وادی سون میں ایک رات، بارش، بجلی
کہیں نیچے بادل برس رہے ہوں، بجلی کڑک رہی ہو اور آپ دور کسی پہاڑ کی بلند چوٹی پر بیٹھے یہ حسین و دلکش منظر دیکھ رہے ہوں تو قدرتی مناظر کے دلدادہ کے لئے اس سے حسین منظر اور کوئی نہیں ہو سکتا اور یہ وہ منظر تھا جو وادی سون کی ٹریکنگ پر گئے ہوئے سیاحوں نے دیکھا۔
اس مرتبہ ٹریکنگ میں شامل تھے ٹیم کے رہبر و رہ نما عدنان عالم اعوان، ملک محمد علی اعوان، بلال مقصود، احمد ملک، عدنان احسن، ان کے بھائی ساجد ملک، اعجاز اعوان۔
مقام تھا وادی سون کے شمال میں ایک بلند چوٹی پر واقع قلعہ اکراند
موسم گرما میں ٹیم نے وادی کے بلند مقامات پر رات کے وقت کیمپنگ پلان کی۔ جس کے مطابق گذشتہ ماہ مارم دیو پہاڑ کی چوٹی پر کیمپنگ کی گئی اور اس مرتبہ 14، 13 مئی کی درمیانی شب اکراند قلعہ پر گزارنے کا پلان بنایا گیا۔ ٹیم کھبیکی میں اکٹھی ہوئی اور گاڑیوں میں اکراند قلعہ کی جانب روانہ ہوئی۔ اگرچہ وادی سون میں سیاحت کے حوالے سے کافی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن دو بنیادی امور کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ایک تو اہم مقامات تک جانے کے لئے کوئی سڑک نہیں بنائی گئی دوسرے یہ کہ تفریحی مقامات تک جانے کے لئے نہ کوئی گائیڈ لائن دستیاب ہے نہ ان مقامات پر کوئی سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ موسم کافی معتدل تھا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں ابھی کافی زور دار بارش ہوئی ہے بعد میں پتا چلا کہ خاص اسی ایریا میں طوفانی بارش ہوئی جو ہماری منزل مقصود تھا۔
ڈھوک تلی میں گاڑیاں کھڑی کرنے کے بعد ہم پیدل روانہ ہوئے۔ ہمارے میزبان ملک ربنواز ہمارے ساتھ چلے یہاں سے قلعہ اکراند کافی قریب ہے اور اس کی اونچائیاں بتاتی ہیں کہ یہ قلعہ کافی عرصہ تک ناقابل رسائی رہا۔ اونچے نیچے تنگ رستوں سے ہوتے ہوئے ہم قلعہ اکراند تک پہنچے۔ وادی سون کے دیگر قدیم قلعوں کے برعکس قلعہ اکراند نسبتاً پسماندہ قلعہ سمجھا جا سکتا ہے کسی زمانے میں تعمیرکیے گئے مکانات کے لئے جو پتھر استعمال کیا گیا اس کو زیادہ گھڑا نہیں گیا۔ نہ ہی یہ پتھر کسی ترتیب کے مطابق ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے۔ پھر بھی یہ قلعہ گذرے وقتوں کی عمدہ داستان بیان کرتا ہے۔
آپ وادی سون میں جتنا بھی گھوم پھر لیں ہر مرتبہ اس کی نئی پرتیں آپ کے سامنے آتی ہیں جا بجا پھیلے ہوئے کھنڈرات آپ کو ہر بار ایک نئی کہانی سناتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون لوگ تھے جو صدیوں پہلے یہاں رہتے تھے ان کا مذہب کیا تھا۔ کس وجہ سے ان کی نسل ختم ہوئی۔ یہاں زیادہ تر ہندو اور بدھ مت کے لوگوں کے بنائے ہوئے آثار جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔
اکراند قلعہ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جنجوعہ قوم نے بنوایا تھا۔ وجہ غیر ملکی حملہ آوروں سے بچاؤ ہی رہی ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم کے انسان کی زندگی کچھ زیادہ پر سکون نہیں رہی۔ اسے اپنی عزت، جان و مال کے تحفظ کی خاطر بہت کچھ کرنا پڑتا تھا جن میں سے ایک اونچی اور خفیہ جگہوں پر قلعوں کی تعمیر تھی جہاں تک دشمن مشکل سے ہی رسائی حاصل کر سکتا تھا۔ وادی سون میں کئی مقامات پر ایسے قلعے تعمیرکیے گئے تھے جن کے آثار ابھی بھی باقی ہیں اور یہ دشمن کوئی اور نہیں افغانی ہی تھے جب افغانستان میں شدید برفباری ہوتی اور کھانے کو کچھ نہ ہوتا یہ افغانی پنجاب پر حملہ آور ہوتے۔ صدیوں سے جاری یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
قلعہ اکراند کی تعمیر کی جو بھی وجہ رہی ہوجب ہم یہاں پہنچے تو سورج غروب ہونے کے قریب تھا ہم نے اپنے بیگ اتارے اور یہاں وہاں گھوم کر جگہ کی خوب صورتی سے لطف اٹھانے لگے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور دن میں ہونے والی بارش نے اطراف کا ماحول کافی نکھار دیا تھا۔ قلعے کے تین اطراف میں دیوار کی مانند گہری کھائیاں ہیں ان کے پرلی طرف پھر اسی طرح کی دیوار نما اونچائیاں تھیں۔ ہمارے رہبر اور جیالوجسٹ عدنان صاحب کا کہنا تھا کہ یہ سب پہاڑ کبھی آپس میں جڑے ہوئے تھے لیکن پھر کسی بِگ بینگ کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ایک دوسرے سے کافی دور پہاڑوں کو آج صدیوں بعد بھی دیکھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ واقعی کبھی یہ ایک دوسرے سے جڑے رہے ہوں۔ قلعے کی ایک چوٹی پر بیٹھ کر ہم نے احمد ملک سے پوچھا کہ آپ کیا سوغات لائے ہو دوستوں کے لئے تو احمد نے ایک بڑا باؤل بیگ سے نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ باؤل نمکین مصالحے دار چنا چاٹ سے بھرا ہوا تھا جس میں چنوں کے علاوہ بھی کئی پھل کھاٹ کر ڈالے گئے تھے۔ تمام دوستوں نے چناچاٹ سے جی بھر کر لطف اٹھایا۔ اس کے بعدوہیں بیٹھے گپ شپ ہوتی رہی۔
ساجد ملک دبئی سے ایک دن پہلے ہی واپس آئے تھے اور اگلے ہی دن ہمارے ساتھ کیمپنگ کے لئے نکل پڑے۔ اگرچہ وہ بہت محتاط تھے کہ کیمپنگ کے لئے زیادہ دور تک نہ چلنا پڑے۔ اس سلسلے میں وہ مناسب یقین دہانیاں بھی حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے دبئی کی کئی باتیں بتائیں جو ہمارے لئے کافی دلچسپ تھیں۔ دبئی کی ڈیوٹی فری شاپ سے خاص طور پر ٹریکنگ ٹیم کے لئے خریدی گئی چاکلیٹ پیش کی جو واقعی کافی مزیدار تھی۔ تاریکی چھا رہی تھی چاندنکلنے میں ابھی تاخیر تھی کہ عدنان بھائی نے شمال کی جانب بار بار کڑکتی بجلی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ کیا عمدہ منظر ہے۔ کہیں بہت زوروں کی بارش ہو رہی ہو گی۔ اور واقعی یہ بہت دلکش منظر تھا۔ بار بار بجلی کڑکتی ہر طرف روشنی سی پھیل جاتی۔ اور یہ سب کچھ نیچے گہرائی میں ہو رہا تھا ہم ان بادلوں سے بھی اوپر پہاڑ پر بیٹھے تھے۔ کافی دیر تک یونہی مسحور ہو کر ہم یہ منظر دیکھتے رہے۔ گپ شپ بھی جاری رہی اور ہم نے دیکھا کہ یہ بادل یونہی گرجتے برستے اپنی جگہ تبدیل کرتے جا رہے تھے شمال سے ان بادلوں نے مشرق کی طرف سفر شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں یہ بادل ہمارے عین مشرق میں برس رہے تھے۔ ہم نے بھی اپنی جگہ بدلی اور چٹان کے بالکل کنارے پر پہنچ گئے عدنان بھائی اس معاملے میں بہت بے خوف ہیں وہ چٹان سے نیچے جھک کر ہمیں بتا رہے تھے کہ یہ ہینگنگ کلف ہے اور اس پتھر کے نیچے کچھ نہیں ہے ہم نے پریشان ہو کر انہیں واپس پکارا اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ خیر کرے گا۔ اس کے بعد طے کیا گیا کہ باربی کیو کے لئے کوئلے بعد میں جلائے جائیں گے پہلے کچھ میٹھا ہو جائے میٹھے میں ہمارے پاس کھیر تھی۔ جس سے سب سے پورا پورا انصاف کیا۔
رات کے دس بج رہے تھے جب ہم نے بار بی کیو کے لئے آگ جلانے کا سوچا۔ ہوا کافی تیز چل رہی تھی کچھ زیادہ مشقت نہ کرنا پڑی اور علی بھائی کے لائے ہوئے کوئلے بہت جلد آگ پکڑنے لگے۔ عدنان بھائی نے الگ سے آگ جلادی امید ہے میلوں دور تک لوگوں نے یہ آگ دیکھی ہو گی لیکن انہی نے دیکھی ہو گی جنہیں رات کو نیند نہیں آتی یا دیر سے نیند آتی ہے۔ پھر تِکوں کے دور پر دور چلتے رہے۔ ساجد ملک نے اپنے سیل فون سے میوزک بجانا شروع کیا بہت جلد وہ دیسی سے ولایتی کی طرف چلے گئے۔ انگریزی گانے ہمیں کبھی کبھی پسند نہیں آئے لیکن ایک دوگانے کافی ردھم میں تھے۔ تِکے، لیگ پیس، انگریزی و دیسی میوزک سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا رہا اور پھر بارش شروع ہو گئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سب اٹھے اور ٹینٹ کے اندر گھسنے کا سوچنے لگے لیکن یہ ہلکی پھلکی سی بارش تھی جلد ہی ختم ہو گئی۔ ایک بار پھر آوارہ گردی کا راؤنڈ لگایا گیا پھر سبھی سونے کی تیاری کرنے لگے۔ عدنان احسن کے خطرناک ارادے بھانپ کر احمد ہمارے ٹینٹ میں آ گھسا۔
صبح میری آنکھ کھلی تیتروں کے شور کی وجہ سے، ہر طرف تیتر بول رہے تھے، سبحان تیری قدرت، سبحان تیری قدرت، یہ تیتر دکھائی نہیں دیتے تھے مگر ان کی آوازیں اس پہاڑی چوٹی پر ہر طرف گونج رہی تھیں۔ ایک بار پھر سے سارے قلعے کا راؤنڈ لگایا گیا۔ گرمی کی وجہ سے جلد ہی ٹینٹ سمیٹ کر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ بہت جلد ہم ملک ربنوازکے ڈیرے پر پہنچ گئے جہاں ایک پرتکلف ناشتہ ہمارا منتظر تھا۔ ناشتے کے بعد کچھ دیر گپ شپ لگی۔ اور پھر ہم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ کھبیلی پہنچ کر سب کے رستے جدا ہو گئے پھر ملنے کے وعدوں کے ساتھ ہم رخصت ہوئے۔ ایک اور شاندار مہم اختتام پذیر ہوئی۔
ٹریکنگ سوسائٹی سون سکیسر کی یہ 10ویں مہم تھی جو کامیاب ہوئی
- حاصل زیست۔ ایک مطالعہ - 16/05/2023
- جناح ہاؤس لاہور۔ کیا واقعی کوئی جناح ہاؤس لاہور میں بھی تھا؟ - 14/05/2023
- کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟ - 14/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).