ہمارا دن آٹھ گھنٹے کا کیسے ہوا؟


پچھلے سال لندن کے مشہور ٹرافلگر اسکوائر میں یکم مئی پر ہونے والی سالانہ ریلی میں شریک میرے لئے آس پاس کے مناظر بہت حیران کن تھے۔ وسیع و عریض اسٹیج سے انتہائی جوشیلی اور جذباتی تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔ لیبر پارٹی جو بنیادی طور پر خود سرمایہ داروں کی نمائندہ پارٹی ہے کے نسبتاً بائیں بازو کے رہنما جیرمی کوربن اور جان میکڈونل خطاب کرکے اتر چکے تھے۔ برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے جونئیر ڈاکٹرز کے نمائندے حاضرین سے مخاطب تھے اور بتا رہے تھے کہ اگر حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے نئے معاہدے ڈاکٹرز پر لاگو ہوگئے تو اس کے انتہائی منفی اثرات ناصرف شعبۂ طب پر مرتب ہوں گے بلکہ پورا معاشرہ اس کی زد میں آجائے گا۔ یاد رہے کہ یہ نیا معاہدہ صرف ایک نکتہ کے گرد گھومتا ہے جو یہ ہے کہ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی کو عام دنوں کے مساوی تسلیم کر لیا جائے جبکہ فی الوقت ڈاکٹرز سمیت ایسے تمام ورکرز کو جو ویک اینڈ سمیت سرکاری تعطیلات پر بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں انہیں اس کام کی دگنی تنخواہ یا بعد میں ایک اضافی چھٹی لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

دنیا کے اکثر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی ڈاکٹروں کا شمار متمول افراد میں کیا جاتا ہے۔ سرکاری نشر و اشاعت کے ادارے بی بی سی سمیت دائیں بازو کے مختلف اخبارات نے اس معاشی حقیقت کی بار بار تکرار کی تاکہ عوام جن کی واضح اکثریت کا معیارِ زندگی ڈاکٹرز سے پست ہے ان ہڑتالوں سے متنفر ہو جائیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال عوام الناس کی ہمدردیاں اور حمایت ڈاکٹروں کے ساتھ رہی ہیں۔

اس روز ٹرافلگر اسکوائر پر بہت سے اسٹالز لگے ہوئے نظر آئے۔ چہار سو لہراتے سرخ بینرز پر نمایاں جن تصاویر کو میں پہچان سکا ان میں کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، لینن، اسٹالن، چی گویرا، ٹراٹسکی، ماؤ زے تنگ، فیدل کاسترو نظر آئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے تین مختلف دھڑوں سمیت بائیں بازو کی مختلف النوع تنظیموں کے ڈھیروں خیموں کے سامنے مائیکروفون ہاتھ میں لئے آتش بیان خطیب گرج رہے تھے۔ افغانستان، عراق، فلسطین، لیبیا اور شام میں بیرونی مداخلت پر امریکہ اور برطانیہ کے خوب لتے لئے جارہے تھے۔ افریقہ کی مسلسل زبوں حالی کا نوحہ تھا۔ ایک زہرہ جبین مقررہ شمالی آئرلینڈ کو برطانوی تسلط سے آزاد کرانے کے لئے برس رہی تھیں۔

برطانیہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران صنعتی انقلاب رونما ہوا۔ دستی مشقت کی جگہ مشین نے لے لی، چھوٹے کارخانوں نے بڑے بڑے صنعتی اکائیوں کا روپ دھار لیا۔ گاؤں دیہات سے بے زمین کسان، زرعی کارکنان، دستکار اور اہلِ حرفہ حصولِ روزگار کے لئے ان صنعتی بستیوں کا رخ کرنے لگے۔ مانچیسٹر، لورپول، برمنگھم، بریڈفورڈ جیسے قصبے انہی دنوں میں آباد ہو کر بڑے بڑے شہر بن گئے۔ ان شہروں میں مزدور کس طرح زندگی بسر کرتے تھے وہ آج کل برطانوی سکول کے نصاب کا لازمی حصہ ہے عموماً چوتھی اور پانچویں جماعت سے بچوں کو ذہن نشین کرادیا جاتا ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی اوائل تک مفلوک الحال گھرانوں کے چار اور پانچ سال کی عمر کے بچوں سے بھی سولہ سولہ گھنٹے سخت مشقت لی جاتی تھی، ہفتہ واری چھٹی کا تصور ابھی نہیں آیا تھا۔ ان کے والدین بھی صبح شام مشینوں پر جتے ہوتے۔ ایام زیست انتہائی سخت تھے۔ چھوٹے چھوتے گھروں میں کئی کئی کنبے ایک ساتھ رہا کرتے۔ کئی گھرانوں کے لئے صرف ایک ٹوائلٹ ہوا کرتا، پائپ سے گھروں میں پانی کی ترسیل کے نظام کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ حالاتِ کار غیر موافق اور خطروں سے پر ہوا کرتے۔

گو کہ اس دور کی بہت اچھی عکاسی چارلس ڈکنز کے ناولوں سے ہوتی ہے لیکن اس ضمن میں جو تاریخ کی سب سے پہلی رپورٹ مرتب کی گئی وہ مارکسزم کے خالق اور جرمن فلاسفر فریڈرک اینگلز نے ’انگلستان میں مزدور طبقہ کے حالات‘ کے نام سے سن 1845ء میں لکھی۔ اینگلز ان دنوں برطانیہ میں جلا وطنی کے ایام گزار رہا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ صنعتی انقلاب سے انگلستان کے سرمایہ دار طبقے کی تو چاندی ہوگئی لیکن محنت کشوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا ہے۔ صنعتی شہروں میں کالی کھانسی، چیچک، خناق اور سرخ بخار سے مرنے والوں کی تعداد آس پاس کے دیہات سے چار گنا زیادہ ہے جبکہ مرگی سے دس گنا زیادہ ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ بالغ افراد اور بچوں دونوں میں اموات کی شرح ملیں لگنے سے پہلے کے دور کی اموات کی بہ نسبت بڑھتی جارہی ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ چالیس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے انتقال کر رہے ہیں۔ اینگیلز نے اس کا ذمہ دار مزدوروں کے حالاتِ زیست اور ان کی کم تنخواہوں کو ٹھہرایا اور واضح کیا کہ صنعتی ورکر کی کمائی صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں کم ہوچکی ہے جبکہ وہ پہلے سے کہیں غیر صحت مندانہ، بیماری آلودہ اور ناخوشگوار حیات بسر کر رہے ہیں۔

اینگیلز کے یہ مشاہدات صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ تمام صنعتی ممالک میں بندۂ مزدور کے تلخ ایام پر صادق آتے تھے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ آلامِ روزگار کو آسان بنانے کا شعور اور جدوجہد عام ہونی شروع ہوگئی۔ پیرس میں مزدوروں نے کچھ دنوں کے لئے 1871ء میں اپنی حکومت بھی قائم کی۔ امریکہ میں مئی 1886ء میں مزدوروں کی ہڑتال کا بنیادی مطالبہ دن میں آٹھ گھنٹے کام تھا۔ جسے سختی سے کچل کر بہت سے رہنماؤں کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلا ملک جس نے آٹھ گھنٹے کام کا قانون پاس کیا وہ اکتوبر 1917 کے بالشویک انقلاب کے بعد کا روس تھا۔ بعد ازاں 8 گھنٹے دن میں اور ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے کام کا کلیہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) کے 1919ء کے کنوینشن میں متعارف کرایا گیا۔

مزدوروں کے شعور اور سیاسی جدوجہد کا نتیجہ آئی ایل او کے مندرجہ ذیل آٹھ کنوینشن کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کی پاسداری ان تمام 186 ممالک پر فرض ہے جو اس کے اراکین ہیں:

1۔ اجتماع کی آزادی اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے یونین سازی کرنے کا حق۔

2۔ یونین سازی اور(آجر سے) مشترکہ سودے بازی کا حق۔

3۔ زبردستی یا لازمی کام لینے پر پابندی۔

4۔ غلامی کا خاتمہ

5۔ مزدوری کے لئے کم از کم عمر کا تعین یعنی غیر بالغ بچوں کی مزدوری پر پابندی۔

6۔ بدترین خدمات کے لئے کم از کم عمر کا تعین۔ جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو جسم فروشی کروانے، فحش مواد کے لئے استعمال کرنے، بانڈڈ لیبر کروانا، غلامی میں فروخت کرنا وغیرہ پر پابندی شامل ہیں۔

7۔ یکساں کارِ محنت کے لئے بلا امتیاز جنس، رنگ، نسل، مذہب اور سیاسی سوچ یکساں معاوضہ دینا۔

8۔ تمام تعصبات کا خاتمہ

ان تمام لیبر حقوق میں یونین سازی کا حق بنیاد کی اینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ مالکان سے مذاکرات، کارکنان میں تقسیمِ کار اور اوقات کا تعین کرنا، ضرورت پڑنے پر ہڑتال کا حق استعمال کرنا، پیداواری مقام پر ہیلتھ اور سیفٹی کو یقینی بنانا یونین کے بغیر ناممکن ہے ذیل میں کچھ ممالک میں مزدور انجمنوں سے منسلک کارکنان کی شرح پیشِ خدمت ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار متعلقہ ملک کی سرکاری ویب سائیٹس یا آئی ایل او سے حاصل کیے گئے ہیں:

فن لینڈ۔ 74٪

سویڈن۔ 70٪

ڈنمارک۔ 67٪

بیلجئم۔ 50٪

چین—43٪

اٹلی۔ 35٪

برطانیہ۔ 26٪

امریکہ۔ 11٪

فرانس۔ 8٪

بھارت۔ 6٪

ترکی۔ 6٪

پاکستان—1٪

بالعموم مسلم ممالک میں مزدور حقوق کی حالت دگرگوں ہے لیکن کیونکہ اکثر امیر خلیجی ریاستوں میں مزدور پیشہ افراد غیر ملکی ہوتے ہیں جنہیں یونین سازی کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہوتا اس لئے بہیمانہ استحصال کے انسانیت سوز واقعات خبروں میں آتے ہیں لیکن جلد ہی ان پر گرد بیٹھ جاتی ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کا ریکارڈ بھی قابلِ رشک نہیں اور یونین سے وابستہ مزدوروں کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جارہی ہے۔

ہم سب پڑھنے والوں کی کچھ تعداد سوشلزم کی حامی ہوگی جبکہ کچھ کیپٹلزم کو پسند فرماتی ہوگی اور ان دونوں کے پاس اپنے موقف کی تائید میں دلائل بھی موجود ہوں گے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں نظاموں کا بہتر کام کرنا ممکن ہی نہیں جب تک ڈاکٹر، انجینئر، وکلاء، صحافی، اساتذہ، بینکار سمیت تمام مزدوروں کو ان کے تمام مسلمہ حقوق جو انہوں نے گزشتہ ڈیڑھ صدی میں جیتے ہیں بالخصوص یونین سازی کا غیر مشروط حق حاصل نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).