ریاست اورحکومت میں کیا فرق ہے؟


پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی مباحث کے دوران عموما ریاست و حکومت کے فرق کو صحیح طرح سے سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی . کل فیس بک پر میں نے کچھ دوستوں کے درمیان سیکولر ازم کے بارے میں ایک بحث پڑھی . ایک مقبول مذہبی ادارے کے ذمہ دار ترین شخص کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست سیکولر ہو مگر حکومت لازمی طور پر مذہبی ہو . اس بات نے مجھے حیران کر دیا کہ کیا موصوف ریاست اور حکومت کا باہمی تعلق سمجھنے سے قاصر ہیں ؟ پاکستان ایک قومی ریاست ہے اور ایک قومی ریاست درج زیل بنیادی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے

۱. ایک مخصوص جغرافیہ
۲. اس جغرافیہ میں لوگوں کی آبادی یعنی پاپولیشن.
۳. حکومت.
۴. ریاستی ادارےجونظم و نسق اور ریاست سے مخصوص دیگر امور سرانجام دینے کی زمہ داری کی ادائیگی کے پابند ہوتے ہیں جیسے انتظامیہ عدلیہ دفاع وغیرہ
۵. اقتدارِاعلی جوایک لبرل جمہوریت میں شہری ریاست کے سپرد کرتے ہیں جس کے بدلے وہ اقتدارواختیار کے امور میں ریاست سے جوابدہی طلب کرتے ہیں.
٦ . قانون . سیاست کے ماہرین کی ایک معقول تعداد قانون کو اس ذیل میں شامل نہیں کرتی مگر اکثر ماہرین کی رائے میں قانون بھی ایک قومی ریاست کا لازمی جزو ہے . ایک لبرل ریاست قانون کی حکمرانی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی .

دورِجدید میں قومی ریاست کا تصور قرونِ وسطی اور قدیم عہد کی ریاست سے مختلف ہے. فرانسیسی بادشاہ لوئس XIV سےمنسوب ہے کہ اس نے کہا تھا “میں ہی ریاست ہوں” اسی طرح بادشاہوں کا مشہور جملہ ہوتا تھا “میں ہی قانون ہوں “. بادشاہت میں ریاست آمر کے زیرقبضہ ہوتی ہے. جس میں عوام کی حیثیت بطور شہری نہیں بلکہ رعایا کی ہوتی ہے . شاہی ریاست میں ساری ملکیت بادشاہ کی ہوتی ہے اور نجی ملکیت کا تصور یا تو پایا نہیں جاتا یا پھر انتہائی محدود ہوتا ہے . شہریوں کے حقوق نہیں ہوتے محض فرائض ہوتے ہیں …. جبکہ یہ قومی ریاست میں ہی ممکن ہو پایا ہے کہ شہری ریاست کے حقیقی معنوں میں مقتدراعلی بنے ہیں ، ان کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے ، نجی ملکیت کا حق تسلیم کیا گیا ہے ، ریاست کو سوشل کنٹریکٹ کے ماتحت سمجھا گیا ہے اور قانون عوامی نمائندے عوام کی رائے کے مطابق بناتے ہیں جس میں مساوات ہوتی ہے .

سوال اب یہ ہے کہ حکومت کا ایک ریاست میں کیا کردار ہے؟ جمہوریت میں جب ہم کہتے ہیں کہ اقتدارِاعلی عوام کے پاس ہوتا ہے جو وہ اپنے منتخب نمائندوں کےسپرد کرتے ہیں . اقتدار اعلی کی منتقلی کے اس عمل کو ہم ایجنسی (Agency) کہتے ہیں اور منتخب نمائندے عوامی ایجنٹ کہلاتے ہیں جوعوام کی نمائندگی کرتے ہیں . یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک کمپنی کے شئیرہولڈرز مل کر کمپنی کی مینجمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں بالکل اسی طرح عوام ریاست کے انتظام و انصرام کےلیے مینجرز چنتے ہیں جسےحکومت کہتے ہیں . یہ مینجرز عوام کے حضور اپنی کارکردگی پیش کرنے کے زمہ دارہوتے ہیں. اگرعوام اپنے ان مینجرز یا ملازمین سے مطمئن ہوں گے تواگلی دفعہ انہیں دوبارہ منتخب کریں گے ورنہ وہ کسی دوسری پارٹی کے مینجرز کو منتخب کریں گے جوبہتر کارکردگی کی ضمانت دیں گے.

ریاست ایک مخصوص جغرافیہ کےبغیر وجود نہیں رکھتی اسی طرح اس جغرافیہ میں انسانوں کی آبادی ضروری ہے ورنہ انٹارکٹکا یا مریخ کا ایک مخصوص جغرافیہ تو ہے مگرآبادی نہ ہونےکے باعث وہاں ریاست یا حکومت نہیں پائی جاتی.

قومی ریاست محض ایک تصور ہے جسے عملی حقیقت میں سوشل کنٹریکٹ لاتا ہے. ریاست کوئی مابعدالطبیعاتی یا دیومالائی وجود نہیں بلکہ اپنے افعال میں ان انسانوں پر انحصار کرتی ہے جو اس کے مخصوص افعال سرانجام دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں – ریاست کی کارکردگی کا انحصار سیاستدانوں ، بیورو کریسی (سول و ملٹری اور عدلیہ وغیرہ ) اور اس قانون پر ہے جس کے تحت انتظامی امور سرانجام دیئے جاتے ہیں .

چونکہ اقتدارِاعلی شہریوں کے پاس ہوتا ہے جس کےتحت وہ اپنے نمائندے (Agents) منتخب کرتے ہیں اور یہ ایجنٹس ریاست کےامور کے حوالے سے تمام شہریوں کے حضور جوابدہ ہوتے ہیں اس لیے منتخب نمائندے ہی ایک لبرل ریاست میں سب سے زیادہ بااختیار ہوتے ہیں – پارلیمانی نظام میں وزیراعظم جبکہ صدارتی نظام میں صدر ریاست کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے جس میں ریاست اور حکومت یا دوسرے لفظوں میں ریاست اور سیاست مجتمع ہوتی ہے . اسی سبب سے ترقی یافتہ ممالک جن میں جمہوری ثقافت ان کے سیاسی نظام پر غالب ہے ، میں حکومت اور ریاست میں زیادہ فرق نہیں رکھا جاتا کیونکہ حکومت ہی ریاست کی منتظم اعلی ہوتی ہے اور حکومت کا سربراہ ہی ریاست کا چیف ایگزیکٹو . پاکستان جیسے ملک میں ریاست اور حکومت میں واضح تفریق پائی جاتی ہے جس کی وجہ بعض اداروں کی طرف سے سول بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار ہے .

جوہری طور پر یہ ناممکن ہے کہ ریاست سیکولر ہو مگر حکومت ہر صورت میں مذہبی ہو . اگر ریاست سیکولر ہو گی تو آئین بھی سیکولر ہو گا اور سیکولر آئین نہ شہریوں میں مذہبی بنیاد پر کوئی تفریق کرتا ہے اور نہ ہی ان کے منتخب نمائندوں میں . عوام جسے منتخب کر کے ریاست کا مینیجرز بنائیں گے وہی مینیجر ہو گا بغیر کسی مذہبی نسلی لسانی اور صنفی تفریق کے .

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan