بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ اس کے ذہن میں آیا ہوا کوئی بھی خیال اور اس خیال سے ابھرنے والا کوئی جملہ کسی حکومت کو گرا بھی سکتا ہے، اس کے ناول کا کوئی بھی حصہ کسی عدالتی فیصلے کی بنیاد بن کر کسی انسان کی جان لینے کا سبب بھی بن سکتا ہے، لہذا عدالتی فیصلوں کے لیے ”ادبی نظائر“ کا استعمال شروع ہوجانے کے بعد اب یقینا ناول نگاروں کو لکھنا ہی قانون اور آئین کے دایرے کے اندر ہوگا۔ مگر تخلیق کار چونکہ تخلیق کار ہوتے ہیں اس لیے اس مشکل کا حل وہ اس نئی تخلیق کو اپنا کر نکال سکتے ہیں کہ جس طرح ڈاکٹر کلینک کے پرچوں پر انگریزی میں یہ نوٹ لکھا کرتے ہیں کہ Not valid for medico legal purposes ” یہ پرچی / رپورٹ عدالتی امور میں استعمال کے لیے کار آمد نہیں ہے ” پاکستان کے اندر چپھنے والے تمام ناولوں پر ایسے نوٹ کو لکھنے کا اہتمام کیا جائے گا مگر چونکہ پاکستان سے باہر شائع ہونے والے فکشن کے قارئین کے لیے شاید یہ جملہ غیر ضروری اور ناقابل فہم ہو اس لیے وہ پاکستان کے ججوں کی قانونی کارروائی کے لیے ادبی تخلیقات سے مدد لینے کے ’اجتہاد‘ کے بعد اپنی کتابوں میں کوئی اس طرح کی عبارت لکھناشروع کریں گے جس طرح کی عبارت ہمارے پاسپورٹ پر لکھی ہوتی ہے کہ ”یہ پاسپورٹ سواے اسرائیل کے دنیا کی تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے“ ۔ جسٹس سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ کے بعد عالمی ادب کو اپنے اوپر پڑھنے والے اثرات کے بارے میں سوچنا ہوگا ورنہ کوئی بھی ناول کسی بھی جج کے ہاتھ لگ جائے تو اس کا کوئی بھی جملہ اور منظر ”حقیقت“ کا روپ دھار سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).