احترام رمضان آرڈننس کے ساتھ احترام انسان آرڈننس کا اجرا بھی وقت کی اہم ضرورت


ہم مملکت خداد داد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں۔ بچپن سے یہی پڑھتے آئے ہیں کہ قیام پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا اور تاریخ میں مذہب کے نام پر دو ہی ملکوں کا قیام عمل میں آیا ہے ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل۔ یہ بھی پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرہے۔ جس کی تکمیل قائداعظم کی بصیرت افروز اور ولولہ انگیز قیادت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ شاعر مشرق اور قائداعظم کو ہمارے سابقہ و حاضر حکمرانوں اور عوام نے کتنا پڑھا اور سمجھا ہے۔ موجودہ ملکی حالات کو دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
چند دن سے پرنٹ ا ور الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر احترام رمضان آرڈننس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی جانب سے کی جانے والی ترمیم پر بحث جاری ہے۔ محترمہ بختاور بھٹو نے بھی ایک ٹوئٹ کے ذریعے اس ترمیمی بل کی مخالفت کی ہے جس پر ان کے ٹوئٹ کی بھی مخالفت جاری ہے۔ آج کل ویسے بھی ٹوئٹ کاچلن عام ہے۔ سیاسی رہنما ہوں یا معاشرے کے دیگر خاص و عام افراد، ٹوئٹ کے ذریعے اپنی بولیاں اورزبان دوسروں کو سمجھانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔ احترام رمضان آرڈننس کے کیا نتائج نکلے ؟ اس کا اندازہ ترمیمی بل پیش کرنے سے ہوجانا چاہیے۔ غیر مسلموں کے حوالے سے آرڈننس کی طرح اس ترمیمی بل میں بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے اس لیے مملکت خداداد پاکستان کے مسلم شہریوں کو آرڈننس کی خلاف ورزی کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی زدوکوب کرنے کی کھلی آزادی ہے اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی عید سے قبل عیدی وصول کرنے کی۔

کسی بھی قانون کی مبینہ یا کھلی خلاف ورزی پر سزا دینے کا ذمہ کیونکہ عوام نے اپنے سر لیا ہوا ہے۔ جس کے واقعات اور مناظر تواتر کے ساتھ اخبار و میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں مشال خان کو مبینہ بلاسفیمی کا الزام لگا کر، گولیاں مارنے اور قتل کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بااثر افراد جب چاہیں کسی بھی محنت کش کے ہاتھ یا بازو معمولی غلطیوں پر کاٹ ڈالتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک نوعمر لڑکے کو صفائی کا معاوضہ طلب کرنے پر قتل کردیا گیا۔ کندھ کوٹ کی نوعمر لڑکی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی گزشتہ دنوں وقوع پذیر ہوا ۔ اسی طرح گڑھی حبیب اللہ میں پڑوسی لڑکے کو صرف لڑکی سے مبینہ طور پر بات کرنے کی پاداش میں قتل کیے جانے کا واقعہ بھی آج کل کی بات ہے۔ اس طرح کے واقعات میں تسلسل اور اضافے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بحیثیت مسلمان و قوم، ہم انسانی و سماجی ارتقاء کی کن منازل پر ہیں۔

احترام رمضان آرڈننس سے قبل بھی ہم مسلمان تھے اور الحمدللہ آج بھی ہیں۔ آرڈننس سے قبل بھی کراچی جیسے شہر میں مشاہدہ تھا کہ کھانے پینے کی اشیاء ڈھانپ کر رکھی جاتی تھیں اور ہوٹلوں پر پردے لٹکا کر کھانے پینے کا اہتمام ہوتا تھا۔ آرڈننس کے نفاذ کے بعد، یہ مشاہدہ بھی عام ہے کہ دوران رمضان کھانے پینے کی اشیاء کھل عام دستیاب ہیں اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر کھا بھی لی جاتیں ہیں۔ لیکن آرڈننس کے نفاذ کے بعد عوام کو ایک کھیل اور موقع ہاتھ آگیا ہے کہ کسی بھی شخص کو کھاتے پیتے دیکھ کر پیٹنا شروع کردو، چاہے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہی اس عمل کا مرتکب ہوا ہو یا غیر مسلم ہو۔ اسی طرح پولیس کو بھی کمائی کا ایک نیا دھندا رمضان میں میسر آگیا ہے۔

احترام رمضان کو بحیثیت مسلمان ہم نے کھانے پینے تک محدود کرلیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، رشوت خوری، بدعنوانی ، غیبت، جھوٹ و بہتان طرازی ، بدنظری اور پڑوسیوں کا ناک میں دم کرنا ، سارے سال کی طرح رمضان میں بھی جاری رہتا ہے بلکہ بد کلامی میں تو سب سے زیادہ اضافہ رمضان میں ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ رمضان میں کھانے پینے پر سزا اور جرمانے میں اضافے کا ترمیمی بل تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے فوری منظور کرلیا لیکن ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، رشوت خوری اور بدعنوانی کو دین اسلام اور احترام رمضان کے منافی نہیں سمجھا گیا کہ ان جرائم کی بیخ کنی پر بھی کم از کم رمضان میں، سزا اور جرمانے کی حد میں اضافہ کیا جاتا۔

روزہ تزکیہ نفس کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ بھوک و پیاس کی شدت میں ، ان انسانوں کو یاد رکھیں جن کو دو وقت کی باعزت روٹی نصیب نہیں ہے۔ روزہ تو احترام انسان کا درس دیتا ہے لیکن ماہ صیام میں وہ بازی گر کھل کر سامنے آتے آجاتے ہیں جو مساجد کے اندر و باہر کھل عام چندہ جمع کرتے ہیں۔ جن کے مسلک کے مولوی و امام ، دوسرے مسالک کے افراد کے قتل کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ گزشتہ سینتیس سال سے لسانی ، مذہبی و مسلکی اور جہاد کے نام پر قائم ان گنت تنظیمیں چندہ جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈکیتیاں اور بھتا خوری اس کے علاوہ کی جاتی ہے ۔ یہ سب کس کی سرپرستی میں ہورہا ہے ، باشور عوام اس سے واقف ہے لیکن زبان کھولنے کی صورت میں بھیانک انجام کی وجہ سے زبان بندی پر مجبور ہے۔

آئین پاکستان میں احترام انسان کے حوالے سے کئی شقیں ہیں لیکن عمل درآمد کسی پر بھی نہیں ہوتا۔ ہونا تو یہ چاہے کہ بحیثیت انسان ہم جس درندگی و حیوانیت کا مظاہرہ کررہے ہیں ، محترم صدر مملکت احترام رمضان آرڈننس کی طرح کم از کم رمضان میں احترام انسان آرڈننس کا اجراء کردیں تاکہ رمضان میں دم توڑتی انسانیت کو بھی تھوڑی بہت تقویت ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).