وسعت اللہ خان صحافت اور کتابوں پر اظہار خیال کرتے ہیں


وجاہت مسعود :تو پھر کوئی نہ کوئی تو ہو گا ناں، اور پھر اس میں تسلسل۔ اچھا یہ فرمائیے کہ جو ہمارے اردو پرنٹ اخبار میں جو کالم لکھے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پہ ان کے معیار سے آپ مطمئن ہیں۔ میں اس میں ایک اضافہ اور کر دوں کہ کیا مالکان کو یہ نظر نہیں آرہا کہ اس میں بہت سارا ڈیڈ ووڈ (مردہ لکڑی) ہے اور یہ زیادتی ہے پڑھنے والوں کے ساتھ۔ ان کی کیا ترجیحات ہیں۔

وسعت االلہ خان :یعنی آپ مجھ سے یہ کہلوانا چاہ رہے ہیں کہ کیا مالکان اپنا اخبار پڑھتے ہیں یا نہیں۔

وجاہت مسعود :یہ بھی سر۔ اور یہ بھی کہ جب انہیں پتا چل جاتا ہے کہ ایک لکھنے والا پچھلے پچیس سال سے وہی لکھ رہا ہے تو وہ کیا سوچتے ہیں؟

وسعت االلہ خان :اگر میں آپ سے کہوں کہ اب تو چلن ہے، پہلے تو ایڈیٹر یہ سمجھتا تھا ناں کہ اس نے کوئی کام کی بات لکھی ہے یا نہیں، اب یہ چلن ہے کہ یہ کہیں کوئی کام کی بات نہ لکھ جائے۔ میرے لیے پرابلم ہو جائے گا۔ تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کیا یہ ڈیڈ ووڈ ہے؟ اگر ہے تو سبحان االلہ۔ ورنہ یہ پرابلم پیدا کر سکتا ہے۔

وجاہت مسعود :یہ تو ظلم ہے۔

وسعت االلہ خان :نہیں، ظلم تو آپ سمجھ رہے ہیں ناں۔

وجاہت مسعود :یہ تو یعنی وہ امکان ہے کہ اس ڈیڈ ووڈ کے لئے لوگ پندرہ روپے کا اخبار خریدیں گے۔ خبر کے لیے تو اب اخبار کم خریدا جاتا ہے کیونکہ خبر تو ٹی وی والا دے رہا ہے۔ اب جو ایڈیٹوریل پہ ویوز ہیں وہ درحقیقت ان سپوکن، ان ڈیکلیئر پارلیمنٹ ہیں۔

وسعت االلہ خان :بھئی میں اردو کا کالم نگار ہوں ناں۔ میں انگریزی میں تو نہیں لکھتا۔ اب مجھ سے آپ پوچھیں میرے پسندیدہ کالم نگار کون ہیں۔ میرا پسندیدہ کالم نگار ہے رابرٹ فسک۔ میرا پسندیدہ کالم نگار ہے جاوید نقوی۔ زبان کے اعتبار سے میرا پسندیدہ کالم نگار ہے ایف ایس اعجاز الدین۔ اب آپ کہیں گے کہ یار اردو میں بھی تو کوئی ہو گا۔ نہیں ہے۔ جبکہ میں اردو میں لکھتا ہوں۔ اس کا کیا کریں گے آپ۔

وجاہت مسعود :ایک تو جو ہمارے اساتذہ نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ جو انگریزی کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے اس کو توڑنا اس لیے نہیں ہے کہ انگریزی نے اردو کے پرانے خیالات میں جو نقب لگائی ہے، جوڑا ہے اس کو آج کی دنیا سے، تو انگریزی سے مفر نہیں ہے۔ کوئی فرار نہیں ہے اور جو اسی سے ایک سوال بن گیا جو پچھلے دنوں میں اس پر کچھ بحث ہوتی رہی۔ یہ جو بھائی کہتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم دی جائے، سندھی والا تجربہ تو ہم نے 35 برس پہلے دیکھ لیا ہے، پنجابی والے بھی کچھ ایسی بات کہنا چاہ رہے ہیں۔ دوسری طرف آپ ہیں یعنی اب سامنے بیٹھنے کی وجہ سے یہ بات نہیں کہہ رہا لیکن آپ اور خورشید ندیم یہ ہمارے بہت اچھے کالم نویسوں میں سے ہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ انگریزی میں جو مباحثہ ہو رہا ہے اس سے لاتعلق ہو کر اچھا لکھا جائے؟

وسعت االلہ خان : وہ تو آکسیجن ہے۔

وجاہت مسعود :تو بھائی۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کیا یہ قابل عمل ہے۔ کیا یہ ہمیں علمی طور پہ آگے لے جائے گا یا ہمارے ساتھ وہی کرے گا جو میں نے تو سندھی بھائیوں کا مجموعی ذہنی معیار نیچے آتے دیکھا ہے۔ کم از کم ان کی انگریزی اور اردو کی نثر دونوں کی وہ مجھے بتا رہی ہے کہ انہوں نے خود کو پہلے کی نسبت محدود کر لیا ہے۔

وسعت االلہ خان :اردو بھی ان کی زبان نہیں ہے اور انگریزی بھی ان کی زبان نہیں ہے۔ ان میں سے بہت ساروں کو میں جانتا ہوں جوکہ پڑھتے انگریزی میں ہیں لیکن لکھتے سندھی میں ہیں۔ وہ تو پھر ایسا ہی لکھ رہے ہیں جیسے ہونا چاہیے آج کل۔ اچھا لکھ رہے ہیں۔

وجاہت مسعود :جیسے بیون ہیں۔ ڈاکٹر یامین ہیں، یامین چانڈیو ہیں۔ امر جلیل ہیں۔ نور الہدیٰ شاہ ہیں۔ پڑھتے انگریزی میں ہیں لکھتے سندھی میں ہیں۔

وسعت االلہ خان :آپ انہیں سندھی میں پڑھیں یا انگریزی میں پڑھیں، یکساں پاور فل ہیں۔ ان کا جو پاور ہاؤس ہے وہ انٹرنیشنل ہے۔ میڈیم جس طرح اب لکھ رہا ہے اس کے کوئی معنے نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو فیڈ کہاں سے آرہا ہے۔ آپ کو آکسیجن کہاں سے آرہی ہے، آپ کا را مٹیریل کہاں سے آرہا ہے۔ سانچا آپ کا ہو، را مٹیریل برازیل سے بھی آرہا ہے تو کیا ہوا۔ سانچا تو میرا ہے ناں میں اس میں سے پراڈکٹ اپنی نکال لوں گا۔ مٹیریل معیاری ہونا چاہیے۔ ذاتی طور پر تاریخ میرا پسندیدہ مضمون ہے، جغرافیہ اور پولیٹیکل سائنس۔ تاریخ میں، اردو میں ایک خاص حد تک کام ہوا 1950 سے 1960 ء تک اور وہ بھی مغربی تاریخ دان جو ہیں ان کے تراجم یا ان کی خوشہ چینی اس میں بہت حد تک ہے۔ رئیس محمدجعفری، غلام رسول مہر وغیرہ جو ہیں اور اسی دور کے دوسرے لوگ۔ اب تاریخ کا اردو میں تو ویسے ہی کھاتہ بند ہو گیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ صوبہ سندھ کے سات سو ساڑھے سات سو جو کالجز ہیں ان میں سے چھ یا سات ہیں جن میں ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری زندہ ہے۔

وجاہت مسعود :پہلے جغرافیہ ختم کیا تھا۔ اب ہسٹری بھی ختم۔

وسعت االلہ خان :تاریخ بھی ختم ہو گئی۔ تاریخ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب ذہنی طور پہ تو ہم وہیل چیئر پہ آگئے ہیں۔ پیر کٹ گئے ناں ہمارے۔ جہاں میں کہتا ہوں ناں کہ کام چلاؤ وہ تو ٹھیک ہے۔ میں آپ کو ایک عجیب بات کہہ رہا ہوں تو معیاری جو چیزیں ہیں، جو ریسرچ کا کام ہوا ہے، وہ یا تو سندھی میں ہے یا انگریزی میں ہے اردو میں نہیں ہے۔ سندھ میں ہسٹری پہ جتنا کام ہوا ہے سندھی زبان میں وہ معرکتہ الآرا ہے اور ہندوؤں نے جس طرح کام کیا ہے وہ انتہائی معرکتہ الآرا ہے۔ لیکن وہ برفانی تودے کی کگر ہی کی مانند ہمارے سامنے ہے۔ ہمارا جو علم ہے ناں پاکستان کے اندر ہے وہ بالکل موہنجو دڑو کی طرح ہے۔ صرف دس فیصد ہمیں پتا ہے۔ نوے فیصد جو ہے وہ اس علاقے میں دفن ہے۔ وہ باہر آہی نہیں رہا۔ اگر مجھے براستہ انگلش یہی پتا چل جائے ناں کہ سندھی میں، تاریخ میں، ادب میں، جغرافیے میں کیا کیا کام ہوا ہے۔ تو وہ میرے لیے ایک بہت بڑی کان ہے۔ جو کہ میرے لیے ابھی دریافت نہیں ہوئی ابھی بند ہے۔

وجاہت مسعود :حمیدہ کھوڑو کو بھی آپ اس میں گنیں گے۔

وسعت االلہ خان :حمیدہ کھوڑو کو بالکل اس میں گنیں گے ہم۔

وجاہت مسعود :اور حسام الدین صاحب کو۔ حسام الدین راشدی کو۔

وسعت االلہ خان :پورا پتہ ہے آپ کو ڈیڑھ پونے دو سو سال کا ایک کلچر چلا آرہا ہے۔ اس پہ بھی بحث ہے کہ برصغیر میں سندھی اخبار پہلے نکلا تھا یا اردو اخبار پہلے نکلا تھا ۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں ناں کہ کتنا ترقی یافتہ کلچر ہوا ہو گا۔ 1813 ء میں پہلے سندھی اخبار نکلا تھا یا اردو نکلا تھا۔ اب میں جو کہہ رہا ہوں کہ مجھے انگریزی میں مل رہا ہے اچھا مال۔ وہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اپنے لٹریچر تک رسائی نہیں ہے۔ اپنی زمین کے لٹریچر تک۔ ہو سکتا ہے میری رائے بدل جائے، جب میں انیسویں یا بیسویں صدی کی یہ جو سندھی کتابیں ہیں اگر میری سمجھ میں آنے لگیں۔ یہ ایک فیکٹر ہے۔ ہو سکتا ہے میری رائے بدل جائے۔ اگر واہگہ سے پیاز کے ٹرک کے ساتھ ساتھ ایک کتاب کا ٹرک بھی آجائے۔ میرے پاس اس وقت جو سورسز ہیں وہ مغربی ہی ہیں۔

وجاہت مسعود :ہندوستان میں ایسی ایسی اچھی کتابیں لکھی جا رہی ہیں لیکن ہمیں جو مل رہا ہے ناں یہاں یونیورسٹیوں میں وہ ہے نصابی کتابیں۔ وہ ہیں میڈیکل کی، ٹیکنیکل کتابیں یا تھیسز وغیرہ جو لکھے ہوئے ہیں طالبانہ قسم کے وہ ہمیں مل رہے ہیں۔ ڈھنگ کا کام ہم تک نہیں آرہا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان اپنی موجودہ علمی سطح پہ ایسا کام پروڈیوس نہ کر رہا ہو جو ہمارے بہت کام کا ہے۔

وسعت االلہ خان :بالکل ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی ہو رہا ہے۔

وجاہت مسعود :کیا اس میں پالیسی کی رکاوٹ ہے۔

وسعت االلہ خان :مجھے نہیں لگتا کہ جان بوجھ کر انہوں نے کیا ہو گا۔ اگر جان بوجھ کر کریں تو مجھے خوشی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں خطرات کا پتا ہے اس لیے جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔ ان ظالموں کو یہ نہیں پتا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کیوں کتابیں بند کی ہوئی ہیں، کیوں رسالے نہیں آسکتے، ان کو یہ بھی نہیں پتا۔

وجاہت مسعود :کمپی ٹیشن کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے والے یہ نہ سوچ رہے ہوں کہ ہماری تو ہوا ہی نکل جائے گی۔

وسعت االلہ خان :نہیں نہیں کمپی ٹیشن کا مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا اگر ہونا ہوتا تو اس وقت میں نے جو چپل پہنی ہوئی ہے تو یہ چائنیز چپل نہ ہوتی۔ وہ میڈ ان ساہیوال ہوتی۔ تو اس کا بھی سلیکٹو غم ہے۔ کہ انڈیا سے آئے گی تو ہماری انڈسٹری تباہ ہو جائے گی، چین سے یہ چپل آئے گی تو انڈسٹری تباہ نہیں ہو گی۔ اس میں بھی اخلاص نہیں ہے۔ اس پروٹیکشن ازم میں بھی۔ کتابوں اور رسالوں کا جو مسئلہ ہے مجھے لگتا ہے یہ سوچا سمجھا نہیں ہے۔ اور یہ زیادہ المناک بات ہے۔

وجاہت مسعود :اس کا مطلب ہے اگر کوئی چاہے تو وہ لا سکتا ہے۔

وسعت االلہ خان :اگر آج کھول دے حکومت کہ ٹھیک ہے کتابیں ٹیکس فری آسکتی ہیں یا اخبار یا رسالے ٹیکس فری آسکتے ہیں اور یہاں سے جا سکتے ہیں۔ تو اس میں کیا ہو گا۔ یہ پیاز سے زیادہ نقصان یا نفع تو نہیں وہ گا ناں۔ لیکن اس سے فائدہ کتنا ہو گا ذہنی اعتبار سے۔

وجاہت مسعود :ستر سال میں اگر وہ قوم ایک مستحکم جمہوریت بنا پائی ہے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے متوازی ایک علمی روایت نہ بنی ہو۔ مضبوط روایت ہے۔ کئی دفعہ اگر کوئی کتاب قابو آجاتی ہے تو میں پڑھتا ہوں توسوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایسا نہیں لکھا جا رہا۔

وسعت االلہ خان :سات آٹھ سال پہلے ایک کتاب آئی تھی ’تہذیبی نرگسیت‘۔ وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ انہوں نے جس طرح سے اس اینگل کو دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ جھلکیاں آتی ہیں۔ مستقل مزاجی نہیں ہے اس میں۔

وجاہت مسعود :یہ حیران کن بات ہے کہ پاکستان میں بیشتر کتابوں کا پہلا نصف اور ہوتا ہے، دوسرے نصف میں شاید سانس پھول جاتی ہے یا کیا کرتے ہیں یا پھر ختم کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ہے ایسا۔

وسعت االلہ خان :اب جیسے علی عباس جلال پوری، اب جب تک میں نہ بتاؤں کسی کو کہ اس طرح کے کوئی صاحب گزرے ہیں تواسے پتہ ہی نہیں ہے۔

وجاہت مسعود :حالانکہ وہ پہلکاروں میں سے تھے اردو میں۔ ابھی ان کا انتقال ہوئے کیا وقت گزرا ہے، 89 ء میں انتقال ہوا ہے۔ اکبر علی ایم اے کا نہیں پتا۔

وسعت االلہ خان :ڈاکٹر مبارک علی کا اس سوسائٹی میں کیا مقام ہے۔

وجاہت مسعود :ڈاکٹر مبارک علی نے 82 ء، 83 ء میں جو کام کیا ہے اس وقت وہ گراؤنڈ بریکنگ تھا۔

عدنان خان کاکڑ: آپ کتابوں کی بات کر رہے تھے ہندوستان سے امپورٹ کی، اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ جرائد پہ جو ہندوستان اور دوسری دنیا سے آ رہے ہیں ان کو لگژری آئٹم قرار دے کر ان پر ہیوی ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اس پر آپ کے کیا کمنٹس ہیں۔

وسعت االلہ خان :اس پہ تو لکھنا چاہیے۔ ان چیزوں کو تو مستقل فالو اپ کی ضرورت ہے۔

وجاہت مسعود : میرے خیال میں بھی لکھنا چاہیے۔

عدنان کاکڑ: نئے ترین خیالات کسی بھی مضمون یا کسی بھی موضوع کے بارے میں ہمیں میگزین سے ہی ملتے ہیں کتاب سے نہیں ملتے ہیں۔ کتاب عام طور پر مضمون کے بہت عرصے بعد آتی ہے۔

وسعت االلہ خان :نالج از آ لگژری فار اس۔ (علم ہمارے لئے ایک عیاشی ہے)

وجاہت مسعود :حالانکہ ہم اچھے خاص عیاش ہیں لیکن یہ کتاب والی عیاشی سے ہمیں کچھ گریز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments