کیا ہم پولیس والوں کے رویوں کو تبدیل کر سکتے ہیں؟


ہمارے معاشرے میں پولیس تشدد کرنے کے حوالے سے بڑی بدنام ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ پولیس تشدد کرکے کسی بھی شخص کچھ بھے اگلوا نے کی صلاحیت رکھیی ہے۔ مطلب کہ شیر کو بھی بکری بننے پر مجبور کر سکتی ہے۔ پورے ملک سے آئے روز پولیس تشدد، رشوت، پولیس گردی اور ظلم و زیادتی کے قصے سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتے رھتے ہیں۔ آج کل اسلام آباد ٹریفک پولیس کی تشدد کا ایک وڈیو منظر نامے پر آیا ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ ایک ٹریفک اہلکار ایک شخص پر بہیمانہ تشدد کر رہا ہے۔ اسلام آباد ٹریفک اور موٹروے پولیس پوری ملک میں بھت مشہور و معروف ہے کہ یہ نا تشدد کرتے ہیں نہ ہی رشوت لیتے ہیں صرف اور صرف فرض شناسی کرتے پائے جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود کبھی کبھی سوشل میڈیا ان کے قصے لوگوں تک پہنچاتی رہتی ہے۔

پنجاب پولیس کے وردیاں تبدیل کرنے کے حوالے سے ملک میں کافی بحث و مباحثہ چلا کہ ان کی وردیاں اس لئے تبدیل کی گئی ہیں کہ ان کی وردی کی وحشت اور دہشت کو لوگ بھول جائیں اور پولیس اور شہریوں کا ایک دوستانہ تعلق بن پائے۔ مگر اس کےباوجود آئے دن پنجاب پولیس اور ڈولفن فورس اور پنجاب کے ٹریفک وارڈن کے جھگڑے اور تشدد کے قصے منظر نامے پر آتے رہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پنجاب پولیس میں تو روایتی پولیس والے موجود ہیں جو تھانہ کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں شاید وہ ملزموں کے ساتھ رھ کر تشدد زدہ ہوجاتے ہیں مگر ٹریفک وارڈن تو اس روایتی پولیس کا حصہ نہیں ہیں پھر وہ کیوں لوگوں پر تشدد کرتے پائے جاتیں ہیں؟

اگر خیبرپختونخواہ پولیس کے بات کی جائے تو پولیس اور تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے لئے کے۔ پی۔ کے کی حکومت نے تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے لئے تھانوں کے اندر بیٹھنے کی جگھ اور جگھڑوں کو حل کرنے کے لئے اچھا ماحول فراہم کیا ہے اور ان اقدامات کی تعریفیں بھی کی جا رہیں ہیں۔ مگر چھوٹے شہروں تک اس ماحول کو پہچانے اور پولیس کی دہشت اور رشوت کلچر کو ختم کرنے کے لئے ابھی بھی کافی وقت درکار ہوگا۔ باقی رہی سندھ اور بلوچستان پولیس تو ان کے رشوت کے قصے اور تشدد کی داستانیں بھی پورے ملک میں مشہور ہیں۔ اور لوگ بیچارے ان سے بے رحم لوگوں سے ڈریں نا تو کیا کریں۔ وہاں تو پولیس تھانے ٹھیکے پر ملتے ہیں۔ اگر آپ فریادی ہیں اور آپ کی کوئی چیز چوری ہو گئی ہے تو پولیس کی موبائیل میں پیٹرول بھی آپ ہی نے بھروانا ہے مطلب کہ پولیس کا پورا خرچا آپ نے اٹھانا ہے اور جیب بھی گرم کرنی ہے۔ تب بھی جا کہ ہمارے پولیس ان چوروں کو پکڑنے میں ناکام رہتی ہے۔

پولیس والوں سے اگر پوچھا جائے تو وہ بھی بیچارے بن جاتے ہیں کہ تھانے کا خرچا اور پولیس موبائیل کا خرچا اگر ان لوگوں سے نہ نکالیں تو کہاں سے لائیں۔ کیوں کہ پولیس فنڈز تو پولیس کے ایماندار افسران کھا جاتے ہیں۔ پولیس والے چاہے کسی بھی صوبے کے ہوں مگر ناکے پر وہ ٹریکٹر ٹرالے والے، دودھ والے اور مال بردار گاڑیوں سے خرچہ اور عیدی ضرور وصول کرتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں نے بھی اس تھانہ کلچر اور پولیس گردی کو فروغ دیا ہے اور ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اور یہ پولیس کی سالوں کی دہشت گردی وردی یا نام بدلنے سے ایک دم ختم نہیں ہوگی۔ اس کے لئے عملی اقدامات لینے کی ضروت ہے۔ یہ سالوں کی وحشت دنوں میں عوام دوستی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سپاہی، حولدار اور تھانیدار کلچر کو تبدیل کرنے کے ان کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا درس سکھائیں اور ان میں حب الوطنی اور عوام دوستی کا جذبہ پیدا کریں۔ اور ان کو ملکی مفاد کے لیے اپنا مفاد قربان کرنے کا سبق سکھایا جائے۔ ورنہ تو یہ ہمارے پولیس والے عوام دوست کم عوام دشمن زیادہ مشہور ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).