ہندوستان کی ایک کینسر ٹرین کی سچی کہانی


رات کا وقت ہے، پنجاب کے بھٹنڈہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر دو پر لوگ ایک ٹرین کے منتظر ہیں۔ جیسے جیسے اسٹیشن پر لگی بڑی سی گھڑی کی سوئیاں نو بجے کی طرف بڑھتی جا رہی ہیں، منتظر مسافروں کی ویران آنکھوں میں امید کا دیا ٹمٹماتا نظر آنے لگتا ہے۔

گھڑی نے نو بجا دیئے ہیں، بارہ ڈبوں والی ایک مسافر ٹرین دھیرے دھیرے پلیٹ فارم پر لگتی ہے۔ ٹرین میں صرف ایک ریزرو ڈبہ ہے اور باقی سب چالو بوگیاں ہیں۔ منتظر مسافر ٹرین کے پلیٹ فارم پر لگتے ہی اس میں سوار ہو جاتے ہیں اور اپنی گٹھڑی یا پرانی صندوقچی اپنے آس پاس سنبھال کر رکھ رہے ہیں جیسے یہی ان کی کل کائنات ہو۔ مسافروں میں زیادہ تر کے چہرے مایوس ہیں، ویران ہیں، بے نور ہیں۔ اس ٹرین میں بیٹھے ستر فیصد مسافر کینسر کے مریض ہیں اور وہ زندگی کی آس میں راجستھان کے شہر بیکانیر جا رہے ہیں تاکہ وہاں سرکاری ہسپتال میں دوا لے سکیں، ٹیسٹ کرا سکیں یا پھر یہ جان سکیں کہ ابھی اس کٹھن زندگی کی کتنی سانسیں اور ہیں جو وہ اپنے پیاروں کے درمیان لے سکتے ہیں؟۔ باقی مسافر ان مریضوں کے تیماردار ہیں، ٹرین کا ایک مخصوص نمبر ہے لیکن ہر کوئی اسے کینسر ٹرین ہی کہتا ہے۔ ٹھیک نو بج کر پچیس منٹ پر ٹرین سات گھنٹے کے اپنے سفر کے لئے چل پڑتی ہے۔

ابھی تک جو کچھ آپ نے پڑھا وہ نہ تو کسی کہانی کا پلاٹ ہے اور نہ فلم کا حصہ۔ یہ حقیقت میں انسانی زندگی کا المناک رخ ہے جس کو سوچ کر بھی دل بھر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہدایت کار اپرنا سنگھ کی فلم ارادہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نصیرالدین شاہ اور ارشد وارثی کے مرکزی کرداروں والی فلم کی کہانی ایک ایسی کیمیکل فیکٹری کے بارے میں ہے جس کا کیمیائی فضلہ زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے اور اس پانی سے لوگوں کو کینسر ہو رہا ہے۔ فلم میں نصیر الدین شاہ کی بیٹی ایسے ہی کینسر کا شکار ہو چل بستی ہے۔ فلم کی پوری کہانی اسی واقعے کے چاروں طرف ہے۔ اس فلم میں بھٹنڈہ اسٹیشن اور کینسر ٹرین کا حوالہ دیکھ کر میرا جی کیا کہ اس ٹرین کے بارے میں کچھ لکھا جائے جو آج بھی کینسر کے مریضوں کو بھر بھر کر زندگی کی امیدوں کا وزن لادے رات کے سناٹے کو چیرتی صبح کی جانب دوڑتی ہے۔ ٹرین تو روزانہ ہی صبح کو پا لیتی ہے لیکن اس میں سوار بہت سے مریضوں کی زندگی کی رات بہت طویل ہے۔ مسافر جانتے ہیں کہ سانسوں میں اضافے کے لئے یہ بھاگ دوڑ ضروری نہیں کہ انجام کو ہی پہنچے۔ ان مریض مسافروں میں زیادہ تر غریب کسان ہیں جو اس ٹرین سے علاج کے لئے روز آتے جاتے ہیں۔ مریضوں کے لئے ریل میں کوئی کرایہ نہیں لگتا اور تیمارداروں کو ٹکٹ پر پچھتر فیصد رعایت ملتی ہے۔

بھٹنڈہ سے بیکانیر کی مسافت سوا تین سو کلو میٹر کے قریب ہے۔ ٹرین راستے میں چھبیس اسٹیشنوں پر رکتی ہے اور صبح چھ بجے ریگستانی شہر پہنچ جاتی ہے۔ یہاں سے مسافر سرکاری ہسپتال کا رخ کرتے ہیں، ان میں سے کچھ کو کیمو تھراپی کرانی ہے، کچھ کو دوا لینی ہے، کچھ کے ٹیسٹ ہونے ہیں اور کچھ کو آج ٹیسٹ رپورٹ ملنی ہے جس میں بہت ممکن ہے یہی لکھا ہو کہ آپ کو کینسر ہے۔ یوں تو پنجاب میں بھی سرکاری ہسپتال ہیں لیکن بیکانیر کے ہسپتال کی حالت کچھ غنیمت ہونے کے سبب اکثر کا رخ یہیں ہوتا ہے۔بیکانیر کی دھرم شالائیں پچاس روپیہ یومیہ کمرہ اور پانچ روپیہ فی خوراک کھانہ دینے کے سبب مریضوں کے لئے مناسب ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کینسر کے اتنے مریض پنجاب میں آئے کہاں سے؟۔ ان مریضوں میں سے کوئی کوئی ہی ایسا ہے جسے کینسر ماں باپ سے ورثے میں ملا ہو ورنہ باقی سب کو کینسر گزشتہ دو دہائیوں کی دین ہے۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع منسا، سنگرور، بھٹنڈہ، فرید کوٹ، موگا، مختصر اور فیروزپور کو ملا کر مالوہ کا خطہ بنتا ہے اور یہ کینسر سے متاثرہ کسان زیادہ تر یہیں سے تعلق رکھتے ہیں۔مالوہ کو پنجاب کی کاٹن بیلٹ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کپاس کی خوب پیداوار ہوتی ہے۔ کسان اس کھیتی کے لئے پندرہ مختلف اقسام کے کیمیکل کھیت میں ڈالتے ہیں تاکہ فصل کیڑوں سے بچی رہے۔ فصل تو کیڑوں سے بچ جاتی ہے لیکن یہ کیمیکل زیر زمین پانی میں مل کر اس علاقے میں کینسر کی فصل کو بھی ہرا بھرا کر رہا ہے۔ کئی ایسے المیے بھی سنے گئے کہ کیمیکل کی خالی بوتلوں اور ڈبوں کو غریب کسانوں نے گھر میں برتن کی طرح استعمال کیا جس سے بیماری اور پھیلی۔ اب حالات یہ ہیں کہ اس علاقے کو کاٹن بیلٹ کی جگہ پنجاب کا کینسر بیلٹ کہا جانے لگا ہے۔

اس خطے میں کینسر کس تیزی سے پھیلا ہے اس کو اس طرح سمجھئے کہ دو ہزار نو میں ایک سرکاری سروے کے مطابق پنجاب میں کینسر کے سات ہزار سات سو اڑتیس مریض تھے لیکن دو ہزار تیرہ میں جب سروے ہوا تو یہ تعداد تیئس ہزار آٹھ سو چھہتر نکلی۔ جی ہاں، چار برس میں تین گنا اضافہ۔گزشتہ پانچ برس میں یہ تعداد اندازے کے مطابق پچیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ان برسوں میں ایک اندازے کے مطابق تینتیس ہزار سے زیادہ افراد اسی کینسر سے چل بسے۔ ان میں سے تقریبا پندرہ ہزار اموات اکیلے مالوہ میں ہوئیں۔

ہو سکتا ہے ابھی بھی یہ بات سمجھ میں نہ آ رہی ہو کہ آخر مالوہ میں اتنی اموات کیوں ہوئیں؟ تو اس کے لئے بس اتنا جان لیجئے کہ پورا پنجاب کھیتی میں جتنی کیڑے مار دوائی استعمال کرتا ہے اس کا پچھتر فیصد اکیلے مالوہ میں استعمال ہوتا ہے۔

گزشتہ برسوں میں ایک تحقیقی مرکز نے بھٹنڈہ اور روپڑ کے دیہات میں بیس الگ الگ آدمیوں کے نمونے لئے۔ ان سب کے خون میں کیڑے مار دوا کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ایسا نہیں ہے کہ حکومت ان مریضوں کی مدد کے لئے کچھ نہیں کر رہی ہے۔ ایسی کئی فلاحی سکیمیں ہیں جن کی مدد سے ان مریضوں کو سہارا مل رہا ہے لیکن مرض ہی ایسا ہے کہ اس میں زندگی کے امکانات نکل آنا کرشمہ ہوتا ہے۔ ریاستی حکومت آلودہ پانی والے علاقوں میں واٹر پیوری فائر لگا رہی ہے تاکہ لوگوں کو محفوظ پانی مل سکے۔ یہ بھی ہے کہ کچھ ادارے کینسر کے اتنی تیزی سے پھیلنے میں نشہ خوری اور طرز زندگی کو بھی سبب بتاتے ہیں لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ کسان اور اس کا کنبہ فصل کو کیڑوں سے بچاتے بچاتے خود جان لیوا مرض کی آغوش کی طرف بڑھ چلا ہے۔

خیر وقت کی پٹری پر زندگی کی گاڑی سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ بھٹنڈہ سے بیکانیر آئی کینسر ٹرین کے واپس بھٹنڈہ جانے کا وقت ہو چلا ہے۔ کھانستے، بے ترتیب سانسیں سنبھالتے مریض پھر سے گاڑی میں چڑھ رہے ہیں۔ جو نہیں چڑھ پا رہے ان کا عزیز ان کو سہارا دے کر چڑھا رہا ہے۔ ان میں سے بہت سوں کو آج دوا ملی ہے، کچھ کو ذرا آس ملی ہے، کچھ اپنی پوٹلی میں مایوسی باندھ کر لوٹ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پھر یہی سفر کرکے واپس دوا علاج کے لئے بیکانیر آئیں گے، اور ہاں، بہت سے کبھی نہیں آئیں گے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter