زمانہ بعد از تلور میں پاکستانی خارجہ پالیسی کے خد و خال


تلور کی معدومی کے خطرے کے باعث اس کے شکار پر دنیا بھر میں مکمل پابندی ہے۔ اس صورتحال میں جب عرب شہزادوں کو تلور کے شکار سے سپریم کورٹ کے حکم پر روکا گیا تو وفاقی حکومت نے پابندی اٹھانے کی پیٹیشن کرتے ہوئے بتایا کہ خلیجی ممالک سے تعلقات کا انحصار دراصل تلور نامی پرندے پر ہے۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ’یہ پٹیشن خلیجی ریاستوں کے ساتھ ہمارے خارجہ تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے ہے۔‘ سپریم کورٹ نے اجازت دے دی کہ چلو ہمارے پیارے شہزادے تھوڑے بہت تلور مار لیا کریں۔

ویسے تو تلور وغیرہ ادھر عرب شریف میں بھی پائے جاتے ہیں مگر جب جزیرہ نما عرب میں تلور ناپید ہوگیا تو بدقسمتی سے سعودی حکومت نے نجد میں السید ریزرو کے نام سے 22 سو مربع کلو میٹر کا علاقہ مختص کیا جس کی خاردار حدود میں کسی طرم خان کو بھی صحرائی ہرن، شتر مرغ اور تلوروں کے شکار کی اجازت نہیں تھی۔

مجبوراً عرب شہزادوں نے پاکستان سے تعلقات بنا لئے۔ دنیا میں پرندے تو بہت ہیں مگر عرب شہزادے اس وجہ سے تلور کا شکار کرنا ہی پسند کرتے ہیں کہ اس کے گوشت سے ان کی مردانگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مگر اب جس طرح امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے موقعے پر پاکستانی وزیراعظم کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہزادوں کو اب تلور کے گوشت کی ضرورت نہیں رہی ہے اور صدر ٹرمپ اس کی متبادل کوئی امریکی سوغات اپنے ساتھ لائے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کے دفاعی اسلحے اور تین کھرب ڈالر سے زیادہ دوسرے سودے کیے گئے ہیں جو کہ غالباً شہزادوں کی صحت پر اچھے اثرات کے لئے ہوں گے۔ ہماری رائے میں ان سودوں کی وجہ سے ہی پاکستان کو اس طرح نظرانداز کیا گیا ہو گا۔

اب پاکستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ زمانہ بعد از تلور میں کیا حکمت عملی اپنائے کہ برادر عرب ممالک کے لئے پاکستان دوبارہ اہم ہو جائے اور ہماری خارجہ پالیسی دوبارہ فعال ہو جائے۔ ہمارے ذہن میں کچھ طریقے آئے ہیں جن کی مدد سے ہم زمانہ بعد از تلور میں بھی برادر عربوں کو پاکستان کا گرویدہ کر سکتے ہیں۔

پہلے قدم کے طور پر تو تلور کے شکار پر مکمل پابندی لگا دی جائے تاکہ پاکستان کو نظرانداز کرنے والے ایک مرتبہ تو شدید قسم کی خانگی شرمندگی سے دوچار ہو کر پاکستان کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں۔ اس کے بعد کئی طریقے موجود ہیں جو تیر بہدف ثابت ہوں گے۔

ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ عربوں کو سلاجیت سے روشناس کرایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس سے گھٹنوں کے درد کو اس سے کہیں زیادہ آرام ملتا ہے جتنا کہ گرم قسم کی فرنگی دوائیوں از قسم ویاگرا کی وجہ سے ملتا ہے۔ سلاجیت کے سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہوتے کیونکہ آج تک ہم نے تو نہیں سنا کہ حکیمی دوائیوں کے کوئی سائیڈ افیکٹ ہوتے ہوں۔ اس سے پاکستان کے شمالی علاقوں کو بھی عرب شہزادے ویسی ہی ترقی دینے پر مجبور ہو جائیں گے جیسی وہ چاغی کو دے چکے ہیں۔

برادر عرب ممالک سے خارجہ تعلقات میں نئی گرم جوشی لانے کے لئے ان سے تیل کے بدلے تیل کی ڈیل بھی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے فٹ پاتھوں پر موجود گرہ کٹ کے تیل کے تاجروں کا وفد اگر عرب شریف میں بھیجا جائے تو تیل کے بدلے تیل کی تجارت میں ٹریڈ بیلنس ہمارے حق میں ہو سکتا ہے۔ تصور کریں کہ ان کے سو بیرل تیل کے بدلے ہم سو گرام حکیمی تیل کی چھوٹی شیشی اسی قیمت میں بیچ رہے ہوں گے۔ لیکن بہتر ہے کہ تیل کے ان فٹ پاتھی تاجروں کو مترجم فراہم کرنے کی بجائے انہیں عربی سکھا کر اپنی مشہور عالم سیلز پچ ڈائریکٹ عربوں کو دینے پر لگایا جائے۔ چشم تصور سے دیکھیں، بڑے بڑے عرب شہروں میں فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر اس کے اوپر تیل کی شیشیاں رکھیے ہمارا تاجر آواز لگا رہا ہے، عربوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں اور وہ تیل خریدنے کو ایسے ٹوٹے پڑ رہے ہیں جیسے شیرے پر مکھیاں جمگھٹا لگاتی ہیں۔

ان گرہ کٹ کے تیل والوں کے علاوہ ہم 86 سالہ سنیاسی باوا کو بھی باقاعدہ انڈسٹری کی شکل دے کر عربوں کی محبت اور قیمتی زر مبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف لاہور شہر میں ہی کم از کم دس ہزار کے قریب ایسے سنیاسی باوا موجود ہوں گے جو کہ مشرق وسطی میں تلور کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ ویسے تو خدا کے فضل سے ملک بھر میں ان کی تعداد بہت ہے لیکن پھر بھی کچھ کمی محسوس ہو تو بے اولادوں کو اولاد دینے والے پیر صاحبان اور بنگالی جادوگروں کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے۔

مشرق وسطی میں جنس سے متعلق ادویات کی کھربوں روپے کی مارکیٹ ہے۔ ان میں سے بیشتر ادویات جعلی ہوتی ہیں۔ ان جعلی ادویات کی بجائے یہ ساری حکیمی ادویات برادر عرب ممالک کو بیچی جا سکتی ہیں۔ ورنہ اگر وہ جعلی ادویات کی ہی ضد کریں تو پھر بھی ہم ان کی پیداوار میں کسی سے ہیٹے نہیں ہیں اور مشرق وسطی کی تمام ڈیمانڈ پوری کر سکتے ہیں۔

چینی حکیم بھی مشہور ہیں۔ سنا ہے کہ وہ شیر کے بال سے لے کر گدھے کی کھال تک کے ایسے ایسے کشتے بنا لیتے ہیں کہ تلور ان کے آگے تیل بیچتے ہیں۔ سی پیک معاہدے میں اگر چینی حکیموں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پاکستان دوبارہ عرب برادران کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے اور برادر عرب ممالک بھی دل جان سے سی پیک میں شمولیت کے خواہشمند ہو جائیں گے۔

ذرا سمند خیال کو دوڑائیں اور چشم تصور میں یہ منظر تو لائیں۔ پاکستانی سفارت خانے میں باقاعدہ شعبہ صحت قائم ہو اور ادھر ایک کونے میں اگربتیاں لوبان سلگائے پیر صاحب بیٹھے ہوں، دوسرے میں حکیم صاحب اپنے کشتے گھوٹ رہے ہوں، تیسرے کونے میں روپہلی تیل کی بوتلوں میں گرہ کٹ تیر رہے ہوں۔ چوتھے میں کھوپڑی اور ہڈیاں سجائے بنگالی بابا بیٹھے ہوں۔ پانچویں میں ایک حضرات ہاتھ میں پتھر اٹھائے موجود ہوں اور سلاجیت کے خواص بتا رہے ہوں۔ چھٹے میں چینی سند یافتہ حکیم صاحب گدھے کی کھال کی مرگ چھالا پر تشریف فرما ہوں۔ سفارت خانے کی وجہ سے ہر وقت ٹریفک جام رہا کرے گی حضت اور پاکستان مشرق وسطی سے نریندر مودی کا اثر ختم کر کے دوبارہ نمبر ون بن جائے گا۔

بہرحال حاصل کلام یہ ہے کہ زمانہ بعد از تلور کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس عربوں کے لئے تلور کے متبادلات کا جہان آباد ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar