پرویز ہود بھائی انتہاپسندی پر رائے دیتے ہیں (2)۔


عدنان کاکڑ: یونیورسٹیوں میں یہ انتہا پسندی آ رہی ہے۔ صفورا گوٹھ کے مجرم آئی بی اے کے گریجویٹ تھے۔ مشال خان کا واقعہ ہوا ہے۔ کیا یونیورسٹی بھی روشن خیالی سے، نئی سوچ سے گھبرا رہی ہے؟ اس کا حل کیا ہے کہ اس کا خوف دور کیا جائے؟ کیا نصاب میں تبدیلی کی جائے یا کچھ اور کیا جائے؟

ہود بھائی: یہ بہت اچھا سوال ہے۔ امریکہ، یورپ اور انڈیا میں انتہا پسندی تو ضرور بڑھی ہے لیکن وہ صرف عام لوگوں میں بڑھی ہے۔ جو طلبا یونیورسٹی اور کالج میں پڑھتے ہیں۔ ان کی بھاری اکثریت اب بھی روشن خیال ہے اور وہ وسیع ذہن رکھتے ہیں۔ اب بھی وہاں تعصب آپ کو شاذ و نادر ہی نظر آئے گا۔ ان یونیورسٹیوں میں تقریباً ہر قسم کی بات کی جا سکتی ہے اور وہاں حاکم وقت کی کھل کر مخالفت بھی ہوتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے طالب علموں نے ٹرمپ کے حامیوں کو برکلے یونیورسٹی میں آنے سے روک دیا تھا۔ یونیورسٹی کے باہر سے ٹرمپ کے حامی ہنگامہ کرنے کے لئے آ رہے تھے لیکن سٹوڈنٹس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ قانونی طور پر اس چیز کو روکا گیا، یہ نہیں کہ دھینگا مشتی ہوئی۔ جب ٹرمپ نے امریکا میں مسلمانوں کی آمد ہر پابندی عائد کی تھی تو امریکا کی یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے۔ اسی طرح انڈیا میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی جیسے اداروں میں ہر قسم کی سیاسی سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ وہاں مسلمان اپنی بات کرتے ہیں، کمیونسٹ پارٹی بھی ہے اور بی جے پی والے بھی اپنی بات کرتے ہیں، وہ ایک کھلا ماحول ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں آپ کو انتہا پسندی نہیں دکھائی دیتی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کی یونیورسٹیاں اور پاکستان کے دیگر تعلیمی ادارے فکری لحاظ سے بند ہیں۔ یہاں سوچ بچار اور غور و فکر پر پہرے بٹھائے گئے ہیں۔ پہریدار صرف انتظامیہ نہیں، صرف اساتذہ نہیں، یہاں پہریداروں میں خود طالب علم شامل ہیں۔ آپ نے یہ دیکھا کہ مردان یونیورسٹی میں کیا ہوا۔ مارنے والے خود سٹوڈنٹس تھے۔ اس میں سب ہی شامل تھے۔ ٹیچرز بھی تھے۔ انتظامیہ شمولیت بھی تھی۔

پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں حالات اس سے ملتے جلتے ہیں، ہر طرف سوچ پر قدغنیں ہیں۔ اگرچہ انتہا پسندی پوری دنیا میں پھِیلی ہوئی ہے لیکن جتنی خرابی پاکستان کے اندر آ چکی ہے، جتنا تعصب، جتنی نفرتیں ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہیں، اس کا مقابلہ ہم کسی اور ملک کے ساتھ نہیں کر سکتے۔

اس کی ایک اہم وجہ ہمارا نصاب تعلیم ہے۔ ہم سکول کے نصاب میں دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہتے ہیں، اور ہم اس پر مصر ہیں کہ ہر چیز کو صرف دینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے، ہم نصاب میں مذہبی عصبیت پڑھاتے ہیں۔ تو پھر کیا تعجب ہے کہ دو لاکھ لوگ ممتاز قادری کے جنازے میں شریک ہوئے؟

تو یہ انتہا پسندی کا ماحول ہم نے خود پیدا کیا ہے۔ مگر کیونکہ اپنے آپ کو مجرم ماننے کی بات ہم سے برداشت نہیں ہوتی، اس لئے ہم کسی دوسرے ملک کے اوپر انگلی اٹھانے کے لئے دوڑتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ دہشت گرد تو افغانستان سے آئے، یا انڈیا سے آئے یا نہ جانے مریخ سے ٹپک پڑے، ہم اس لے ذمہ دار نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم حققیت سے انکار کرتے رہے ہیں لہذا ہم اس کا کوئی تدارک بھی نہیں کر سکے۔ ہم فضول قسم کے، بے اثر قسم کے اقدامات کرتے ہیں، ہم نیکٹا بناتے ہیں، ہم نیشنل ایکشن پلان بناتے ہیں لیکن ان کے اوپر عمل اس لئے نہیں ہو سکا ہے کہ ہم یہ ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے اور یہ کہ انتہا پسند ہمارے تعلیمی اداروں میں بنتے ہیں، ہمارے مدارس میں پیدا ہوتے ہیں، اور انتہا پسندوں کو پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار تو ہمارے میڈیا اور ریاست کا ہے جو انتہا پسندوں کی گرفت میں ہے۔

عدنان کاکڑ: انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات آپ تجویز کریں گے

ہود بھائی: کئی سارے۔ ایک تو میڈیا میں نفرت انگیز مواد پر سختی سے پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ وہ اینکر جو کسی اور فرقے، کسی اور مذہب، کسی اور ملک کے خلاف نفرتیں بھڑکاتے ہیں، انہیں نہ صرف ٹی وی پر آنے سے روکا جائے بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے۔

پھر ہمارے نصاب میں ترمیم کی از حد ضرورت ہے۔ اس میں جو نفرت کی پڑیاں تیار کی گئی ہیں اور جو پھر ہم بچوں کو کھلاتے ہیں، اس کا انجام ذہنی مریض پیدا کرنا ہے۔ ایسے طلبہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ پھر کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جب وہ خودکش حملہ آور بن کر اپنے آپ کو پھاڑتے ہیں یا کلاشنکوف اٹھا کر قتل عام کرتے ہیں۔ یہ تو تعلیم کے میدان میں تجویز تھی لیکن ہر شعبے میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔

فرنود عالم: آئینی حوالے سے آپ کیا تجاویز دیں گے۔

ہود بھائی: پاکستان کے آئین میں مسلم اور غیر مسلم میں تفریق کی گئی ہے۔ اس آئین میں غیر مسلموں کو ایک ثانوی حیثیت ملی ہے۔ وہ سیکنڈ یا تھرڈ کلاس شہری ہیں۔ لہذا وہ پاکستان کے ساتھ ویسی محبت کر ہی نہیں سکتے جو دوسرے کرتے ہیں۔ اس چیز کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

انتہا پسندی صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں، یہ سماج کے مخصوص اقتصادی اور سیاسی حالات سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ دیکھ لیجیے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہندوستان ہمیشہ ہمارا دشمن رہے گا۔ چنانچہ ہم پر پھر یہ لازم ہے کہ ہم ہر طریقے سے اس کو نقصان پہنچائیں۔ جب افغان جنگ ختم ہوئی تو ہم نے مجاہدین سے شکریہ کہہ کر ان سے یہ نہیں کہا کہ بس اب چلے جاؤ۔ ہم نے ان کو اپنے کام کے لئے استعمال کیا۔ ان کو کشمیر بھیجا جہاں درجنوں ایسی تنظیمیں اکھٹی کی گئیں جن کا کام صرف یہ تھا کہ سرحد پار یا لائن آف کنٹرول کے پار جا کر ہندوستان پر حملہ کریں۔

ہم نے طالبان کو بھی استعمال کیا تاکہ وہ افغانستان میں جا کر ہمارے لئے سٹریٹیجک ڈیپٹھ قائم کریں اور یوں افغانستان ہمارے گھر کا پچھواڑا بنے۔ لیکن طالبان کا ایک دھڑا ہمارے گلے پڑ گیا۔ نائن الیون کے بعد۔ پاکستان کے اندر جو خانہ جنگی کی صورت بنی وہ آج تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب ہماری فوج، ہماری پولیس اور ہمارے عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس کے پیچھے ہماری ناکام خارجہ پالیسی ہے

اس خارجہ پالیسی پر عمل کرنا تھوڑا سا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ انڈیا کے بارڈر پر باڑ ہے جسے پار کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ مگر ہماری سوچ میں فرق اب تک نہیں آیا ہے اور جب تک ہم اپنی خارجہ پالیسی کو نہیں بدلتے۔ اس وقت تک ہم دہشت گردی سے نجات نہیں پا سکیں گے۔

عدنان کاکڑ: غامدی صاحب کی ایک تجویز آئی تھی کہ دسویں بارہویں تک تمام طلبا ایک ہی نظام سے تعلیم حاصل کریں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کو سمجھیں۔ اس کے بعد ہی جیسے سائنس یا دوسری سپیشلائزیشن منتخب کی جاتی ہے ویسے ہی مذہبی سپیشلائزیشن بھی کی جائے۔ اس پر آپ کے کیا کمنٹس ہیں۔

ہود بھائی: میں سمجھتا ہوں کہ دینیات کے معاملے پر یہ تجویز نہایت ہی معقول ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے، آخر اسی طرح سے مسلمانوں میں وہ برداشت کی صلاحیت پیدا ہو گی کہ وہ جانیں کہ سبھی ایک ہی نماز پڑھتے ہیں، ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں، جو فرق ہیں ان پر بعد میں بات کی جا سکتی ہے۔ اعلی تعلیم کے اداروں میں ان مسائل پر تحقیق ہو سکتی ہے۔ ان پر بحث مباحثہ ہو سکتا ہے۔ غامدی صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ اگر پاکستان کو ایک مسلمان ملک تصور کرنا ہے تو پھر مسلمانوں کے لئے ایک مشترکہ نصاب ہونا چاہیے۔ جو غیر مسلم ہیں ان کو مکمل طور پر اس سے مستثنی ہونا چاہیے۔ ان غیر مسلموں پر اسلامی تعلیمات تھوپنا ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ ہم یقیناً اس کو بہت برا کہتے اگر کوئی بچہ انگلینڈ میں ہوتا اور اس کو زبردستی بائبل یا تورات پڑھایا جاتا۔

غامدی صاحب کی تجویز اچھی تو ہے لیکن ملک کے جو اس وقت حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اس کا قبول ہونا مشکل نظر آتا ہے۔

عدنان کاکڑ: ایک چیز ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلاسفیمی کو ہر مقصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ ہے۔ ادھر مشال خان کے کیس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے بچاؤ کے لئے مبینہ طور پر اسے استعمال کیا۔ ادھر کشمیر اسمبلی میں حزب اختلاف نے حکومتی قراردار پھاڑی تو حکومتی اراکین نے الزام لگایا کہ انہوں نے بلاسفیمی کی ہے۔ باقی معاملات میں صحافی عفت حسن رضوی کا جو کیس تھا کہ عمران خان صاحب کی جو انہوں نے پھٹیچر والی ویڈیو ریلیز کی تھی اس پر ان کو گستاخ پیجز کا ایڈمن مشہور کر دیا گیا۔ بلاسفیمی لا کو تو تمام ملکی اور بین الاقوامی پریشر کے باوجود ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیا اس میں ایسی تبدیلی کی جانی چاہیے کہ غلط الزام لگانے والے کو بھی کڑی سزا دی جائے؟

فرنود عالم: کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ریاض صاحب کی مثال ہے جن پر گستاخی کا الزام لگایا گیا۔ اس کے علاوہ ہولی کی تقریب میں میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد باقاعدہ رات کے شوز میں کہا گیا کہ کہ نواز شریف صاحب نے جو بات کی کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہی ہے تو ان پر وہی 295 سی کا کیس لگانا چاہیے۔ تو یہ جو سلسلہ چل پڑا ہے۔ جو اشارہ کر دیا جاتا ہے کہ بس یہ۔۔۔

ہود بھائی: اس کی کئی اور مثالیں بھی ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایم کیو ایم پر بھی الزام لگا تھا بلاسفیمی کا کیونکہ وہ اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں جبکہ اصل مہاجر تو وہ تھے جنہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی۔ لہذا بعض لوگوں کے نزدیک یہ قانون ایک حربہ ہے جس سے وہ اپنے مخالفین کو زیر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی کی جائیداد چھیننا چاہتے ہیں، اس کی زمیں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، یا پھر اس کی بیٹی کو اغوا کرنا چاہتے ہیں تو اس پر صرف انگلی اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اپنے حریف کو گستاخ کہو، منٹوں کے اندر ایک ہجوم جمع ہو جائے گا، اس شخص کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑے گا، اگر کامیاب ہوا تو جان بچ گئی لیکن ملکیت چلی گئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا زیادہ زور توہین مذہب پر آج کل ہی کیوں دیا جا رہا ہے۔ آخر اس خطے میں مسلمان تو ہزار سال سے رہ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی بلاسفیمی بم اچانک پھٹا ہے اور پورا ملک اس کی زد میں آ گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہبی طاقتوں کو کوئی ایسا نکتہ چاہیے جس کے گرد وہ عام لوگوں کو جمع کر سکیں۔ اب یہ دیکھ لیجیے کہ کوئی مسلمان اپنے مذہب کی ہتک برداشت نہیں کرتا۔ جن پر گستاخی کا الزام لگایا گیا ہے ان میں سے اکثر بے قصور ہوتے ہیں لیکن سادہ لوگوں کو مشتعل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے استعمال کیا جا رہا ہے اور الزام لگانے کے پیچھے محرکات کیا ہیں۔

ہندوستان میں گائے کے ایشو کے بارے میں عین یہی بات کی جا سکتی ہے۔ ہندو گائے کو نہایت مقدس سمجھتے ہیں اور اگر آپ ہندووں کو مشتعل کرنا چاہیں تو گائے کا مسئلہ چھیڑ دیں۔ آخر ادھر کے عام لوگ بھی بڑے سادہ ہیں۔ عام لوگ ہر جگہ بہت سادہ ہوتے ہیں۔ انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے دور رس نتائج کیا ہوں گے۔ تو آج ہندوستان میں وہی جنونیت دکھائی دے رہی ہے جو پاکستان میں عرصے سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے جو جو چالاک لوگ ہیں انہوں نے جان لیا ہے کہ عوام کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے اور ان میں کیسے اشتعال پیدا کیا جا سکتا ہے۔

اس گھمبیر مسئلہ کا حل کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ صرف اور صرف تنقیدی سوچ کو اپنانے ہی سے ایک صحت مند اور پرامن معاشرہ بن سکتا ہے۔ ایسی سوچ جو ہر وقت سوال کرے، جو پوچھے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور ویسا کیوں نہیں ہے۔ جو کوئی بات قبول کرنے سے پہلے ثبوت مانگے اور جو دلیل، استدلال اور مشاہدے پر اصرار کرے۔ مختصر یہ کہ ہمیں اپنی قومی زندگی میں سائنسی طریقہ کار اپنانا ہو گا۔ بصورت دیگر، سادہ لوگوں کو استعمال کرنا آسان سے آسان تر ہوتا جائے گا

عدنان کاکڑ: یعنی سکول میں ابتدائی سطح پر ہمیں ایک بنیادی تبدیلی کرنی ہو گی۔ بچے کو سوچنا سکھایا جائے۔ یعنی اسے یہ نہ کہا جائے کہ ہم نے تمہیں یہ نظریہ دے دیا ہے، تم نے اسی کو فالو کرنا ہے، اپنا دماغ استعمال نہیں کرنا ہے۔

ہود بھائی: بالکل صحیح بات۔ چھوٹے بچوں کو اس طرف لانا قدرے آسان ہے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو تھوڑا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید بڑے ہوتے ہیں تو ذہن پختہ ہونے لگتے ہیں۔ جب وہ یونیورسٹی میں پہنچ چکے ہوتے ہیں تو پھر شاذ و نادر ایسے طلبا ہیں جن کی سوچ بدلی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments