مکاں کیوں ہورہے ہیں گھر ہمارے


یہ موضوع ایک کتاب جتنی وسعت رکھتا ہے ؎ سفینہ ہائے اس بحر بیکراں کے لیے؛ میں کوشش کروں گا کہ بات کو آسان اور مختصر پیرائے میں بیان کر دوں۔ اب آپ کسی شہری بچے سے سوال کریں تووہ کہے گا کہ ”خاندان؟ میں امی۔ ڈیڈی اور ہم سب بھائی بہن، ایک خاندان ہیں۔ “ لیکن خاندان کا مطلب پچھلے وقتوں میں خون کے رشتوں کی وسعت کو بیان کرتا تھا، جس میں ایک مرد کے بیٹے، ان کے بیٹے، اور بیٹوں کے بیٹے سب آجاتے تھے۔ پوتوں یا پڑپوتوں تک ایک ہی شخص باپ سے دادا یا پردادا ہوجاتا تھا اورعملاً خاندان کا سربراہ رہتا تھا جو تمام فیصلے کرتا تھا اوروہ نافذ بھی ہوتے تھے۔ کسی کے نافرمان یا ناخلف ہونے کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے۔

اس سوشل سیٹ اپ کی اخلاقی مضبوطی کے پیچھے بھی دراصل زمین کی معاشی طاقت تھی، جو تقسیم نہیں ہو سکتی تھی چناں چہ گھر سے جانے والی لڑکی کو اس میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ اولاد نرینہ اسی لیے اہم تھی کہ جب ایک مرد بوڑھا ہوکے ہل چلانے اور کاشت کے قابل نہ رہے تو اس کی جگہ لینےو الے ہوں۔ بوڑھے کا فیصلہ کن کردار اس بنیاد پر تھا کہ وہ نافرمان کو عاق کر سکتا تھا۔ جس کی قانونی یا شرعی حیثیت آج بھی صفر ہے۔

مگراس وقت شہری معاشرہ آج جیسی قوت نہیں رکھتا تھا، ایک خالص زرعی معیشت والے ملک میں ایک کے بعد دوسری نسل کی زندگی کا معمول بدلتا نہیں تھا۔ جب انگریز کے دور میں سرکاری ملازمت کا تصور پیدا ہوا جو لگی بندھی اور مستقل آمدنی کی ضامن تھی تو نوجوان ”پر دیس“ سدھارنے لگے۔ ان گنت گانے اس تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔

”پر دیس جانے والے وعدہ نہ بھول جانا“ (ثریا)
”مرے پیا گئے رنگون، وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون“ (شمشاد)
”پردیسی بالما ساون آیا“ (اوما)
”لے جا مری دعائیں او پردیس جانے والے“ (لتا)

آبائی مکان چھوڑ کے کمائی کے لیے جانے والے ایک بیٹے نے اپنا پیشہ بھی بدلا اور بالآخر اپنے بیوی بچوں کو بھی پاس بلالیا، یوں ایک خاندان ٹوٹا۔ اس کی معیشت الگ ہوگئی، فیصلوں میں خود مختاری آئی اور رہن سہن کے ساتھ سوچ بدلی، تو خودغرضانہ رویوں کو فروغ ہوا۔ اگر وہ شہر سے کمائی کرکے بھیجتا تھا، تو دوسرے بیٹوں سے زیادہ قابل قدر ہوجاتا تھا۔

”آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل“ سے بڑی سچائی کو رشتوں کے معاملے میں آج بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ شہری بیٹے کے لیے رفتہ رفتہ جذباتی رشتوں سے دوری اہم نہیں رہتی تھی۔ پھر سسرال کی ذلت سے نکل کے اپنے گھر کی خود مختاری اور شوہر پر صرف اپنا تسلط چاہنے والی عورت رہی سہی کسر پوری کرتی تھی۔ وہ سمجھنے لگتا تھا کہ اس کے لیے واقعی اپنے بیوی بچوں سے زیادہ اہم کوئی نہیں۔ باقی رشتے ثانوی ہیں، پھر اس کا گھر جانا کم ہوجاتا تھا یا رقم بھیجنے میں با ضابطگی نہیں رہتی تھی۔ وہ کبھی بہن کی شادی پر کچھ دے دیتا تھا، تو کبھی ماں باپ کی بیماری پر؛ باقی یہ کہ جو وہاں ہیں وہ ذمے دار ہیں۔ پھر ماں باپ یا بھائی بہن کی ضروریات، بلکہ ان کی ضرورت ہی غیر اہم ہوجاتی تھی۔

صنعتی ترقی نے شہری کلچر کو تیزی سے فروغ دیا اور شہر پھیلے۔ شہری سہولیات نے دیہات سے نقل مکانی کی رفتار تیز کا عمل کہا جاتا ہے اور یہی URBANIZATION ہوتی گئی۔ اس اخلاقی تنزل کا سبب بنا کہ صرف اپنے لیے جینے کا اخلاقی جواز پیدا ہوگیا۔ شہر کے اطوار اور تھے، یہاں دو بھائی بھی معاشی حریف تھے۔ کوئی کسی کی کفالت کا پابند نہیں تھا۔ ایک محل میں اور دوسرا جھونپڑی میں رہے تو اپنی قسمت۔ ترقی صرف مزید خوش حالی تھی کہ کس کا گھر اور گاڑی زیادہ شان دار ہیں۔ کس کے بیوی بچے اچھا پہنتے ہیں، تعلیم اورفیشن میں اگے ہیں۔ بھائی بہن کی اپنی زندگی کے بھی یہی اصول، تعلق رکھیں۔ کم رکھیں یا نہ رکھیں۔

یہ مغربی معاشرہ کے اثرات بھی تھے، جن سے بچ کے رہنا ناممکن ہوتا گیا۔ وہاں خاندان ایک غیر جذباتی حقیقت تھی۔ ایک مرد عورت نے باہمی ضرورت پوری کرنے کے لیے گھر بسایا۔ بچے ہونے ناگزیر تھے۔ قانون نے ان کی پرورش کے اصول بنادیے، جن کے تحت میاں بیوی اپنے تعلق سے ہونے والے بچوں کو بالغ یعنی 18 سال کی عمر کو پہنچنے تک تحفظ۔ خوراک اور تعلیم فراہم کرنے کے پابند تھے۔ اس کے بعد تعلق کی بھی کوئی پابندی نہیں۔ سب کی اپنی اپنی زندگی، جیسے چاہیں جیئں؛ چناں چہ یہ عام بات ہے کہ نہ ماں باپ کو علم ہوتا ہے کہ بچے کہاں ہیں، کس حال میں ہیں اور زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

دو سال قبل نیو یارک ٹایمز میں امریکا کے تین بڑے شہروں نیو یارک، لاس اینجلز اور ہوسٹن پر ایک رپورٹ دیکھی تھی کہ ہر شہر میں اوسطا پچاس ہزار بے گھر نوجوان شب بسری کے لیے کسی رفاہی ادارے یا چرچ کی قرعہ اندازی میں جاتے ہیں، مشکل سے پانسو کو اجازت ملتی ہے، باقی لڑکے لڑکیاں کہیں بھی رات گزارنے کے لیے بستر بچھا لیتے ہیں۔ سڑک کے کنارے، پارک میں، پل یا دیوار کے سائے میں، جہاں ممنوع نہ ہو۔ وہ بہت خوش قسمت نہ ہونے کے برابر ہیں، جن کو ماں باپ کیا بہن بھائی کے گیراج میں بھی جگہ مل جائے۔ حقیقی زندگی کا ایک تجربہ ہے کہ میری تقسیم سے پہلے برطانیہ کی شہریت لینے والے (ایسے لاکھوں نہیں تو ہزاروں ضرور ہیں) پاکستانی کے بیٹے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے اعتراف کیا کہ اماں ابا کے دس سال قبل عید پر فون کرنے سے زندہ ہونے کا پتا چلا تھا۔ ایک بھائی کا بتایا کہ پچیس سال بعد، میں اس کے شہر میں تھا توسوچا مل لوں۔ فلیٹ پر پہنچا تو اس نے اندر سے چلا کے کہا کہ دس منٹ ٹھیرو میں واش روم سے نکل آؤں۔ میں نے کہا کہ بھائی میرے پاس بھی دس منٹ ہی تھے، پھر ملیں گے۔

ابھی یہاں ایسا عام نہیں ہے، لیکن انفرادی واقعات میرے علم میں بہت ہیں۔

(جاری ہے)

مکاں کیوں ہو رہے ہیں گھر ہمارے 2

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal