تلور کی غلام خارجہ پالیسی


18 اکتوبر 2015۔

سنتے آئے ہیں کہ امریکہ اور چین سے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر ہیں اور عرب ممالک سے تعلقات کی بنیاد مشترکہ اسلامی تاریخ و اقدار و بھائی چارہ ہے۔

مگر اب پاکستانی دفترِ خارجہ نے تصحیح کی ہے کہ خلیجی ممالک سے تعلقات کا انحصار دراصل تلور نامی پرندے پر ہے۔

دفترِ خارجہ نے یہ تصحیح سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل میں کی ہے جس کے تحت اگست میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ نے پہلی بار وفاقی و صوبائی حکومتوں کو پابند کیا کہ آئندہ کسی کو بھی تلور کے شکار کے پرمٹ جاری نہ کیے جائیں۔

ہر برس 30 سے 40 ہزار سائبیریائی تلور موسمِ سرما پاکستان میں گذارنے آتے ہیں اور پھر عرب شیوخ وزارتِ خارجہ کے خصوصی اجازت ناموں کے ساتھ اپنے لاؤ لشکر سمیت بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں آتے ہیں اور باز کے ذریعے تلور کا شکار کرتے ہیں۔

زندہ تلور خلیجی ممالک میں سمگل بھی ہوتے ہیں تاکہ وہاں نو عمر بازوں کی شکاری تربیت ہو سکے۔

پاکستان میں عام آدمی تلور شکار نہیں کرسکتا کیونکہ اسے مقامی حیاتیاتی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے اور آئی یو سی این اور سائٹس جیسے اداروں کی فہرست میں تلور بقائی خطرے سے دوچار سرخ فہرست میں شامل ہے۔

تاہم پاکستانی وزارتِ خارجہ ہر موسمِ سرما میں عرب شہزادوں کو ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت پرمٹ جاری کرتی ہے جس کے مطابق صرف اتنی تعداد میں تلور شکار کیے جاسکتے ہیں جن سے ان کی افزائشِ نسل خطرے میں نہ پڑے۔

ایک شکار سیشن میں سو سے زائد تلور نہیں مارے جاسکتے۔ شکار صرف باز سے کیا جاسکتا ہے اسلحے سے نہیں اور یہ شکار نیشنل پارکس اور جنگلی حیاتیات کی پناہ گاہوں کی حدود میں نہیں ہوسکتا۔

سب سے زیادہ شکار پارٹیاں بلوچستان میں آتی ہیں۔ تحفظِ جنگلی حیات کے صوبائی قوانین کے تحت پرمٹ کے اجرا سے پہلے علاقے میں تلور کی آبادی کا تخمینہ لگانا ضروری ہے۔

شکار کی نگرانی اور گنتی بھی لازمی ہے لیکن عملاً ان قوانین اور اخلاقی ضوابط کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اور میزبان کس قدر بے بس ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال گذشتہ موسمِ سرما میں چاغی کے فاریسٹ آفیسر جعفر بلوچ کی مرتب کردہ یہ رپورٹ ہے کہ سعودی صوبہ تبوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان اور ان کی شکار پارٹی نے تین ہفتے کے دوران 21 سو سے زائد تلور ہلاک کئےاور یہ علاقہ جنگلی حیاتیات کے لیے محفوظ علاقوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں تلور کے شکار کے اجازت نامے دینے کا چلن ایوب خان کے دور سے شروع ہوا جب ابوظہبی کے حکمران شیخ زید بن سلطان ہر برس سردیوں میں پاکستان آنے لگے۔
جیسے جیسے جزیرہ نما عرب میں اندھا دھند شکار کے سبب تلور نے اترنا ترک کیا تو دیگر خلیجی ریاستوں کے خانوادے بھی پاکستان کا رخ کرنے لگے۔

وزارتِ خارجہ نے سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ تلور کے شکار سے نہ صرف پاکستان کے لیے عرب ممالک کی خیر سگالی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہاں کے حکمران پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔

عملی تصویر یہ ہے کہ اس سرمایہ کاری کے ثمرات عام آدمی تک بہت کم پہنچتے ہیں۔ مثلاً جنوبی پنجاب میں شیوخ نے محلات اور کچھ سڑکیں اور دو تین ائیر پورٹ ، ہسپتال اور مساجد تو بنوائیں مگر وہاں اگر کسی نے فائدہ اٹھایا تو ٹھیکیداروں اور بااثر وڈیروں اور زمینداروں نے۔

ضلع رحیم یار خان جہاں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی زیادہ توجہ رہی وہاں غربت کی شرح کا یہ عالم ہے کہ دس برس پہلے تک کم سن بچے اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات سمگل ہوتے رہے۔

سب سے زیادہ شکار پارٹیاں مغربی بلوچستان بالخصوص چاغی و دالبندین کا رخ کرتی ہیں لیکن آج بھی وہاں کی بیشتر آبادی کو دیگر سہولتیں چھوڑ پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔
جب جزیرہ نما عرب میں تلور ناپید ہوگیا تو سعودی حکومت نے نجد میں السید ریزرو کے نام سے 22 سو مربع کلو میٹر کا علاقہ مختص کیا جس کی خاردار حدود میں کسی بھی اچھے خان کو صحرائی ہرن، شتر مرغ اور ایک ہزار سے زائد تلوروں کی آبادی کے شکار کی اجازت نہیں۔

اگر جذبہِ خیر سگالی میں اتنی طاقت ہے تو ایک بار صدر ممنون حسین، وزیرِ اعظم نواز شریف یا جنرل راحیل شریف بھی السید وائلڈ لائف ریزرو میں تلور کے شکار کے لیے سعودی حکومت سے ایک پرمٹ تو مانگ لیں۔

کہا جاتا ہے تلور کا گوشت قوتِ مردانہ میں اضافہ کرتا ہے۔ مگر بقا کے خطرے سے دوچار پرندے کو خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر قرار دینا کون سی مردانگی ہے؟
کبھی کسی چینی یا ترک کو تلور کا شکار کرتے دیکھا؟ تو پھر ان دونوں ممالک سے پاکستان اتنے اچھے تعلقات کیسے برقرار رکھے ہوئے ہے۔کیا چینیوں اور ترکوں کو مردانہ قوت بڑھانے سے کوئی دلچسپی نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).