فرزانہ ادبی میلے میں گم ہوگئی


وہ نوجوان وہ خوش لباس، خوب صورت اور اجلی آنکھوں والی فرزانہ، وہ بات بات پر کھلکھلانے والی وہ اونچے اونچے خیالوں کی پروازوں کو اپنے الفاظوں میں قید کرنے والی فرزانہ خود ادبی میلے میں گم ہوگئی ہے۔

کل یعنی پیر کے روز اسلام آباد کے قدرتی پارک شکر پڑیاں میں واقع پاک چین دوستی مرکز میں تین روزہ ملکی ادبی میلے کا آخری دن تھا، کیسے ممکن تھا کہ فرزانہ وہاں نہ ہوتی، وہ خود شاعرہ تھی اور اس کے خاوند بشیر اسماعیل تھیٹر آرٹسٹ اور مصنف ہیں دونوں وہیں تھے، اور پھر جب سے فرزانہ کا پہلا شعری مجموعہ ’’ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے‘‘ چھپ کر کتابی صورت میں اس کے پاس آیا تھا وہ یونہی ہر ادبی محفل میں اپنا کلام ادیبوں کو پیش کرتی تھی۔ تین مئی کو اس کی کتاب کی تقریب رونمائی ہونا تھی۔
پاک چین دوستی مرکز میں کل علم و عرفان کے متلاشی بھرے ہوئے تھے، تل دھرنے کو جگہ نہ تھِی، مرکزی ہال میں اختتامی تقریب اپنے آخری لمحے گزار رہی تھی جہاں اسٹیج پر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال موجود تھے جنہیں وی آئی پی پروٹوکول دینے کے لیے وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی اور شاعر انعام الحق جاوید بھی موجود تھے۔ فرزانہ ناز نے اپنی کتاب مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑی، اسٹیج پر جہاں سارے ادیب و شعرا مل رہے تھے وہیں فرزانہ نے اپنی کتاب وزیر احسن اقبال کی خدمت میں پیش کی، پندرہ بیس فٹ اونچے اس اسٹیج پر رش زیادہ تھا، فرزانہ کے خاوند اسماعیل بشیر بھی وہیں تھے وہ کہتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلا رش میں کہ اچانک فرزانہ کا توازن ڈگمگایا اور اونچے قد کے اس اسٹیج سے وہ نیچے گری، نیچے ماربل کا فرش تھا جس کی وجہ سے فرزانہ کا سر پھٹا اور ریڑھ کی ہڈی چکنا چور ہوئی، فرش پر خون پھیل گیا۔ ارد گرد سارے احباب ہی تو تھے، سب فرزانہ کو لے کر بھاگے، ہال سے باہر نکلنے کا رستہ طویل ہے، پھر رش بھی تھا، سو جیسے تیسے اسے باہر کے مرکزی دروازے تک پہنچایا گیا۔

اب ماتم کریں اس کروڑوں کی محفل ادب سجانے والوں کی عقلوں پر کہ جنہوں نے پورے اسلام آباد میں ادبی میلے کے بینرز تو لگا دیئے مگر میلے میں ایک ایمبولینس تک کا انتظام کرانا نظر انداز کردیا، ایسا مقام جہاں ہزاروں کا مجمع تین دن تک جمع ہوتا رہا وہاں نہ کوئی ابتدائی طبی امداد تھی جو فرزانہ کو ملتی نہ ہی کوئی ایمبولنس۔۔
آئیں مل کر اس بے ادبی کا نوحہ پڑھیں کہ اس شیریں بیان فرزانہ کو پولیس موبائل میں ڈال کر شفاء اسپتال پہنچایا گیا۔
جہاں ڈاکٹرز کا پہلا سوال یہ تھا کہ مریض کو اتنی دیر سے کیوں لائے ہیں، انکا کافی خون تو بہہ گیا ہے۔ یہ وہی خون تھا جو ایمبولینس کے انتظار اور دوسری گاڑی کے انتظام میں بہا تھا۔ فرزانہ وہ جو میلے میں گم ہوئی تھی نا، آج مر گئی۔

فرزانہ کے مالی حالات کے حوالے سے جو کچھ احباب نے بتایا وہ کچھ اتنا حوصلہ افزاء نہیں، اس کے دو بچے وصی حیدر اور ہما زہرا ابھی بہت کم سن ہیں۔

آپ کو کچھ سمجھ آئے تو مجھے بھی سمجھا دیں، غلطی فرزانہ کی تھی کہ جس کے قدم کی معمولی سی لرزش سے وہ موت کی اندھیری کھائی میں جا گری، غفلت اس ادبی میلے کو سجانے والوں کی ہے جو مجمع میں ابتدائی طبی امداد اسٹینڈ بائی پر رکھنے کا معمولی نکتہ نہیں جان پائے، جنہیں یہ تک علم نہیں کہ ایسے میلے ٹھیلوں میں اور کچھ نہیں تو ایدھی فاونڈیشن کو ایک فون گھما کر احتیاطی تدبیر کے طور پر ایک ایمبولینس منگوا کر کھڑی رکھی جاتی ہے۔ یا پھر بے حسی پاک چین دوستی مرکز کی انتظامیہ کی ہے جو کہ اس اسٹیج کی اونچائی کے حساب سے حفاظتی اقدامات نہیں کرسکے باوجود اس کے کہ ماضی میں بھی اسی اسٹیج سے گرنے کے واقعات ہوچکے ہیں۔۔

ابھی ایک ہفتہ قبل ہم مردان میں بے خطا مارے جانیوالے مشعال کی لکھی لائنز پڑھ کر آنسو بہا رہے تھے۔ آئیں آج مل کر فرزانہ کا کلام پڑھتے ہیں اگرچہ داد و تحسین وصولنے کے لیے مشال کی طرح وہ بھی نہیں۔

خوش گمانی کی اڑتی ہوئی تتلیاں
رنگ کھو دیں گی، بے موت مر جائیں گی
اسی لیے نیند سے میری بنتی نہیں
آنکھ لگتی نہیں

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi