احمد فراز اور انکار کی روایت (1)


پاکستان پیپلز پارٹی کے ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے چند پُرانے شکاری بہت جلد ایک نیا جال لے آئے۔ چنانچہ احمد فراز کو سن انیس سو ستتر کی ایک رات آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ گھر سے اُٹھایا، آنکھوں پہ پٹی باندھی اور فوجی جیپ میں ڈال کرایک تیرہ و تار زنداں میں ڈال دیا گیا۔ صبح جو شخص ناشتہ دینے آیا وہ مارے حیرت کے چِلا اُٹھا :”آپ تو احمد فراز ہیں، ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ایک خطرناک انڈین ایجنٹ مانسر کیمپ کے اِس عقوبت خانے میں لایا جا رہا ہے مگر آپ تو احمد فراز ہیں۔ “آن کی آن یہ خبر نگران افسروں تک پہنچی۔ وہ دوڑے دوڑے آئے اور کچھ سمجھ نہ پائے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ سپاہی سے لے کر افسرانِ اعلیٰ تک اِن سب لوگوں نے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران رزمیہ شاعری کے محاذ پر احمد فراز کو دادِ شجاعت دیتے دیکھ اور سُن کر اپنے سینوں میں ناموسِ وطن پر کٹ مرنے کا جذبہ موجزن پایا تھا۔ ہرچند انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اپنے زمانہ طالب علمی میں احمدفراز جنگِ آزادی کشمیر کے محاذ پر جا پہنچے تھے تاہم وہ جنگِ ستمبر کے دوران اپنے جذباتی اور روحانی تجربات سے پھوٹنے والی عقل سے کام لیتے ہوئے سراپا عقیدت و احترام ہو کر رہ گئے۔

مانسر کیمپ کے زنداں پر مامورعملے کے ارکان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ احمد فراز کے سے وطن پرست شاعر کو”خطرناک انڈین ایجنٹ “کیوں قرار دیا گیا ہے؟ہماری ادبی دنیا کو بھی بس اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ سزاایک نظم کی پاداش میں دی گئی تھی۔ وہ آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے اور عدالتِ عالیہ کے حکم پر رہا کر دیئے گئے۔ یہ خوشخبری اُنہیں سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو شہید نے دی تھی۔ انھوں نے فون پر اطلاع دی تھی :”فراز ! میں نے ایک بار پھر تمہیں بچا لیا ہے۔ “یہ نظم اُن کے کسی مجموعہ کلام میں تو موجود نہیں مگر اِس کے شعر اور مصرعے اُس زمانے میں زبان زدِ عام ہو گئے تھے۔ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کے ایک ادیب افسر فراز سے ملنے آئے اور نظم کی ایک نقل اپنے ہمراہ لے گئے۔ یوں احمد فراز مانسر کیمپ کے زنداں میں جا پہنچے۔

احمد فراز سیاست اور سیاسی کرداروں کی سمت و رفتار اور آغاز و انجام پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کا اصل جرم یہ تھا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دورِ اقتدار کے آخری ایّام میں سیاسی اقتدار کے ایوانوں کی جانب جنرل ضیاءالحق کے قدموں کی آہٹ سب سے پہلے سُن لی تھی اورایک فوجی جرنیل کے سیاسی عزائم کی مذمت میں اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔ اِس کے جواب میں فوجی جرنیل نے آرمی ایکٹ کا استعمال کیا اور یوں فراز کی شاعری میں ”قیدِ تنہائی کی چند عبارتیں“ وجود میں آئیں۔ زنداں میں پہلی رات کا اذیت ناک تجربہ نظم ”پہلی آواز “ میں شاعری بن گیا ہے:

اتنا سنّاٹا کہ جیسے ہو سکُوتِ صحرا

ایسی تاریکی کہ آنکھوں نے دُہائی دی ہے

جانے زنداں سے اُدہر کون سے منظر ہوں گے

مُجھ کو دیوار ہی دیوار دِکھائی دی ہے

دُور اک فاختہ بولی ہے، بہت دُور کہیں

پہلی آواز محبت کی سُنائی دی ہے

نہیں معلوم کہ یہ فاختہ زنداں کے گرد و پیش کے جنگل سے بولی ہے کہ فراز کی رُوح نے فاختہ بن کر جبرواستبداد کے اندھیروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُسے نئی قوّت بخشی ہے۔ اندھی نفرت کے مقابلے میں محبت کی اِس قوّت کی اہمیت اس شعر میں بیان کی گئی کیفیت سے عیاں ہے:

قفس میں روزنِ دیوار و زخمِ در نہیں لیکن

نوائے طائرانِ آشیاں گُم کردہ آتی ہے

احمد فراز نے قیدِ تنہائی کی دہشت اور اذیت کا جس حوصلہ مندی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اُس کا عکس اس زمانے کی ایک طویل نظم ”ندیم آنکھیں ندیم چہرہ“ میں جلوہ گر ہے۔ قیدوبند کے دوران جب فراز کولاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تو اُس وقت احمد ندیم قاسمی سمیت دو تین ادیب اور شاعر بھی عدالت میں موجود تھے۔ جب فراز نے ندیم کی” شفیق آنکھوں پہ دُکھ کی کائی جمی ہوئی “اور اُس کے چہرے پر رنج و الم کے گہرے نقوش مرتسم دیکھے تو اُسے حق کی خاطر صعوبتیں برداشت کرنے کا نیا حوصلہ نصیب ہوا اور یوں ندیم کا وجود اُس کے لیے سرچشمہ فیضان ثابت ہوا:

بس اِک قلم ہے کہ جس کی ناموس

ہم فقیروں کا کُل اثاثہ ہے، آبرُو ہے

بس ایک سچ ہے

کہ جس کی حُرمت کی آگہی سے

مِرے بدن میں، تِرے بدن میں

مِرے قلم میں، تِرے قلم میں،وُہی لہُو ہے

کہ جِس سے عرفان کی نمُو ہے

کہ جِس سے انساں کی آبرُو ہے

ہماری حبسیہ شاعری میں یہ نظم اِس اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے کہ ایک اسیر شاعر اپنی سیاسی استقامت پر اترانے کی بجائے ایک ایسے بزرگ ادیب اور شاعر کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جو اُس کا ہم قفس نہیں بلکہ ایک آزاد شہری ہے۔ یوں جیسے اُس نے حق کی خاطر ہمیشہ جہد آزما رہنے کا چلن اُسی سے سیکھا ہو اور آج اُسے اپنی حمایت میں عدالت میں کھڑے دیکھ کر اپنا غم بھول گیا ہو ، اُس کے ماضی کی قید و بند کی اذیت ناک زندگی میں کھو گیا ہواور باطل کے مقابلے میں اُس کی استقامت سے سبق اندوز ہو رہا ہو۔

ندیم کے چہرے پر اپنی اذیت اور اپنے دُکھ کی تحریر کو انتہائی جلی حروف میں پڑھنے کے بعد جب فرازکوکمرہ عدالت سے واپس مانسر کیمپ کی کال کوٹھڑی میں پہنچا دیا گیا تو اُس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اِس تِیرہ و تار اذیت کدے میں اب وہ تنہا نہیں ہے بلکہ ندیم بھی اُس کے ساتھ ہے:

مَیں کنجِ زنداں میں آچُکا ہُوں

مگر ابھی تک

مری نگاہوں کے سامنے ہیں

ندیم آنکھیں ندیم چہرہ

یہ ہماری تہذیبی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ فراز کی زندگی میں ہی بہت جلد وہ وقت آ پہنچا جب احمد ندیم قاسمی اُن کے لیے سب سے بڑا سرچشمہءفیضان نہ رہے اور اُنھوں نے اپنے نئے شعری مجموعے میں نظم ”ندیم آنکھیں ندیم چہرہ“ شامل کرتے وقت فٹ نوٹ میں ”یادش بخیر“ لکھنا ضروری سمجھا۔ یہ فٹ نوٹ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا کی دین ہے۔ ضیاءالحق کی فوجی حکومت کا بھیانک ترین ظلم ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے نزدیک ضیاءالحق کی فوجی آمریت فقط ایک بہت بڑا قومی المیہ تھا۔ ندیم نے اِس المیے کے موضوع پر متعدد سوچتی ہوئی باغیانہ نظمیں کہی تھیں۔ فراز کے لیے یہ ایک المناک ترین ذاتی واردات بھی تھی۔ بھٹو شہید احمد فراز کے مربی و سرپرست تھے۔ اُنھوں نے فراز کو مصائب سے نجات دلانے میں ہمیشہ قائدانہ کردار سرانجام دیا تھا۔ اِس لیے احمد فراز کے لیے بھٹو شہید کاانجام ایک عظیم قومی المیہ کے ساتھ ساتھ ایک ناقابلِ فراموش ذاتی سانحہ بھی تھا۔ چنانچہ احمد فراز، بجا طور پر، جنرل ضیاءالحق اور اُس کے ساتھی جرنیلوں سے ہمیشہ شدید نفرت میں مبتلا رہے۔ اِس نفرت میں چند برسرِاقتدار جرنیلوں کی کارستانیوں نے مزید شدت پیدا کر دی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے زیرِ اہتمام ایک کُل پاکستان نعتیہ مشاعرے میں احمد فراز نے اپنی تازہ نعت پیش کی تھی تو اُس نعت کے درج ذیل اشعار سُنتے ہی مسندِ صدارت پر متمکن ایک سابق جرنیل آپے سے باہر ہو گئے تھے:

تُو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ

بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے

مرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا

میں کیسے صُلح کروں قتل کرنے والوں سے

بھٹو شہید کی قاتل فوجی آمریت کی تائید و حمایت سے اِس انکار پر سابق جرنیل صاحب نے خوب ڈانٹ ڈپٹ کی جس سے فراز نے تو کوئی خاص اثر نہ لیا مگر موجود دیگر شعرائے کرام سہم کر رہ گئے۔ ہرچند گھر پہنچتے ہی ندیم صاحب نے فراز کی دلیری اور حوصلہ مندی کی تعریف کی اور جرنیل موصوف جو اُس وقت وزیرِاطلاعات بھی تھے کے احمقانہ طرزِ گفتگو کی مذمت کی تاہم فراز ہیٹر کے سامنے چُپ چاپ بیٹھے ہاتھ تاپتے رہے۔ ”ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں“کی سی کیفیت میں بیٹھے ہم تینوں بڑی دیر تک گُم سُم ہی رہے۔ گھنٹوں چُپ رہنے کے بعد فراز رُخصت ہوئے۔ بہت جلد ہم تینوں کی زندگی میں اُس رات جیسا دِن طلوع ہوا۔

اُس دن احمد فراز ایک لاڈلے ضِدی بچے کی مانند احمد ندیم قاسمی سے اصرار کرتے رہے کہ وہ جنرل ضیاءالحق سے قومی ایوارڈ لینے سے انکار کر دیں۔ احمد ندیم قاسمی جواب میں وہی پُرانا استدلال پیش کرتے رہے جو اُنھوں نے جنرل ایوب خان کے ہاتھ سے ایوارڈ لیتے وقت پیش کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ ایک قومی اعزاز ہے اِس سے انکار کرنا گویا قوم کی توہین ہے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر قوم زندہ اور پائندہ رہتی ہے۔ فراز چُپ ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ قائل ہو گئے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے وقت پھر وہ ندیم صاحب سے استدعا کرتے کہ وہ شام کو ایوانِ صدر جانے کی بجائے لاہور روانہ ہو جائیں۔ ندیم صاحب کہتے کہ میں نے وعدہ کر لیا ہے کہ میں آﺅں گا اور ایوارڈ وصول کروں گا۔ اب میں اِس وعدے سے منحرف نہیں ہو سکتا۔ پھر اِدھر اُدھر کی بات شروع ہو جاتی اور میں سمجھتا کہ اب فراز صاحب اِس سوال کو نہیں اُٹھائیں گے۔ فراز تھوڑی دیر بعد پھر ضِد کرنے لگتے۔ پھر وہی جواب ملتا ۔ فراز کے اسی پیچ و تاب اور ندیم صاحب کی اِسی پریشانی کے عالم میں شام ہو گئی۔ ایوانِ صدر روانہ ہونے کا وقت آ پہنچا۔ خود فراز صاحب ندیم صاحب کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ایوانِ صدر کے گیٹ تک لے گئے، میں ہمراہ تھا ۔ سارا راستہ فرازچُپ اور ناراض بیٹھے گاڑی چلاتے رہے۔ شاید اِس اُمید پر کہ ندیم صاحب اُن کی بات بالآخر مان لیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور مغموم فراز ہمیں گیٹ پر اُتار کر چلے گئے۔

احمد فراز جنرل محمد ضیاءالحق کو آمر بھی سمجھتے تھے اور قاتل بھی۔ اُن کی نظر میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کا قتل ایک ایسا گناہِ کبیرہ تھا جس سے اُنھوں نے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ اپنی شاعری میں بھی اُنھوں نے ہمیشہ آمر کی بجائے قاتل کے کردار ہی کو پیشِ نظر رکھا :

قاتل اِس شہر کا جب بانٹ رہا تھا منصب

ایک درویش بھی دیکھا اُسی دربار کے بیچ

…..

موسمِ درد کے صفیر، جو بھی ندیم تھے سو تھے

اب تو سبھی فریفتہ ، دانہ و دام پر ہوئے

 اِس دوران مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ فراز اپنے مشفق و محترم احمد ندیم قاسمی سے ناراض ضرور ہیں مگر متنفر ہر گز نہیں۔ ندیم صاحب جب بھی راولپنڈی تشریف لائے احمد فراز ہمیشہ اُن سے ملنے آئے اور اُن کے قیام کے دوران تقریبا ًہر وقت اُن کے ساتھ رہے۔ خود جب بھی لاہور گئے اُن سے ملنے اُن کے دفتر ضرور گئے۔ دِل ہی دِل میں اِس امر پر بہت رنجیدہ رہے کہ ندیم صاحب نے بھٹو صاحب کے قاتل سے ایوارڈ وصول کیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب خود فراز نے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف سے ایوارڈ وصول کیا۔ یہ الگ بات کہ ایک وقت آنے پر اُنھوں نے یہ ایوارڈ واپس بھی کر دیا تھا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).