کوا اندھیری رات میں شب بھر اڑا کیا


 ہم اہل پنجاب کا شین قاف درست نہیں ہوتا۔ حروف پر مبنی زبانوں میں اصوات کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بچہ والدین اور ارد گرد کے افراد سے خود بخود آوازیں سیکھ لیتا ہے۔ متعلقہ منطقے میں جو آوازیں موجود نہیں ہوتیں ، ان کی تحصیل کار دارد ہوتی ہیں۔ یہ سامنے کی بات تھی جسے عرب و عجم کا جھگڑا بنا دیا گیا۔ دلی اور لکھنو کے دبستان وجود میں آئے۔ نیاز مندان لاہور میں پطرس، تاثیر، سالک ، حفیظ اور مہر جیسے جدید علوم کے شناور شامل تھے مگر گومتی کے پار سے یہی پیغام آیا کہ اقبال جوش کی ’جی ہاں‘ کے جواب میں ’ہاں جی‘ کہتے رہے۔ پھر اس قبیل میں ایک جھگڑا روزمرہ اور محاورے کا بھی تھا۔ بتایا گیا کہ محاورے میں لفظ کی ترتیب سے سرمو انحراف ناروا ہے۔ بات تو کچھ اور تھی۔ محاورہ تقلید کا استعارہ ہے۔ کسی بھی زبان کے محاورے اٹھا کے دیکھئے۔ اونچ نیچ، رسوخ اور امتیاز اور تعصبات کی فہرست ہوتے ہیں۔ کہیں ذات پات کی بنیاد پر قدر پیمائی ہے تو کہیں حسب نسب کے مفروضے ہیں۔ کہیں عورت مرد میں امتیاز ہے تو کہیں علاقائی تعصبات ہیں۔ استاذی ابلاغ حسین نے تو ایک دفعہ یہ بھی کہہ دیا کہ انسانوں کو شرافت سکھانا ہے تو زبان سے محاورے کو خارج البلد کر دینا چاہیے۔

محاورہ ایک خاص عہد کی معیشت، معاشرت اور اقدار کی عکاسی کرتا ہے ۔ اردو غزل میں نواب مرزا داغ سے زیادہ دھلی ہوئی زبان کس کی ہو گی۔ اخلاق احمد دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ قلعے کی ایک عمر رسیدہ ملازمہ داغ کو لونڈی زادہ کہا کرتی تھیں۔ اور تو اور ، بابائے اردو مولوی عبدالحق سے کہا گیا کہ آپ کی زبان کو سند نہیں مانا جائے گا۔ آپ دہلی سے نہیں، تھانہ بھون سے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی کو دہلویت پہ بہت غرہ تھا۔ کیا نہیں جانتے تھے کہ ان کے دادا کو بجنوری ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ یہ محض اردو کا قصہ نہیں، مشرق و مغرب کی کوئی زبان اٹھا لیں، محاورہ فہم اور علم کے سینہ بہ سینہ انتقال کی روایت ہے جسے بلاردوکد قبول کیا جاتا ہے اور جس کی معروضی تصدیق نہیں کی جاتی۔ قول بذات خود سند ہے۔ علم کی جدید روایت شخصی سند کے انکار سے شروع ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ کچھ روشن ضمیر ادب اور احترام کو علم کا پیمانہ منوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہت خوب! ادب، احترام، اور تواضع مثبت اقدار ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ قدامت پسند ذہن ادب اور احترام کو اپنے ترجیحی گروہ اور اقداری نمونے تک محدود کرنا چاہتا ہے۔ جدید ذہن انسان کے احترام کو امتیاز اور تعصب کی موہوم چھلنی سے نہیں گزارتا۔ صفائے قلب کے لئے مساوات، تحقیق، پیداوار اور تخلیق کی کسوٹی بروئے کار لاتا ہے۔ جدید علم کی اقلیم میں نجابت کارکردگی سے مشروط ہے۔ موچی کا بیٹا سائنس دان ہو سکتا ہے۔ جولاہے کا بیٹا شاعر ہو سکتا ہے۔ چائے بیچنے والا حکمران ہو سکتا ہے۔ رشد اور ہدایت کا یہ نیا تصور ہے جو نامعلوم کی جستجو اور بہتر کی کھوج سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں ارتفاع کا معیار مغلق پیرائے میں بیان کئے گئے حروف مرموز نہیں ہوتے۔ دوسروں کو چار کتابیں پڑھنے کا طعنہ دینے والوں نے غالباً ساڑھے چار کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ الکتاب سے رہنمائی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ جادو ٹونے، عملیات ، اوراد اور ایک خاص وضع قطع سے بے نیازی تو محض نئی تمثیل کے اجزا ہیں۔ تعجب ہے کہ دائرہ دین پناہ اور دربار پیسہ اخبار شریف سے بے نیازی بلکہ نفور کا دعویٰ کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ’پیشہ ور پیر، موروثی گدی نشین اور جادو ٹونے والے جاہل ساڑھے چار کتاب کی لغت ہائے فرنگی کا دنیاوی مرتبہ دکھا کر ہی عوام کی توہم پرستی ، کمزور ایمان اور مسائل کے جبر کا فائدہ اٹھا کر حاجت مندوں کی جیبیں خالی کرتے ہیں اور اپنی ہوس کی تسکین کرتے ہیں‘۔ انحراف کا گناہ عظیم کرنے والے مسائل کے جبر سے فائدہ نہیں اٹھاتے، مسائل کو حل کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ علت اور معلول کے رشتے سے انکار کر دیا جائے ، نامعلوم کو معلوم کی دلیل قرار دے دیا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آستانہ اوہام کی دہلیز پر جبہ سائی کرنے والا کورا ان پڑھ ہے یا چار کتابوں کا امتحان سر کر چکا ہے۔ اقبال بحر علوم کے شناور تھے۔ یہ ایسا گناہ گار تھا کہ خود کو بوترابی کہتا تھا۔ کچھ بدباطن گمان کرتے ہیں کہ مرزا نوشہ غالب اور حضرت اقبال وغیرہ بھی ”اپنی انفرادیت ، منفرد حیثیت ، اور الگ پہچان قائم کرنے کے لیے اپنی فکری ، روحانی اور سیاسی میراث سے بغاوت “کی تلقین کرتے تھے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

بامن میاویز اے پدر، فرزند آذر را نگر

ہر کس کہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد (غالب)

اور اقبال کو پڑھیے ۔

اگر تقلید بودی شیوہ خوب

پیغمبر ہم رہ اجداد رفتی

اقبال پر انفرادیت اور ندرت کا جذبہ اس قدر غالب آگیا کہ یہاں تک کہا ۔

گر ازدست تو کار نادر آید

گناہی ہم اگر باشد صواب است

یہ جاننا تو بہت مشکل ہے کہ اقبال کو ’دنیا کی رنگ برنگی ترغیبات ‘سے کوئی دلچسپی تھی یا نہیں یا وہ تسخیر کائنات کو انسان کی معراج سمجھتے تھے یا نہیں البتہ ایک شعر اقبال کا ملاحظہ فرمائیے۔

طلبم نہایت آں کہ نہایتے ندارد

بہ نگاہے ناشکیبے بہ دل امیدوارے

نکلی تو لب اقبال سے ہے، کیا جانئے کس کی ہے یہ صدا۔ کیونکہ بزبان فارسی یہ موتی پروئے گئے ہیں۔ فارسی جاننے کے لیے اب اس ملک میں چار کتابوں سے کچھ زیادہ پڑھنا پڑتا ہے ۔ تو کیوں نہ اردو کی ایک مختصر نظم آپ کی خدمت میں پیش کر دی جائے۔ کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے۔

 میں بھی حاضر تھا وہاں، ضبط سخن کر نہ سکا

حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت

عرض کی میں نے، الٰہی! مری تقصیر معاف

خوش نہ آئیں گے اسے حورو شراب و لب کشت

نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقوال

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

ہے بدآموزی اقوام و ملل کام اس کا

اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت!

صاحبان نظر اور سالکان مقام سے اختلاف کی تاب ، مجال اور جرات کیسی۔ عرض صرف یہ ہے کہ سات دہائیاں اس ملک میں بدآموزی اقوام و ملل میں گزر گئیں ۔ جسے شب زندہ داری اور واردات داخلی سے شغف ہے وہ ضرور اس راہ پر چلے مگر اس ملک میں بسنے والے بیس کروڑ افتادگان خاک کی پلکوں پر شب و روز کو ہلکا کرنے کی تدبیر بھی کرنی چاہیے۔ دعا کی تاثیر سے انکار چہ معنی ؟ مگر ایک نظر اس طرف ڈالنے میں کیا ہرج ہے جہاں انصاف کا چشمہ بہتا ہے اور خوشی کا پرندہ چہچہاتا ہے۔ ہم نے ترجیحی ٹیکنالوجی چوری کرنے میں نام پایا ہے۔ قوموں کی تعمیر کا نسخہ بھی کہیں سے اڑانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).