عرب امریکی اتحاد اور پاکستان کے اہل مذہب و سیاست کو درپیش نیا چیلنج


13 اپریل کو ”ہم سب“ پر اس خاکسار کی ”جے یو آئی کا صدسالہ اجتماع، تلخ حقائق، کڑوے سوالات“ کے عنوان سے ایک تحریر شائع ہوئی تھی، ضمنی طور پر اس میں دوسری باتیں بھی آئی ہوں گی لیکن بنیادی تھیم سعودی کی قیادت میں فوجی اتحاد کے حمایت کی فیصلے پر تنقید تھی، بدیہی طور پر مذکورہ تحریر اس وقت کچھ دوستوں کے خاطر پر گراں گزری ہوگی، راقم کا گماں اس وقت بھی یہی تھا کہ بین التنظیمی فرقہ واریت کا دائرہ اب بین الریاستی کشمکش کی حد تک پھیلایا جا رہا ہے اور جے یوآئی کی قیادت ایک بار پھر اجتماعی مشاورت کے اہتمام اور معاملے کے منفی مضمرات پر غور کیے بغیر تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر ایک انتہائی دوررس اثرات کا حامل فیصلہ کرکے اس کشمکش کا حصہ بن رہی ہے، جس میں خواص کی بات تو الگ ہے مگر ماضی کی طرح عام کارکن ہی ایک بار پھر ایندھن بنیں گے۔ سعودی عرب تو وہی سعودی عرب ہے جس کے بارے میں اپریل 2001 کو پشاور میں جے یو آئی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ”ڈیڑھ صد سالہ خدمات دارالعلوم دیوبند کانفرنس“ میں مرحوم مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ کی زبانی پیش ہونے والی سات قراردادوں میں سے ایک یہ تھی کہ ”یہ اجلاس سعودی عرب کے بھائیوں اور حکمرانوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ ظلم کی علامت امریکی و مغربی افواج کو فی الفور جزیرہ عرب سے نکال دیں“۔ کیا اب مولانا فضل الرحمن صاحب اپنے کارکنوں کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ کیا اس قرارداد پر عملدرآمد ہو چکا یا ایسا ہونا ابھی تک باقی ہے، ہم بدلیں کہ تم بدلے کہ خوئے جہاں بدلی۔

اور پھر حالیہ اتحاد کے اہداف ومقاصد، اس کے سٹیک ہولڈرز، اس کا مینڈیٹ، اتحاد کا دائرہ کار اور طریقہ کار سمیت بہت سے اہم امور ابھی تک پردہ ابہام میں تھے تاہم مولانا فضل الرحمن اس سے تقریبا ایک ماہ پہلے بحرین کے سرکاری ٹی وی کو عربی زبان میں انٹریو دیتے ہویے یہ رائے قائم کرچکے تھے کہ یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف تشکیل دیا جا رہا ہے گو کہ یہ بات بھی تشنہ وضاحت تھی کہ اگر مذکورہ اتحاد واقعی بھی دہشت گردی کے خلاف بن رہاہو تب بھی اس اتحاد کے فارمولے کے مطابق دہشت گردی کی تعریف کیا ہوگی اور خطے کی موجودہ صورتحال میں کہاں کہاں اس کا اطلاق درست اور کہاں غلط ہوگا۔

ان کے علاوہ جناب سلیم صافی نے بھی اپنے 28 مارچ کے کالم ”جنرل راحیل شریف اور عرب اتحاد“ میں لکھا تھا کہ ”کالم کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ جنرل راحیل شریف کا یہ فیصلہ شاید ان کی ذات کے لیے اچھا ثابت نہ ہو اور ان کی نیک نامی پر مزید حرف آئے لیکن پاکستان کے لیے یہ انتہائی مفید ہے اس فیصلے میں ایران کے لیے بھی کوئی خطرہ نہیں بلکہ اسے بھی فائدہ ہوگا زندگی رہی تو اگلے کسی کالم میں اپنی اس رائے پر دلائل دینے کی کوشش کروں گا آج اتناہی کافی ہے“۔ 27 اپریل کو روزنامہ جنگ میں ن لیگ کے ایم این اے رمیش کمار نے بھی اس اسلامی عسکری اتحاد کے فضائل پر مشتمل مضمون لکھا تھا جس کے حوالے سے 27 اپریل کو ہی راقم نے اپنے فیس بک وال پر یہ عرض کیا کہ ہمیں اس موضوع پر سلیم صافی صاحب کے اس کالم کا انتظار ہے جس کا انہوں نے ایک ماہ پہلے وعدہ کررکھا ہے اور ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اس فتنے سے خیر کے کون سے پہلو برآمد کرتے ہیں۔

قومی سطح کے اخبارات میں صرف جناب حامد میر کا سنجیدگی کے ساتھ اس حوالے سے دعوت فکر پر مبنی کالم نظر سے گزرا۔ 18 مئی کو انہوں نے ”نیا جال لائے پرانے شکاری“ کے عنوان سے لکھا تھا کہ مجھے ایک ایسے المیے کا خدشہ نظر آرہاہے جسے پارلیمنٹ نے روکنے کی کوشش کی لیکن منتخب حکومت اور طاقتور ریاستی ادارے پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے۔ جبکہ سیاستدانوں میں سے سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے جے یوآئی کے صد سالہ اجتماع سے اپنے خطاب میں ایک بار پھر امریکی سامراج کی کاسہ لیسی اور اس کی حمایت میں کھڑا ہونے کے خطرناک نتائج سامنے آنے کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلائے جس میں تمام مکاتب فکر کی سیاسی جماعتیں اور قائدین موجود ہوں اور وہاں اس مسئلہ پر سوچ بچار کی جائے اور وہ راستہ اختیار کیاجائے جو پاکستان کے لئے اور پاکستان کے عوام اور پاکستان کی سالمیت کے لئے سب سے بہتر راستہ ہو۔ جناب عمران خان بھی دبے لفظوں میں اس حوالے سے پارلیمنٹ کا ذکر کردیتے ہیں اور پھر پراسرار طور پر خاموش ہوجاتے ہیں

ریاض سمٹ کے بعد اس نام نہاد اسلامی اتحاد کے یہ خد و خال کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ یہ دراصل عرب امریکن اتحاد ہے جس کے ذریعے اسلحہ کی خریداری کے مد میں پہلے ہی قدم پر امریکہ کے ”ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس“ کی معیشت کو 110 ارب ڈالر کا طاقت کا ٹیکہ لگوا دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ”مسلمانوں“ کے اصل دشمن کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی جاری کردی کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکہ پر انحصار نہ کریں ( یعنی خود ہی آ گے بڑھ کر دست و گریبان ہو جائیں ) جبکہ سعودی بادشاہ نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ ڈیڑھ ارب مسلمان امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

درحقیقت خطے میں جاری موجودہ کھینچا تانی کی اصل وجہ بھی وہی ہے جو آج تک تمام انسانی جنگوں کا بنیادی محرک رہی ہے یعنی سیاسی بالادستی، جغرافیائی توسیع پسندی اور معاشی امکانات پر زیادہ سے زیادہ اجارہ داری، مسئلہ مگر یہ ہے کہ ظاہری شکل ایک بار پھر مذہب کی استعمال ہو رہی ہے۔ تقسیم کی لکیر لبیک یا حسین اور لبیک یا حرمین کے بنیاد پر کھینچی جارہی ہے۔ لیکن اس معاملے کو عوام کے سامنے مرحوم جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی طرز پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل ضیاء نے جس صدارتی ریفرنڈم کا انعقاد کیا تھا اس میں لوگوں کے سامنے بیلٹ پیپر میں یہ سوال رکھا گیا تھا کہ کیا آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ جواب میں ہاں کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ ضیاء الحق کے صدارت کی حق میں ووٹ دے رہے ہیں اور نہیں کا معنی یہ تھا کہ آپ ملک میں اسلامی نظام نہیں چاہتے۔ سعودی عرب کے فوجی اتحاد کا کیس بھی کچھ یوں ہی ہے کہ اگر آپ حرمین الشریفین کا تحفظ چاہتے ہیں تو آپ کو اس اتحاد اور اس ضمن میں ہونے والے ہر اقدام کی حمایت کرنی ہوگی اور اگر آپ اس فوجی اتحاد کے خلاف ہیں تو پھر گویا آپ کو حرمین الشریفین کی تحفظ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ دوسرا حربہ یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر آپ سعودی شاہی خاندان کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا آپ ایران کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزایم کی خاموش حمایت کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے سنی شیعہ مسئلہ ہے ہی نہیں، ایران پر مسلط طبقے اور سعودی پر حاکم خاندان، دونوں سے امت اور انسانیت کے بارے میں خیر کی کوئی توقع رکھنا یا تو خود فریبی ہے یا خود فروشی۔

اب جب بلی تھیلی سے باہر آ ہی گئی ہے تو پاکستان اور خصوصاً یہاں کی مذہبی قیادت کو اپنی پہلے سے قائم کردہ رائے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ریاض کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان کی بے توقیری سے زیادہ اہم اس اتحاد کا سامنے آنے والا ایجنڈا ہے۔ اگر فرقوں کو دست و گریباں کرنا ہو تو ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان ایک کثیر المسلکی ملک ہے اور اگر ملکوں پر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کرنا ہو تو پھر اس پر اتحاد میں شامل ہر دوسرے ملک سے زیادہ پاکستان کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایران کے ہمسائے کی حیثیت سے پاکستان کا کردار کیا ہوگا اور عرب امریکی اتحاد کے رکن اور اس فوجی اتحاد کی سپہ سالاری کے پہلو سے پاکستان سے کیا تقاضا کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ 28 مارچ کو اس اتحاد کی ثمرات پر کالم لکھنے کا وعدہ کرنے والے سلیم صافی کو بھی ریاض کانفرنس میں شرکت کے بعد 24 مئی کو اپنے کالم میں یہ لکھنا پڑا کہ ”حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ دیکھ اور سن کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی بلکہ کچھ حوالوں سے تشویش مزید بڑھ گئی ہے“۔

اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب یہی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے، حکومت، منتخب پارلیمنٹ، سیاسی اور خصوصاً مذہبی جماعتیں، اہل دانش اور اصحاب قلم و مکالمہ وسیع تر مشاورت کا اہتمام کریں اور اس حوالے سے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی سپورٹ اور تائید بہرحال چاہیے خواہ اس کے لیے ماضی کی طرح جمہوریت کی بساط ہی کیوں نہ لپیٹنی پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).