Vagina کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟


بھائی حاشر ابن ارشاد کا ایک مضمون ”ہم سب“ پر شائع ہوا جس کا عنوان ہے، ”جنسی ملکیت، محل توالد، آلہ توالد اور نظریاتی کونسل والی سرکار“۔ اسی مضمون نے تحریک پیدا کی کہ اس ضمن میں کچھ عرض کر دوں۔ کسی نظریے پر تنقید کرنے کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے، کہ آپ اس نظریے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور درست مفہوم کی طرف اشارہ دینا چاہتے ہیں، یا آپ اس نظریے سے انکار کرتے ہیں کہ اس نظریے میں آپ کے تئیں فلاں فلاں خامیاں ہیں۔

بظاہر آپ نے مولانا شیرانی کو تنقید کا نشانہ بنایا، بیچ میں آپ نے دو قصے بھی بیان کر دیے، اب قصوں اور اقوال کا معاملہ یہ ہے کہ ہر کوئی اس کو اپنی سمجھ کے مطابق اور اپنی فکر کی تمثیل بناتے یا بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ مثلا یہی مسخرے اور بادشاہ کا قصہ اسی تحریر ”جنسی ملکیت، محل توالد، آلہ توالد اور نظریاتی کونسل والی سرکار“ کے خلاف نقل کیا جا سکتا ہے، کہ عذر گناہ بد تر از گناہ۔

اب پہلے حصے کی طرف آتے بات بڑھاوں کہ کسی مسلمان کے عقیدے کی بنیاد ”قران“ ہے، جو حکم جو اجازت قران میں ہے، اس پر بحث کی گنجایش ہی نہیں۔ جہاں ابہام ہے، وہاں احادیث سے رہ نمائی اور قیاس وغیرہ کا راستہ کھلا ہے۔ جس کا دین اسلام ہے وہ قران کی اس آیت کی وکالت کرے گا، جس میں ہلکی پھلکی مار کا ذکر ہے۔ اس کو کرنا بھی چاہیے، کیوں کہ اس آیت کا انکار کرنے کی صورت میں وہ مسلمان کیسے کہلا سکتا ہے؟ اب اس نکتے پر توجہ ہو، ان احکامات کی وضاحت ہر کوئی اپنی فہم کے مطابق اور اپنی زبان میں کرے گا، کہ کیا وجوہ رہی ہوں گی کہ خدا نے یہ احکام دیے؛ ہر مسلمان ان وجوہ پر اختلاف رکھ سکتا ہے اور ہیں بھی۔ یہ وجوہ اتنی اہم نہیں، کہ خدا کا حکم اہم ہے۔ شیرانی صاحب نے جو وجہ بیان کی اس وجہ سے اختلاف کرتے آپ کوئی دوسری وجہ بیان کر سکتے ہیں، لیکن مسلمان کے لیے قران کی متعقلہ آیت کا انکار ممکن نہیں۔ اور جو مسلمان نہیں وہ جب اسلام پر تنقید کرے گا، تو اس کے اصولوں پر کرے گا، کہ اس کے مقابل فلاں اصول بہ تر ہیں، کیوں کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق قران کے احکامات کا پابند نہیں۔ نہ اس کے لیے قران حرف آخر ہے، تو اس پر یہ حکم لاگو بھی کیوں کر ہوتا ہے۔ اگر میرے بیان میں کوئی کمی رہ گئی ہو، تو معذرت قبول کیجیے گا، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ میں کسی کے ایمان پر شبہے کا اظہار کر ہا ہوں، محض بات سمجھانے کے لیے یوں لکھا۔

اگر تو آپ فرماتے کہ شیرانی صاحب نے جو وضاحت پیش کی وہ آیت سے متصادم ہے تو دوسری بات تھی، لیکن آپ نے شیرانی صاحب کے کندھے پر رکھ کے مزید فایرنگ کر دی، اور وہ بھی ہوائی فایرنگ۔ شاید مسخرے کی نقل میں بادشاہ کو کچھ اسباق دینا چاہتے تھے۔ واعلم۔ بہ ہر حال میری ناقص رائے میں اس ہوائی فایرنگ کا یہاں محل نہیں تھا۔ (اس محل کا تعلق محل توالد سے نہیں) مثلا اس قسم کی باتیں کر کے ”پر یہ کس دنیا کی کہانی ہے میاں۔ یہاں تو فیصلہ یہ کرنا ہے کہ محل توالد کی آلودگی روز کیسے ماپی جائے۔ سہاگ رات کو چادر داغ دار نہ ہو تو دُلھن کو داغ دار ٹھیرایے اور گلا دبا دیجیے۔ مال کی پکی وارنٹی ہونی چاہیے۔ ناقص مال کو مسترد کرنے کا اختیار تو ہے ناں خریدار کے پاس۔“ کیا مولانا شیرانی یا دیگر علما کی جانب سے قران کی آیت کی یہی تفسیر بیان کی گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو میری کم علمی کو کوسیے، مجھ کوئی ایک عالم بھی ایسا نہیں ملا جس نے یہ تشریح کی ہو۔ اسی جوش خطابت کو میں نے ہوئی فایرنگ سے تشبیہ دی ہے۔ پھر آپ نے لکھا، کہ ”ایسے ہی عورت کو بھی کالے تھان میں لپیٹنا ضروری ہے۔“ یہ ثابت کرنا چاہا کہ جیسے کالے تھان میں لپیٹنا شیرانی صاحب، یا انھی جیسے اصحاب کے حکم سے ہے۔

اسی قسم کی ہوائی فایرنگ کرتے آپ نے لکھا ”اس کے بعد شک کا ایک بیرومیٹر ایجاد کیجیے اور روز اس کی ریڈنگ پڑھیے۔ جب ریڈنگ اوپر نیچے ہو تو پروڈکٹ کو فائن ٹیون کیجیے۔ اس کے لیے شریعت کی طرف سے کھلا لایسنس ہے۔ تھپڑ، ٹھڈے، لاتیں، مکے، گھونسے، تیزاب وغیرہ وغیرہ۔ کوشش کریں کہ ہڈی نہ ٹوٹے۔ لیکن اگر ٹوٹ جائے تو بھی کیا ہے۔ آپ کی شے ہے۔ جیسے چاہیں برتیں۔ مولانا کے الفاظ میں محل توالد چوں کہ شوہر کی ملک ہے اس لیے مجھے تعجب نہ ہو گا کہ کل وہ اس کو بھی جائز قرار دیں کہ شوہر اپنی ملکیت کا آگے سودا بھی کر سکتا ہے۔ بزنس میں شرم کیسی۔ کم قیمت پر مال اٹھاوو اور زیادہ قیمت پر آگے ٹکا دو۔ ملکیت کا تو یہی تصور ہے۔“ یہ تصور آپ کا کہلایا جا سکتا ہے، نہ اسلام کا ہے اور نہ میری معلومات کے مطابق مولانا شیرانی کا۔ گو کہ میں ان کا وکیل نہیں۔

ٹھٹھا اڑانے کی رہی تو پہلے آپ سے ایک سوال کرتا ہوں، کہ بتائیے Vagina کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟ عربی فارسی کا سہارا مت لیں، یہاں کی بول چال کی زبان میں بیان کیجیے۔ میں آپ کو شرطیہ کہتا ہوں آپ وہ لفظ لکھ دیں تو مدیر ”ہم سب“ اس لفظ کو حذف کر دیں گے۔ کیوں؟ کیوں کہ اس ویب سایٹ کا بھی ایک ضابطہ ہے؛ آپ یہ بتایے کہ آپ نے اس کو اندام نہانی اور جائے تولید جیسے لفظوں کے کالے تھان میں کیوں لپیٹا؟ انگریزی کے پردے میں کیوں پیش کیا؟ اجی کیا اردو زبان اتنی معذور ہے کہ Vagina کا احاطہ نہیں کر پاتی؟

 یہاں کیسا اسلام ہے وہ آپ بھی جانتے ہیں میں بھی۔ بہت سی قدریں ایسی ہیں جن کا تعلق اس دھرتی سے ہے، اسلام کا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہاں پردے کی جو شکل ہے وہ برصغیر کے مختلف خطوں کے رواج کے مطابق ہے، کوئی مسلمان ہے، مسیحی، ہندو یا سکھ، ان کے یہاں علاقائی اعتبار سے پردے کا رواج ہے۔ اسلام جسم ڈھانپنے کے بارے میں کالے تھان، نیلے پردے کی شرط نہیں باندھتا۔ ہاں ایک ضابطہ ضرور ہے، اور ضابطے تو ہر ایک فکر کے ہیں۔ اس سماج کے ضابطے یہ ہیں کہ آپ یہاں کی مقامی زبانوں میں اندام نہانی کا نام لیتے چھُپ چھپا کے یا اپنے انتہائی بے تکلف دوستوں کی محفل میں، سر عام لینا بھی پڑ جائے تو کسی کو گالی بکتے؛ ایسے میں کوئی زبان غیر سے Vagina نہیں کہے گا، منہ بھر کے دیسی زبان میں بتائے گا، کہ ۔۔۔ وہ اس کے مقامی نام سے واقف ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ یہاں کا یہی ضابطہ ہے۔ معروف مقولہ ہے جیسا دیس ویسا بھیس۔

آپ نے اسی مضمون میں ایک جگہ لکھا کہ ”مولانا کے قبیل کے علما کے اعصاب پر عورت تو ہمیشہ سے سوار ہے ہی پر یہ نہیں پتا تھا کہ ساون کے اندھے کو جوں ہرا سوجھتا ہے ایسے ہی جنس کی آنکھیں بند مالا جپتے ان کو بھی چار سو محل توالد ہی نظر آتا ہے۔“ بتایے کہ حوالہ نکاح ہو تو ”محل توالد اور آلہ توالد“ کے سوا کیا مطمح نظر ہے؟ مرد اور عورت ایک معاہدے کے تحت جس معاہدے کو عقد یا نکاح کے نام سے جانا جاتا ہے، کیوں کرتے ہیں؟ ضابطہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت مرد ”حق مہر“ ادا کرتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ عورت کیا جنس ہے، شو کیس میں رکھا سیل فون ہے جس کو حق مہر دے کر خریدا جاتا ہے؟ معاہدے کے تحت ایک رقم مرد دے گا؟ عورت مرد کو حق مہر کیوں نہیں دے گی؟ پھر کما کے لانے کی ذمہ داری مرد کی ہوگی، عورت کا فرض نہیں ہے کہ وہ کما کے لائے اور مرد گھر بیٹھا کھائے۔ شوہر بیوی کو نان نفقہ دے گا، دونوں کی اولاد کو دودھ پلانے کا موقع ہو تو عورت یعنی اسی بچے کی ماں، مرد یعنی اس بچے کے باپ سے دودھ پلائی کا معاوضہ طلب کر سکتی ہے۔ پھر یہ ہے کہ دونوں کی نہیں نبھتی تو وہ یہ معاہدہ توڑ کے اپنے لیے دوسرا پارٹنر تلاش کر لیں۔ جب تک عورت کو معاہدے کے لیے دوسرا مرد نہیں ملتا، پہلا شوہر نان نفقے کے نام پر ”ہرجانہ“ بھرتا رہے۔ کیوں بھئی؟ کیا عورت کار ہے جس کی ٹنکی بھرنے کی قیمت مرد ادا کرتا رہے؟ معافی چاہتا ہوں اس موضوع پر لکھتے آپ کو حیا آ جائے گی، کیوں کہ آپ کا مقدمہ ہی یہ ہے کہ ”عورت بڑی مظلوم ہے“ سو اتنا تو اس کا حق ہے۔

اب آپ سوچتے ہوں گے کہ ایسا تو نہیں ہوتا، یہ کس دیس کا فسانہ ہے۔ ٹھیریے حضور، اب اس کو ہندستان کے رواج اور اسلام کے ضابطے سے گڈ مڈ مت کجیے گا۔ یہ مت کہیے گا یہاں کی عورت دودھ پلائی طلب ہی نہیں کرتی، اور نان نفقہ میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ حق مہر بھی بہانوں میں معاف کروا لیا جاتا ہے، یہاں‌ طلاق یافتہ سے کوئی شادی نہیں کرتا، ہائے بے چاری عورت کیا کرے۔ وغیرہ۔ اگر آپ ایسا کہنا چاہیں تو یہاں کے دستور پر تنقید کیجیے، اسلام کے ضابطوں پر تنقید کا محل نہیں۔ یہاں بھی جو ”محل“ لکھا ہے، اس کی محل توالد سے کوئی نسبت نہیں۔

پھر مجھے آپ کا مولانا شیرانی، اور اسلام کا تقابل کرتے مغرب کی مثال دینا سمجھ نہیں آیا، اسلام کا متضاد مغرب نہیں ہے۔ اگر ایسا سمجھ بھی لیا جائے، تو مغرب میں بھی شادی یا بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کا تعلق ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے، کسی کی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ ہونے کا مطلب صاف ہے کہ وہ ایک دوسرے سے وفاداری نباہیں گے۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جس وقت جہاں دل چاہے جس کے ساتھ مرضی آئے سو لیا جائے۔ جناب اگر یہ اولاد کا بکھیڑا نہ ہوتا تو نہ تو فریقین کے لیے عقد کی گھٹنا تھی، نہ عورت کے لیے ایک وقت میں ایک مرد کی اڑچن۔ کسی ستم ظریف نے کیا خوب کہا ہے، کہ وہ شخص جس نے سب سے پہلے شادی کا ادارہ قائم کیا، وہ بہت ظالم تھا۔

اس کے بعد آپ نے ایک پورے بند میں شاعری کی ہے، اس شاعری کا جواب یہی دیا جا سکتا کہ خواب عورت ہی کے نہیں مرد کے بھی ہوتے ہیں، اور یہ معاہدہ یعنی نکاح ہوتا ہی ایک دوسرے کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ہے، ورنہ جیسا کہا گیا کہ یہ مرد کا فرض ہے وہ کما کے لائے اور آپ کی شاعری سے اخذ کرتے خواب صرف عورت دیکھے، تو ایسا ممکن نہیں۔ عورت گاڑی نہیں ہے تو مرد بھی ٹریکٹر ٹرالی نہیں ہے، کہ عورت کے بوئے ہوئے خوابوں کی فصل کاٹ کے لاد لائے۔ یہ ایک معاہدہ ہے فقط ایک معاہدہ، ایسے ہی جیسے دو تاجروں کے درمیان قربت ہوتی ہے، دونوں ایک ساتھ کاروبار کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خوابوں کی قدر کرتے ہیں، ایک دوسرے کو عزت دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں؛ اختلاف کی صورت میں مفاہمت کے اصول اپناتے ہیں، جدائی ناگزیر ہو جائے تو اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ یہاں اسلام میں تو مرد پھر نقصان میں ہے، کہ جُدا ہونے والے پارٹنر کو خرچہ پانی دینا اس کے فرائض میں شامل ہے۔ گر چہ یہاں برصغیر کا مسلمان مرد بھی بڑا چالاک ہے کہ ایسے میں لبرل بن جاتا ہے، کہ نان نفقہ نہ دینا پڑے۔ مرد ہی کیا یہاں‌ کی عورت بھی اتنی ہی سیانی ہے، کہ وصولی کے وقت اس کو اسلام بھاتا ہے، اور جہاں گھاٹا ہوتے دکھائی دے، وہاں لبرل بننے میں عافیت جانتی ہے۔

ویسے میری نظر میں ”لبرل“ ہونا اسلام کا متضاد نہیں، لیکن ”مغرب“ اسلام کا متضاد ٹھیرایا جا رہا ہے تو اسی تناظر میں ”لبرل“ کو تقابل کے طور پہ پیش کیا۔ شاید آپ ہی بجا کہتے ہوں؛ کیوں‌ کہ میری کج فہمی کا یہ احوال ہے کہ میں اب بھی وہی سوال لیے کھڑا ہوں، کہ ”محل توالد اور آلہ توالد“ کو اردو زبان میں کیا کہتے ہیں، جیسا کہ ان کو انگریزی میں Vagina اور Dick کہا جاتا ہے؟

(بھائی ظفر عمران، لفظوں کے طوطا مینا اڑانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ کیا آب دار عنوان باندھا۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ اور پھر ” راکب اس کا حاضری کھائے جو کلکتہ تو لنڈن میں ٹفن” کے مصداق۔ خدا معلوم کہاں کہاں کے عرض البلد۔ آرزو کے محل وقوع، جائے واردات اور مسائل توالد و تناسل کا احاطہ کرتے کرتے وہی فرہنگ کے بکھیڑے میں جا الجھے۔ وہی چہار حرفی فرنگی لغت۔۔۔۔ اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ اگر سوال واقعی اتنا ہی تھا اور بھائی حاشر ابن ارشاد کی بغلی نکالنا مقصود نہیں تھا تو یہ لندھوری داستان لکھنے کی بجائے اس عاجز بیان ہیچمداں سے پوچھ لیا ہوتا۔ مشفقی مشتاق احمد یوسفی کے لفظوں میں اتنا کہہ دینا کافی تھا۔ “لوطی کو اردو میں کچھ نہیں کہتے”….. مدیر)

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran