لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان عرف بھولا!


پرانے لاہور میں جو 12 دروازوں کے اندر آباد ہے ہر گھر میں ایک بھولا ضرور ہوتا ہے۔ ہر گھر میں نہ سہی، ہر خاندان میں ایک بھولا ہوتا ہے۔

یہ بھولا ایک گول مٹول شریر بچہ ہوتا ہے۔ اکثر بھولے دادی کے لاڈلے ہوتے ہیں اور ماں کو ماں کی بجائے ‘بھابھی’ کہتے ہیں۔

چونکہ بھولے کو دادی نے اس وقت ماں کی گود سے اچک لیا ہوتا ہے جب وہ ماں اور ماں سے زیادہ چاہنے والی کے درمیان فرق نہیں سمجھ سکتا اس لیے دادی کو ‘بڑی امی’ کہتا ہے۔

بھولا دادا کو بھی ‘بڑے ابو’ اور اپنے باپ کو بھائی جان کہتا ہے۔ بھولا ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے اپنے قریبی بھولے سے رجوع کیجیے۔

اصل میں بھولے کے ذہن میں پیدائش کے وقت سے ہی کچھ ایسی کنفیوژن بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ وہ ہر رشتے کو وہ نہیں سمجھتا جو کہ وہ ہوتا ہے۔

بھولے اکثر ہڈ حرام اور ہری چگ ہوتے ہیں۔ ان کو ادھر کی بات ادھر کرنے کا لپکا بھی ہوتا ہے۔ دادی کی کہی، ماں کو اور ماں کی کہی دادی کو جڑنے کو ہمہ وقت مستعد، خاندان کے ہر بڑے جھگڑے میں بھولے کا نام لیا جاتا ہے۔

موصوف کو اپنے پیٹ کی اتنی پڑی رہتی ہے کہ محلے بھر کی لڑکیوں کو دور دراز محلوں کے لونڈوں کے خط بھی فقط ایک آدھ قلفی کے پیچھے لا دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو اپنے استاد کی بیٹی کو بھی کسی رنگ برنگے شخص کا خط پہنچا دیتے ہیں آخر بھولے جو ٹھہرے۔ بھولے میاں کا حلیہ ہر دور، ہر زمانے اور ہر عہد میں ایک سا ہوتا ہے۔

گھٹا ہوا جسم، منہ پہ بیک وقت حماقت اور عیاری کی گنگا جمی کیفیت، کان ذرا سے بڑے گال خوب چکنے اور تنے ہوئے، جس سے آنکھیں زیادہ ہی چنی محسوس ہوتی ہیں۔ توند بھی ذرا مدور اور ہمارے ممدوح کے جسم سے کچھ دور تک پھیلی ہوئی۔ ایک ایسی بولی بولتے ہیں جو اردو ہونے کے باوجود کچھ ولائتی سی لگتی ہے، مگر یہ ولائت کہیں شمال مشرق کی طرف واقع معلوم پڑتی ہے۔

بھولا محلے کے بچوں پر ہیکڑی جماتا ہے، جوانوں کو سہمانے کی کوشش کرتا ہے، بزرگوں کو ٹھگتا ہے، ایک کی چیز دس کی لا کر دیتا ہے، راہ چلتی عورتوں کو گھورتا ہے، کھانے پہ بیٹھے تو سب کا کھانا اکیلا کھا جائے، بولنے پہ آئے تو اپنی بد زبانی سے سب کے دل چیر دے۔ ہر فساد کا بانی اور ہر جھگڑے کی روحِ رواں، یہ بھولا محلے کے سکون کا دشمن، خاندان کے سکھ کا قاتل اور شہر بھر کی خوشیوں میں کھنڈت ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔

حیرت اس بات کی ہے کہ ساتوں شرعی عیب پالنے والا یہ بھولا، ہر حرکت کے بعد بھی رہتا بھولا ہی ہے۔ سب کا دلارا، آنکھ کا تارا، جب کسی بری حرکت کے بعد دادی کے پاس پہنچتا ہے تو وہ فوراً دوپٹے سے منہ پونچھ، بلائیں لیتی ہیں اور پھلنے پھولنے کی دعائیں دیتی ہیں۔

ماں کے پاس پہنچتا ہے تو وہ بھی تخمِ بلنگاں کا شربت لیے اپنے لعل پہ نثار ہونے کو کھڑی ہوتی ہے۔ یہاں آ کے میری عقل جواب دے جاتی تھی کہ آخر، یہ کیا مصلحت ہے کہ اچھے بھلے ذہین فطین بچوں کی بجائے بھولے کی اتنی ٹہل سیوا ہوتی ہے۔

یہ سوال، سوال ہی رہ جاتا لیکن، احسان اللہ احسان کے تائب ہو کر واپس آنے اور اس کے لاڈ لڈانے پہ عوامی غم و غصہ دیکھ کر مجھے اپنے اس سوال کا جواب مل گیا۔

لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان عرف بھولا جماعت الاحرار کا ترجمان رہا ہے لیکن چونکہ جماعت میں سب سفاک تھے تو روایت کی پاسداری کو اسے بھولا بننا ہی پڑا، اب اس کے آگے کہنے سننے کو کیا رہ جا تا ہے۔ بھولا آخر بھولے والی حرکتیں نہ کرتا تو کیا کرتا؟

ہم پاکستانیوں کی یہ عادت بہت بری ہے کہ اپنے آگے کسی کی نہیں سنتے۔ ذرا بھولے، معاف کیجیے احسان کے جوتوں میں کھڑے ہو کر دیکھیے اور اگر کسی وجہ سے اس کے جوتوں سے کراہیت آ رہی ہے تو بے شک مت کھڑے ہویے مگر خدارا، اتنے سنگ دل نہ بنیے، آخر بھولا ہی تو ہے، ارے اپنا بھولا، پہچانا نہیں؟ کوئی بات نہیں بھولا بھی آپ کو نہیں پہچانتا۔ خاموش رہیے اور اگلے منظر کا پردہ اٹھنے کا انتظار کیجیے۔ فلم ابھی باقی ہے میرے دوست!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).