پچھلا ٹویٹ ری جیکٹ ہوتا ہے


جو ٹویٹ آج ری جیکٹ ہوا اس سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم کا بیان بہت شروع میں آ چکا تھا کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، یہ ایک اچھا اور اخلاقی طور پر مضبوط پیغام تھا۔ سیاست نام ہی خوش معاملگی کا ہے لیکن یہ بات شاید تحریک انصاف کے سر سے گزر جانے والی ہے۔

پانامہ مسئلے سے نکلنے کے فوراً بعد جندال ملاقات بھارت سے دوبارہ بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کرنے کا اشارہ تھا لیکن اس کے لیے وقت بہتر نہیں چنا گیا۔ عین اس ٹائم فریم میں جب پہلے احسان اللہ کے اعترافی بیان میں بھارت کو دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور پانامہ کیس کا گاڈ فادر والا فیصلہ آ رہا ہے تو اسی بیچ ہونے والی یہ ملاقات بھلے کاروباری ہی سہی، لیکن جب ہوئی تو کئی مسائل کو جنم دے گئی، مکمل طور پر حکومت مخالف ماحول بن چکا تھا۔ ری جیکٹ ہونے والے ٹویٹ کا لہجہ نامناسب تھا مگر جب اسے کیا گیا تھا تو وہ پوری انڈورسمنٹ کے ساتھ تھا اس کی واحد وجہ یہی تھی کہ اس وقت بنی سیاسی فضا میں سب کو پتا تھا کہ جو مرضی ہو جائے باقی سیاسی جماعتوں نے چوں نہیں کرنی، یہی ہوا اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ فوج ہر آفت میں ہم وطنوں کے کام آتی ہے۔ سرحدوں کے علاوہ آندھی ہو، طوفان ہو، زلزلہ آ جائے، سیلاب کا موسم ہو، کہیں لوگ قابو نہ آ رہے ہوں، کسی گینگ کا محاصرہ ہو، آخری حل کے طور پر فوج کو آواز دی جاتی ہے، اور وہ مکمل خود سپردگی سے مدد کرتی ہے۔ لیکن سیاست میں امپائر کی انگلی کا اشارہ چاہنا، یا شیخ رشید صاحب کی طرح بیان دینا کہ فوج وقت سے پہلے بھی الیکشن کی تیاری کر رہی ہے یا زرداری صاحب کی طرح کہہ دینا کہ اب نواز شریف نے کہا بھی تو مدد کو نہیں آئیں گے، یہ سب نہیں ہوتا۔ سیاست میں کوئی دوستی اور کوئی دشمنی ہمیشہ رہنے والی ہو ہی نہیں سکتی، اس میں تو جمہوری ادارے کو مضبوط کرنے کا سیدھا سادا سوال ہوتا ہے۔

اس چیز کا جشن منانا کہ یہ ٹویٹ جمہوریت کی یا کسی شخص کی ذاتی فتح ہے، کوئی تک نہیں بنتی۔ آج تک جتنی بھی سیاسی حکومتیں آئیں کوئی ایک جو ایسی ہو کہ جسے مکمل خود مختار حکومت کہا جا سکے؟ ایسا ممکن نہیں ہے، ان حالات میں تو بالکل ممکن نہیں ہے جب ایک مورچہ ردالفساد کی صورت کھلا ہے، دوسرا پڑوسی ممالک کی طرف سے دہشت گردی کی سپورٹ کا ہے اور پھر وہی ممالک نہ جانے کیوں ہم پر ہی الزام بھی دھرتے ہیں، تیسرا کراچی میں رینجرز کے لامحدود اختیارات کا ہے، چوتھے فوجی عدالتوں کا قیام ہے اور ایسے ہی چھتیس مسئلے اور ہیں۔ جب فوج ناگزیر ہے، الیکشن تک اس کی نگرانی میں کروائے جاتے ہیں، عدالتیں ان کے نمائندوں کو تحقیقاتی کمیٹی میں بٹھاتی ہیں، خارجہ پالیسی میں ان کا اہم کردار ہے، داخلی معاملات میں ان کی شراکت کے بغیر فیصلے نہیں ہو سکتے تو یہ کون سی جیت ہے جو پوری قوم کے ہر پڑھے لکھے دماغ کو سوجھ رہی ہے؟ وہ وقت یاد کیجیے جب پی ٹی وی بند ہوتا تھا اور پھر کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ والا سین ہوا کرتا تھا، ایک ٹویٹ ہی تو واپس ہوا ہے، محض چند الفاظ، اس میں کیا قیامت ہے، بندہ اوقات میں رہتا اچھا لگتا ہے۔

جب ٹویٹ آیا تو اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یاد کروانے والوں نے آئین سے وفاداری کے حلف یاد کروائے، ہر سطح پر واویلا مچایا صرف اس لیے کیوں کہ سوشل میڈیا اور موجودہ حکومتی پالیسیاں اتنی سپیس عام لوگوں کو دے چکی ہیں، ورنہ وہی آئین معطل بھی ہوئے ہیں، انہی سے انحراف بھی ہوا ہے، اس وقت تو اخباروں کے پورے پورے صفحے تک خالی ہوا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دیگر معاملات بدل چکے ہیں۔ وہ سب کچھ عین ویسا ہی ہے جیسا برسوں سے ہوتا چلا آیا ہے اور برسوں جاری رہے گا۔

یہ افہام و تفہیم جو اب نظر آتی ہے، اس کی کوشش پہلے ہی سے جاری رہتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ دھرنے، طاہر القادری، میموگیٹ، ڈان لیکس، پانامہ لیکس یہ سب چیزیں اگر حکومتیں ڈی سٹیبل نہیں کر سکیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب انتہائی اقدام سے گریز کرتی ہے۔ مقتدر دماغ جانتے ہیں کہ مارشل لا مسئلے کا حل کبھی نہیں ہوا۔ درون خانہ سنیارٹی کے مسائل اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے معاملات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سیاسی بندوبست کے اندر موجود رہ کر ملکی مفاد کو دیکھنا ہی ان حالات میں ان کو بہتر لگتا ہے اور اس کے لیے بظاہر ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرنا ہی بہتر آپشن ہے۔

ہیئت مقتدرہ کے پاس سیاسی بندوبست میں ساتھ چلنے کے لیے دو بہترین دماغ ہیں، اور دونوں ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے لیڈر ہیں۔ تیسرے لیڈر خود اپنے آپ کو منوا نہ سکے تو وہ اب گنتی سے باہر ہیں۔ ٹویٹ واپس لینا اور جمہوری نظام کو مضبوط رکھنے کا اعادہ کرنا ایک گڈ ول جسچر ہے، مراد یہی لی جائے کہ ہم اپنی غلطی مان گئے، اب آپ اپنی غلطیاں سنبھالیں۔

کل ملا کر جمہوری سفر میں اسے ایک اہم قدم تو کہا جا سکتا ہے لیکن منزل کا نشان ابھی کوسوں دور ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain