میں نے بھٹو کودیکھا نہیں محسوس کیا


یہ 1976کی بات ہے کہ ایک دن ہمارے گاؤں میں غلغلہ مچا کہ کل وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو راولاکوٹ آرہے ہیں۔ بنجوسہ کی خوبصورت جھیل کنارے ایک جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ کافی دن تک بیڈفورڈ ویگنوں پر اسپیکر لگا کر جلسے کی منادی کی جاتی رہی کہ فخر ایشیا اور قائد عوام کا خطاب سننے عوام جمع ہوں۔ ابا کی منت سماجت کی کہ وہ مجھے بھی اپنےہمراہ جلسہ عام میں لے جائیں لیکن وہ نہ مانے۔ کہنے لگے کہ مخلوق خدا سمندر کی مانند ابل پڑی ہے۔ سب قافلے سب راستے بنجوسہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ مبادہ تم بھیڑ میں کچلے جاؤ یا پھر کھو جاؤ۔

غروب آفتاب کے وقت اہل محلہ واپس لوٹے توخبر ہوئی کہ بھٹو کے دیدار کو ایک ہجوم بے گراں امنڈ آیا تھا۔ جلسہ گاہ تنگ پڑگئی تو لوگ درختوں پر چڑھ گئے۔ گھروں کی چھتوں پر عورتیں کھڑی تھیں اوران کے بغل میں شیر خوار بچے تھے۔

بھٹو نےاعلان کیا کہ کل سے راولا کوٹ کے اندھیرے روشنیوں میں بدل دوں گا۔ یہ تصور بھی خوش کن تھا کہ یہ خطہ جسے لوگ وادی پرل بھی کہتے ہیں ایک دن برقی قمقموں سے جگمگا اٹھے گا۔ بھٹو نے جلد ہی اپنا وعدہ ایفا کیا۔ راولاکوٹ کو جنریٹر سے بجلی کی سپلائی شروع ہوگئی۔ آج بھی لوگ ان سنہری دنوں کو یاد کرتے ہیں جب راولپنڈی اور اسلام آباد کے نواح میں بھی بجلی نہ تھی لیکن راولاکوٹ روشنیوں سے جگمگاتا تھا۔

جلسہ تمام ہوا لیکن اگلے کئی دنوں تک ہمارے گھر اور گاؤں میں بھٹواور بس بھٹو ہی کا ذکر چلتا رہا۔ ان کی محسور کن شخصیت اور طرز تقریر سے ہر کوئی متاثر تھا۔ گاؤں کے بزرگ کہتے کہ بھٹو کی شخصیت میں ایک جادو ہے جو انہیں دیکھتا ہے، نقد دل ہار بیٹھتا ہے۔ یہ میرا ذوالفقار علی بھٹو سے پہلا تعارف تھا۔

کچھ برس بعد ایک دن خبر ملی کہ بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ جنرل ضیاءالحق نامی ایک شخص نےشب خون مارا اور اپنے آپ کو مملکت پاکستان کا حکمران کہتا ہے۔ وہ توپ وتفنگ کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں کو کوڑے مارتا ہے اور مزاحمتوں کاروں کو عبرت ناک سزائیں دیتاہے۔ حبیب جالب کی زبان میں وہ چاہتاہے کہ ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا اور بندے کو خدا کہا جائے۔ گاؤں کے بابے کہتے: فرنگی ضیا کی پشت پر ہیں کہ وہ بھٹو جیسے آزاد منش حکمران کو برداشت نہیں کرسکے۔

گھر میں تمام بہن بھائی ریڈیو کے گرد ہجوم کیےجنرل ضیاءالحق کی پہلی تقریر سن رہے تھے۔ فضا سوگوار تھی۔ ہر کوئی دکھی اور غم میں ڈوباہوا تھا کہ بھٹو نے ہر کسی کے دل میں گھر کرلیا تھا۔ ضیاء کی تقریر کوئی متاثر کن نہ تھی۔ انہوں نے دھیمے لب ولہجے میں اپنی آمد کا مقصد بتایا لیکن قرائن بتارہے تھے کہ یہ شخص جلدی جان چھوڑنے والا نہیں۔

گاؤں میں اچانک بی بی سی کی خبریں اور تبصرے سننے کا رجحان بڑھ گیا۔ پاکستان قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک کے وقت سے ہی لوگ بی بی سی کے مارک ٹیلی کے چونکا دینے والے تبصرے سننے کے عادی ہوچکے تھے۔ مارک ٹیلی کی خبروں اور تبصروں پر کامل بھروسہ تھا کیونکہ ریڈیو پاکستان یا ٹیلی وژن تو صرف سرکاری خبریں سناتا تھا۔

چند ہفتوں بعد ملک بھر میں حکومت مظاہرے شروع ہوگئے بالخصوص مزدور اور طلبہ تنظمیں مارشل لاء سے سخت ناخوش تھیں۔ راولاکوٹ اس زمانے میں پیپلزپارٹی کا منی لاڑکانہ کہلاتا تھا کیونکہ سردار محمد ابراہیم خان پارٹی ہی نہیں بلکہ آزادکشمیر کے بھی صدر تھے۔ ضیاءالحق کے خلاف راولاکوٹ میں لگ بھگ ہرروز جلوس نکلتے، جلسوں میں پرجوش تقاریر ہوتیں۔ پولیس شامعین اور مقررین پر لاٹھی چارج کرتی لیکن جیالے ٹس سے مس نہ ہوتے۔

کچھ عرصہ بعد گھر، سکول اور گاؤں کے چھوٹے سے بازار میں سرگوشیاں جاری تھیں کہ بھٹو کو پھانسی ہونی والی ہے۔ لوگ کہتے کہ معمر قذافی یا سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد بن عبدالعزیز بھٹو کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے مقامی لیڈروں کو یقین تھا کہ دنیا بھر کے سیاسی راہنماؤں کی رحم کی درخواستوں کے باعث بھٹو کو سولی پر نہ لٹکایا جا سکے گا۔

ایک شام ابا نے آواز دی کہ سب ایک جگہ جمع ہوجاؤ۔ اخبار میں آیا ہے کہ آج بھٹو کوپھانسی دے دی جائے گی۔ بی بی سی پر تبصرہ سننے ہم ان کی چارپائی کے گرد جمع ہوگئے۔ ایک پرانا سا ریڈیو تھا جو مشکل سے بی بی سی کا اسٹیشن پکڑتا۔ اماں جی جو سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اس وقت اپنے آنسو پر قابو نہ پاسکیں جب بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی نے بتایا کہ پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے قبل بھٹو نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: اے مالک یاد رکھنا، میں بے گناہ ہوں۔ اس رات گھر میں چولہا جلا نہ کسی کے حلق سے ایک بھی نوالہ اترا۔ ایسا لگا کہ کوئی ہمارا اپنا ہم سے چھین لیا گیا ہو۔ دوسرے دن بازارمیں ہو کاعالم تھا۔ معلوم ہوا کل رات کسی بھی گھر میں کھانا پکا نہ کوئی چین سے سو پایا۔ چار سو ماتم کی فضا تھی۔ بھٹو کی موت پر نصرت اور بے بظیربھٹو ہی نہیں تڑپیں پورا دیش رویا۔ حتی کہ سری نگر میں بھی کئی دن تک ماتم کی سی کیفیت رہی۔

گاؤں میں مشہورہوگیا کہ بھٹو بے قصور تھا اور اسے امریکہ کی ایما پر پھانسی دی گئی کیونکہ وہ اسلامی بلاک بنارہاتھا۔ 1971کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لینے والے اور بعد میں بھارت میں جنگی قیدی بننے والے فوجیوں کے مابین دن بھر بحث و مباحثہ کا مرکزی موضوع بھی بھٹو ہی کی ذات ہوتی۔ بھٹو کی پھانسی نے سیاست کو ہر گھر کا موضوع گفتگو بنادیا۔

غرض یہ کہ جب یہ طالب علم سن شعور کو پہنچا توملک کے طول وعرض میں بھٹو کا طوطی بولتاتھا۔ شہری ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار تھے۔ ان کے خلاف بات کرنے والے کو ضیاءالحق کا پٹھو قراردیاجاتا۔ لوگ جمہوریت اور شہری آزادیوں کےلیے پی پی پی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے یا پھر قربانی دینے کے لیے نہ صرف ہر وقت کمر بستہ رہتے بلکہ فخر محسوس کرتے۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے بھٹو کو دیکھا نہیں لیکن ان کے سحر کو محسوس ضرور کیا۔ ان سے ملا نہیں لیکن انہیں اپنے قریب پایا۔ ملکی سیاست پر ان کےاثرات کا مشاہدہ کیا۔

سوال یہ ہے کہ جس بھٹو کی لوگوں نے پرستش کی دھیرے دھیرے اس کی پارٹی کا طلسم ٹوٹاکیوں؟ وہ پارٹی کل تک جس کے لیے لوگ جان قربان کرنے کو تیار ہوتے تھے اب نحیف ونزار کیوں ہے؟ میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ کچھ عرصہ قبل بلاول بھٹو کا ایک خط ملا جس میں انہوں نے استفسار کیا تھا کہ پی پی پی کو کس طرح دوبارہ ہردلعزیز عوامی جماعت بنایا جا سکتا ہے؟ میں نے خانہ پری کی ایک مشق سمجھ کر خط ایک طرف رکھ دیا لیکن اب دل کرتا ہے کہ انہیں ایک مفصل جواب دیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے بلاول بھٹو کو پارٹی کی ناکامی کے اسباب خارج کے بجائے اپنے گھر میں تلاش کرنے چاہییں۔ جماعتیں اور سیاستدان عوام کی ملکیت ہوتے ہیں۔ انہیں لمیٹیڈ کمپینوں اور ذاتی جاگیر کی طرح جب بھی برتا جاتا ہے، ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

کالم پر تبصرے کے لیے لکھیں:

ershad.mahmud@gmail.com

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood