سیاست اور قانون


جیسا کہ توقع تھی، پاناما انکشافات کے کیس پر سپریم کورٹ بنچ کے 3/2 فیصلے نے معاملات سلجھانے کی بجائے ایک تلخ سیاسی تنازع کو ہوا دیتے ہوئے ملک میں تنائو کو بڑھا دیا ہے ۔ پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق فتح کا جشن منایا۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ تمام جج اس بات پر متفق تھے کہ نواز شریف نے اپنی رقم کی ترسیل(money trail) کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا، جبکہ فریق ِ ثانی کا موقف ہے کہ ججوں کی اکثریت نے وزیر ِاعظم کو نااہل قرار نہیں دیا۔ چنانچہ اب یہ معاملہ تشکیل پانے والی جے آئی ٹی کی ساکھ اور صلاحیت پر آن پڑا ہے کہ وہ ساٹھ روز کے اندرشفاف تحقیقات کرے اور نتائج دے ۔ اس دوران طرفین فیصلے کو حتمی طور پر اپنے حق میں کرنے کے لیے نظر ِ ثانی کی اپیل دائر کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں، نیز اس کے مضمرات پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ فیصلے پر کیا گیا زیادہ ترتجزیہ مبصرین کے سیاسی جھکائو کا آئینہ دار دکھائی دیتا ہے ۔

ابہام کی دھند دور کرنے کے لیے دی گئی آراکے برعکس کچھ حقائق کا ذکر برمحل ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کی رائے نے نئی قانونی جہت متعارف کرادی ہے جس کے ریاست اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 ، جو تعین کرتے ہیں کہ کون اچھا مسلمان ہے اور کون نہیں، پر تکیہ کرنا خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتاہے ۔ دوسری یہ کہ اکثریتی ججوں نے معاملے کی مزید تحقیقات کی ذمہ داری ایک جے آئی ٹی کو سونپ دی ہے ۔ اس ٹیم میں احتساب کرنے والے ایسے اداروں کے نمائندے بھی شامل ہیں جن پر فاضل عدالت پہلے عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے ۔ تیسری بات یہ کہ تمام جج حضرات نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مریم نوازصاحبہ وزیر ِاعظم نواز شریف کی زیر ِکفالت اولاد نہیں، ہرچند اُنھوں نے جے آئی ٹی کو لندن جائیداد کی ملکیت کا پتہ چلانے کی ہدایت کی ہے ۔ مریم نوازکو اس جائیداد سے فائدہ اٹھانے والی مالک ، یا ٹرسٹی،بتایا جاتا ہے ۔

یہ آخری حقیقت اہم ہے ۔ قانونی طور پر مریم نواز لندن جائیداد کا مسٹر شریف کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ پاناما انکشافات میں جس سمندر پار کمپنی کا ذکر تھا ، اُس کے مطابق نواز شریف اس جائیداد سے مالی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل نہیں۔فاضل جج صاحبان نے یہ بھی کہا نوازشریف کے پارلیمنٹ کے اندر یا باہر دئیے گئے بیانات، جن میں تضاد پایا جاتا ہے ، غیر اہم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں رقم کی ترسیل کی بابت تحقیقات اب صرف نواز شریف کے بیٹوں اور ایک بیٹی سے ہونی ہیں۔ اگر جے آئی ٹی یہ ثابت کرسکے کہ اُنھوںنے دروغ گوئی سے کام لیا تھا تو اُنہیں اس کی سزا مل جائے گی۔ چونکہ مریم اس وقت نوازشریف کی زیر ِ کفالت اولاد نہیں ، اس لیے اُس کے افعال کی سزا نواز شریف کو نہیں مل سکتی ۔

تاہم ایک اور طریقے سے جے آئی ٹی نوازشریف کے گرد گھیرا تنگ کرسکتی ہے ۔ اس کے لیے حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولتے ہوئے ثابت کرنا ہوگا کہ نوازشریف نے اس کے ذریعے مبینہ طور پروسیع پیمانے پر منی لانڈرنگ کی تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ کیاساٹھ دنوں میں ایسا کرنا ممکن ہے ۔ ایک اورپریشان کن عنصر یہ ہے کہ اس کیس میں قانون سے زیادہ سیاسی بحث کا غلبہ ہونے کا تاثر ملتا ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان، جناب ثاقب نثار کی عمران خان کو کی گئی ہدایت، کہ عدالتوں پر سیاسی دبائو میں کمی لائی جائے، بذات ِخو د ایک نادر مثال ہے ۔ اس سے پہلے جب چیف صاحب پر ’’نواز شریف کے قریبی‘‘ ہونے کا الزام لگا تو اُنہیں قرآن مجید کی قسم کھاکر اپنی غیر جانبداری کا یقین دلانا پڑا تھا۔آئی ایس پی آر کے ذریعے فوج کی اعلیٰ کمان کا بیان بھی سیاسی دبائو کا نتیجہ لگتا ہے کہ اُن کا ادارہ اپنی غیر جانبداری اور شفافیت کی روایت کو برقرار رکھے گا۔ اکثریتی فیصلہ لکھنے والے ججوں میں ایک کے خلاف چلائی جانے والی مہم بھی اسی دبائو کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف کو منصب سے ہٹانے والی اس مہم جوئی کا روز ِاوّ ل سے ہی انحصار قانونی دلائل کی بجائے سیاسی دبائو پر تھا۔ اس کا آغاز عمران کے 2014-15 کے لانگ مارچ اور دھرنوںسے ہوا۔ جب وہ نواز شریف کو ہٹانے میں ناکام ہوگئے تو پی ٹی آئی کی قیادت میں اپوزیشن عدالت میں چلی گئی اور وسیع پیمانے پر کی گئی انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا۔ جب چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن ، جسے اپوزیشن نے بھی منظور کیا تھا، نے الزامات کو مسترد کردیا تو پی ٹی آئی نے گلیوں میں احتجاج کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ اکتوبر کو اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کی دھمکی بھی دی۔ جب حکومت نے اس ’’شورش ‘‘ کی کوشش ناکام بنا دی تو پی ٹی آئی کے ہاتھ پاناما لیکس کا ہتھیار لگ گیا اور وہ ایک بار پھر عدالت میں چلی گئی ( اس سے پہلے عدالت اس پٹیشن کی سماعت سے انکار کرچکی تھی)۔ اس دوران پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر بھی دبائو ڈالتے ہوئے اپنی بات منوانے کی کوشش کی ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مبینہ فراڈ کے الزام کی تحقیقات کے لیے دی گئی پٹیشن کی سماعت نہیں چاہتی ۔ چیف الیکشن کمشنرنے عمران خان کودھمکی دی کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ مجروح کرنے کی پاداش میں اُنہیں عدالت میں لے کر جائیں گے ۔ اس طرح یہ معاملہ مزید سیاسی رنگ میں رنگا جائے گا۔اس کے جواب میں پی ایم ایل (ن) بھی اپنا بچائو کرنے کے لیے سیاسی دائوکھیلے گی۔ اس کشمکش میں فوج کو بھی شامل کرلیا گیا ہے ، جیسا کہ ماضی میں بھی مقتدر ادارے کی طرف آخری سہارے کے طورپر دیکھا جاتا تھا۔ اور یہ پیش رفت جمہوری پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).