قندھاری انار، لعل بدخشاں اور احسان اللہ کا احسان


 منٹو نے آغا حشر سے ایک ملاقات کا احوال مزے لے لے کر لکھا۔ آغا حشر حسب معمول دون کی لے رہے تھے ۔ہندوستان کے مشاہیر ادیبوں کو خطیبانہ آہنگ میں لتاڑ رہے تھے۔ کلکتہ اور بمبئی کے سیٹھوں کی ہشت پشت بیان کر رہے تھے۔ بیچ بیچ میں رک کر پوچھتے تھے کہ مختار بیگم کیوں نہیں آئیں اور یہ کہ جس ملازم کو قندھاری انار لینے بھیجا تھا، وہ کہاں رہ گیا؟ خدا معلوم مختار بیگم اور قندھاری انار میں کیا تعلق تھا۔

بالآخر ملازم نمودار ہوا اور بڑی عقیدت سے رس بھرے سرخ قندھاری انار آغا صاحب کی خدمت میں پیش کئے۔ آغا صاحب کو انار پسند نہیں آئے۔ کچھ گالیوں کی صورت میں نوکر کے درجے بلند کئے ۔ قندھاری اناروں کی ہجو بیان کی اور آخر میں اس غریب کو حکم دیا کہ اٹھا کے لے جا، خود کھا لینا۔ آغا حشر کے ذوق کی بلندی کیا کہنا۔ قندھار کے جن اناروں کے انتظار میں شام غارت کی تھی، اٹھا کے ملازم کو بخش دئیے۔

آغا حشر کے تلون کا یہ قصہ اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان پڑھ کر یاد آیا۔ یقین ہو گیا کہ احسان اللہ احسان کہیں نہ کہیں طالب ضرور رہے ہیں۔ ایسا آموختہ حفظ کرنا اور پھر اٹکے بغیر فر فر سنانا … ہماری نسل نے رضا شاہ پہلوی ، چائو شسکو، نوریگا اور صدام حسین کو مطلق العنان آمر سے ژولیدہ مو شخص کے روپ میں تبدیل ہوتے دیکھ رکھا ہے۔ ہم نے سپاہی کے کروفر کو جنگی قیدی کی بے بسی میں ڈھلتے دیکھا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ناگ دیوتا کی پھنکار میں کیچوے کی کمزوری پوشیدہ ہوتی ہے۔

پانچ برس قبل 2012 ء میں بنوں جیل پر حملہ کر کے چار سو دہشت گرد رہا کرائے گئے۔ تب ہم اخبار میں دہشت گرد کو شدت پسند لکھا کرتے تھے۔ فرار ہونے والے شدت پسندوں نے جیل کے احاطے میں باقاعدہ جشن منایا، مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے چھ قیدیوں کو قتل کیا، عدنان رشید نامی قیدی کی باقاعدہ سہرا بندی کی اور قافلے کی صورت میں نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ نامعلوم مقام پر عدنان رشید صاحب نمودار ہوئے تو ان کے جلو میں احسان اللہ احسان تشریف فرما تھے۔ گوریلا لباس میں ناخن سے دانت تک مسلح مخلوق عقب میں صفیں باندھے کھڑی تھی۔ پارسی تھیٹر کی اس سین بندی کاایسا رعاب شعاب تھاکہ سب دہل کر رہ گئے۔

دراصل ان دنوں مصروفیت زیادہ تھی اور ہم نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ شمالی وزیرستان جانے سے وقت ضائع ہو گا ۔ عمران خان بتایا کرتے تھے کہ شدت پسندوں کے لشکر جرار سے پنجہ آزمائی میں کامیابی کا امکان صرف چالیس فیصد ہے۔ پنجاب مسلم لیگ کے رہنما بتایا کرتے تھے کہ پنجابی طالبان کی اصطلاح محض پنجاب کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ احسان اللہ احسان گھوڑے پر سوار ہو کر درشن دیتے تھے اور ان کے اسپ تازی کی ٹاپوں میں صلاح الدین ایوبی کی عظمت سنائی دیتی تھی۔

اب بتایا گیا ہے کہ احسان اللہ احسان تو مہمند ایجنسی کے لیاقت علی تھے۔ 2007 ء میں کالج کے طالب علم تھے۔ تب کوئی بیس برس کے قریب عمر تھی۔ اندھیرے کا خوف دراصل نامعلوم کا خوف ہوتا ہے۔ احسان اللہ احسان نے بتایا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہندوستان ، افغانستان اور مغربی ممالک کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ خالد عمر خراسانی جیسے طالبان کو اسرائیل سے مدد لینے میں بھی باک نہیں۔ ملا فضل اللہ کے ذاتی کردار پر بھی کچھ روشنی ڈالی ہے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانےوالے عالی مرتبت طالبان کی کچھ صفات بھی احسان اللہ احسان بیان کرتے ہیں۔

دقت اس میں یہ ہے کہ آغا حشر کے مکالموں میں مبالغے کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پردہ اٹھ چکا ہے یا پردہ گر گیا ہے۔ احسان اللہ احسان تو قندھاری انار ہی نکلے۔ کچھ سوال البتہ دیر سے رکھے گئے ہیں ۔ اب پوچھ لیں تو بہتر ہے۔ گھاس کی پتی پر پڑے شبنم کے قطرے بے ثبات ہوتے ہیں۔ اعترافی بیان کا مسودہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔

طالبان کے طریقہ واردات کی تفصیلات غیراہم ہیں۔ بیرونی قوتوں کی طرف سے ان کی سرپرستی میں کوئی انکشاف نہیں۔ ویت نام کے گوریلا فوجیوں کی پناہ گاہیں کمبوڈیا میں تھیں، مالی ، سیاسی اور مسلح سرپرستی کے اثاثے چین میں تھے۔ غیر متناسب لڑائی کا یہ نقشہ کوئی نئی تحقیق نہیں ۔

معلوم تو یہ کرناہے کہ سیاست اور معاشرت کا یہ نمونہ ہمارے ہاں کیسے نمودار ہوا۔ پاکستانی نوجوانوں نے کب اور کیوں طالبان میں شمولیت اختیار کی۔ طالبان کے تصور عالم اور سیاسی سوچ کو پاکستان میں کیسے پذیرائی ملی۔ جمہوریت کو باطل نظام کہنے والے ہمارے صحن میں کیسے پلتے رہے۔ ہمارے آئین کی اہانت کرنے والے کس برتے پر تتا پانی مانگتے رہے۔ ہماری سرحدوں کو پامال کرنے والوں کو ہمدرد عناصر کہاں سے ملے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد جن پرفتوح ہستیوں نے مغربی جمہوریت کے ذریعے ملنے والی آزاد مملکت میں جمہوریت کو برا بھلا کہنا شروع کیا تھا انہوں نے طالبان سوچ کے بیج بوئے تھے۔ جغرافیائی سرحدوں کو روندنے کا عزم پالنے والوں نے ریاست کی عمل داری میں نقب لگائی ۔ نظریہ ضرورت کے تحت کامیاب بغاوت حکومت کا جواز ہے تو جو بندوق اٹھا سکتا ہے وہ حکومت بھی مانگے گا۔ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں میں شریک ہونے والوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ عالمی قوتوں کی رسہ کشی میں ہماری ریاست بے وقعت ہو جائے گی۔ اسے ایسے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا جو ہماری حیطہ خیال اور وسائل سے ماورا ہوں گے۔ سوویت یونین کی فوج 25 دسمبر 1979 ء کو افغانستان میں اتری۔ ہم تو اکتوبر 79 ء میں جہاد کے فتوے جاری کر رہے تھے۔

جنیوا معاہدے کے بعد ہم نے کابل کی مسجدوں میں سجدہ شکر کا نسیم حجازی منصوبہ باندھا تھا۔ نائن الیون کے بعد پالیسی کی تبدیلی میں تاخیر ، التوا اور چشم پوشی کے آلات ہم نے میدان میں اتارے تھے۔ سلامتی کونسل کی جس قرارداد کی روشنی میں طالبان کی حکومت ختم کی گئی ، ہم نے اس قرارداد کو کبھی مسترد نہیں کیا البتہ دبے لفظوں میں اعلان کرتے رہے کہ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں طالبان کی مزاحمت جدوجہد آزادی ہے۔

ہم نے ڈرون حملوں کو دہشت گردی کی وجہ قرار دیا۔ ہم نے ڈو مور کو بیرونی دبائو کا نام دیا۔ ہم نے پاکستان کے لئے امن، رواداری اور معاشی ترقی کے خواب دیکھنے والوں کو سیکورٹی رسک قرار دیا۔ ہم بدعنوانی کے بہت پرانے معاملات کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں۔ ہمیں مارچ 1989ء میں جلال آباد حملے میں افغان حکومت کا کردار بھی پوچھ لینا چاہئے۔ دسمبر 1999 ء میں قندھار طیارہ اغوا میں ہندوستان کا ہاتھ دریافت کرنا چاہئے۔ لال مسجد کے مشرع رہنما سوات میں قاضی عدل لانے والوں کے حامی تھے ۔

احسان اللہ سے پوچھنا چاہئے کہ اس گٹھ جوڑ میں کس غیر ملکی قوت کا ہاتھ تھا۔ ہم نے جمہوری ریاست کو مذہبی تشخص دیا تھا تو ہمیں مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے غیر ریاستی عناصر کی توقع بھی رکھنی چاہئے۔ ہم نے وفاق کی اکائیوں کے لئے آواز اٹھانے والی سیاسی قوتوں کو وطن دشمن قرار دیا تھا تو ہمیں اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ ریاست ہی کو ملیامیٹ کرنے والے بھی نمودار ہوں گے۔ معلوم کرنا چاہئے کہ طالبان سے مذاکرات کا مطالبہ کرنے والے اور پاکستان میں طالبان کے دفتر کھلوانے کے خواہش مند کس غیر ملکی قوت کے کارندے تھے۔ پوچھنا چاہئے کہ دہشت گردی کی مزاحمت میں ہتھیلی پر سر رکھ کر نکلنے والوں کو لبرل فاشسٹ کس نے کہا تھا۔ سوال کی آنکھ پر پٹی باندھ دی جائے تو شہر کی فصیل پر بے چہرہ لشکر اترا کرتے ہیں۔ احسان اللہ احسان تو پلیٹ میں رکھا قندھاری انار ہے۔ ہمارے افق پر آفتاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا ہے۔

29 اپریل 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).