مودی کا انقلاب جو نظر نہیں آتا


شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آئندہ ہفتے اقتدار کے تین برس پورے کر رہی ہے۔ حکومت نے اپنی مختلف وزارتوں کے ذریعے ان گذرے ہوئے تین برسوں میں حکومت کی کارکردگی اور کامیابیوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف شہروں میں سیکڑوں پریس کانفرنسز کا اہتمام کر رکھا ہے۔

ہم نوا اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر حکومت کی کارکاردگی اور مودی کی مقبولیت کے بارے میں روزانہ طرح طرح کے سروے اور جائزے پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان جائزوں سے لگتا ہے کہ پورا ملک مودی کے ترانے گا رہا ہے اور بیشتر لوگ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

مودی حکومت اپنے اقتدار کے تین برس ایک ایسے وقت میں پورے کر رہی ہے جب وہ چند ہفتے قبل اتر پردیش کی ریاست میں سب سے بڑے صوبائی انتخاب میں زبردست کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ اس کامیابی کے بعد بی جے پی کی مقبولیت بنگال، اڑیسہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مودی 2014 میں ترقی اور ایک بہتر گورننس کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ ان تین برس میں حکومت کے کام کرنے کے طریقے میں یقیناً بہتری آئی ہے۔ حکومت پر مودی کا مکمل کنٹرول ہے۔ ہر جگہ صرف مودی کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ سبھی اہم فیصلوں میں ان کا دخل ہوتا ہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے ’سووکچھ بھارت‘، ’میک ان انڈیا‘، ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘، ’جن دھن‘ اور اس طرح کی متعدد اسکیمیں اور پروگرام شروع کیے۔ ان میں کچھ اسکیمیں اور پروگرام کامیاب رہے اور کچھ صرف نعرے بن کر محدود ہو چکے ہیں۔ مودی اقتدار سے پہلے ’بڑے خواب‘ دیکھنے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ اس تین برس میں ان کی حکومت نے کوئی بڑا پروجکٹ، بڑا منصوبہ یا پروگرام نہیں شروع کیا جو ملک میں تیز رفتار ترقی کا ضامن ہوتا۔

ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح گھٹ کر اس وقت سات فی صد پر آ گئی ہے۔ اگر ترقی کی شرح نکالنے کے لیے 2014 کے فارمولے پرعمل کریں تو یہ شرح سات فی صد سے بھی کہیں کم ہے۔ پانچ برس پہلے ملک میں ہر برس سات سے آٹھ لاکھ نئی ملازمتیں بنتی تھیں۔ پچھلے برس یہ گھٹ کر سوا لاکھ پر آگئی ہے۔ اس برس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہزاروں نوکریاں ختم ہونے والی ہیں۔ آئی ٹی، ای کامرس اور بینک کاری میں آئندہ تین برس کے دوران لاکھوں ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔

ملک میں حکومت کی تمام دعوں کے باوجود روزگار کے نئے مواقع نہیں بن پا رہے ہیں۔ معیشت میں اعتماد اتنا کم ہے کہ بینکوں سے قرض لینے کی شرح اتنی نیچے آ گئی ہے جتنی پچھلے ساٹھ برس میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔

حکومت نے حال میں سڑک، بندرگاہوں اور نئے ہوائی اڈوں کی تعیر اور توسیع کے کچھ پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ مودی حکومت اس لحاظ سے خوش قست ہے کہ جس وقت وہ اقتدار میں آئی اس وقت بین الاقوامی بازار میں پیٹرول 107 ڈالر فی بیرل تھا اور یہاں 71 روپے فی لیٹر بکتا تھا۔ اب بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول 48 ڈالر کا ہے اور انڈیا میں 68 روپے میں بکتا ہے۔ اس سے ہر برس حکومت کوکچھ کیے بغیر تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔

بینکوں کی حالت یہ ہے کہ دو برس قبل بڑی بڑی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے یہاں پھنسے ہوئے قرضوں کی جو مالیت تین لاکھ کروڑ روپے تھی وہ اب سات لاکھ کروڑ روپئے تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹوں پر پابندی لگائے جانے کے بعد پرانے نوٹوں کی کتنی رقم جمع ہوئی۔

ملک کے تعلیمی ادارے اس وقت بحران سے گذر رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ آنے والے برسوں میں ملازمت کے مواقع تخلیق کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔

کشمیر اور ماؤ نوازوں کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ہندوتوا کی ایک نئی لہر چلی ہے جس میں مذہبی اقلیتیں خوف وہراس سے گذر رہی ہیں۔ گائے کے تحفظ کے نام پر گوشت کے کاروبار پر روک لگائی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بےروزگار ہو گئے ہیں۔ دلتوں کے خلاف مظالم بڑھ گئے ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے تین برس میں پچاس سے زیادہ غیر ممالک کے دورے کیے۔ بین الاقوامی سطح پر یقیناً انہوں نے انڈیا کی تشہیر بہتر کی اور تجارت اور اشتراک کے نئے راستے کھولے۔
مودی کو اپنی تنقید پسند نہیں ہے اور نہ ہی وہ نکتہ چینی کرنے والوں کو معاف کرتے ہیں۔ انڈیا کا میڈیا اس وقت کم و بیش نہ صرف پوری طرح مودی کا حامی ہے بلکہ وہ حزب `اختلاف کا سب سے بڑا مخالف ہے۔

ان گذرے ہوئے تین برس میں وزیر اعظم مودی نے اپنی کارکاردگی کے حوالے سے ایک بھی پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا۔ وہ سوال کیا جانا پسند نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس اخبارات اور ٹی وی چینل مودی حکومت کی کارکردگی کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے تین برس میں مودی حکومت نے ملک میں انقلاب برپا کر دیا ہو۔ لیکن یہ انقلاب زمین پر کہیں نظر نہیں آتا۔

مودی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت میں اقتدار میں ہیں جب ملک میں حزب اختلاف افرا تفری کا شکار ہے۔ کوئی متبادل قیادت سامنے نہیں ہے۔ انڈیا ایک سیاسی خلا موجود ہے۔ جب تک کوئی متبادل نہیں ابھرتا تب تک مودی کے حامی ان کی اوسط حکومت کو ہی انقلاب سے تعبیر کرتے رہیں گے۔

بی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp