مثبت سماجی میل جول کی ضرورت


اب سے کوئی آٹھ برس پہلے میری نانی کا انتقال ہوا اور تحریری ریکارڈ کے مطابق انہوں نے پورے سو برس کی عمر پائی، مگر وہ تو کوئی مراہ العروس کی اصغری کے جیسا ایک کردار تھیں۔ پڑھنا لکھنا، کھانا پکانا، اچار، چٹنیاں، مربہ جات، سلائی کڑھائی، سوئیٹر کی بنائی، کروشیہ غرض یہ کہ کون سی مہارت تھی جو انہیں حاصل نہ تھی۔ میں نےانہیں شدید بڑھاپے میں بھی کبھی وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ بینائی بھی جب جاتی رہی تو اندازے سے سوئیٹر بنتی رہیں۔ امی بتاتی ہیں کہ امی کے بہت بچپن میں شام کو ارد گرد سے بہت سی بچیاں اور خواتین ان کے گھر اکٹھی ہو جاتیں تاکہ کچھ کام کی باتیں نانی سے سیکھ سکیں۔ ہر کوئی اپنے شوق اور مہارت کے مطابق اپنی اپنی مرضی کا کام ان کی زیر نگرانی کرتا اور مل بیٹھ کر بس فورا کام ختم ہو جاتا۔ نانی کے پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے خواتین ان کی دانش پر بھروسہ بھی کرتی تھیں اور ان سے مشورہ بھی لیتی تھیں۔ مجھے وہ خوابناک ماحول باندھنا تو نہیں آتا مگر نانی کے ذکر پر ہمیشہ اصغری کا کردار ہی میرے ذہن میں آتا ہے اور مجھے ان کی تمام خوبیاں بہت ہی متاثر کن لگتی ہیں۔

اب ہمارے ہاں محلوں اور برادری کا رواج تو ختم ہو گیا۔ خواتین بیاہ کر دوسرے شہر چلی جائیں تو دوست بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ لوگ بغیر مطلب کے زیادہ ملنا بھی نہیں چاہتے اور اگر کوئی ہنر آتا بھی ہو تو اسے بانٹنے کا بھی کوئی رواج نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کبھی کبھار ایک بھاری فیس کے عوض کوئی ورکشاپ منعقد ہوجاتی ہے جہاں ایک جیسے شوق والے لوگ اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ یا پھر کچھ مشکل ممبرشپ والے کلب، جہاں زیادہ تر دوسروں کو متاثر کرنے اور کسی حد تک میل جول کی غرض سے جمع ہو لیا جاتا ہے۔ زیادہ تر گھروں میں مذہبی محافل منعقد ہو جاتی ہیں مگر ان میں بھی نظریات کا پرچار زیادہ ہوتا ہے۔

میری آن لائن مغربی سہیلیاں بتاتی ہیں کہ وہاں ایک تو ہر خاتون کوئی نہ کوئی مشغلہ رکھتی ہے اور پھر ایک مشغلہ رکھنے والی خواتین اکثر اکٹھا بھی ہوتی ہیں۔ کبھی کپڑے کے ٹکڑے جوڑ کر ایک‌ خاص مہارت سے رضائی بنا لی، تو کبھی مل کر بچوں کے کپڑوں پر برش سے پینٹ کر لیا۔ تصویر بنانے کے شوقین خواتین بھی ایک مقام پر جمع ہو کر پینٹنگ کر لیتی ہیں۔ ہمارے ہیں مثبت مشاغل اور سرگرمیوں کے لئے، خصوصا خواتین کے اکٹھا ہونے کا رواج بہت کم ہے۔ اب بڑے شہروں میں کسی حد تک کچھ آرٹ اور کرافٹ یا کتب بینی کے مشغلے سے وابستہ خواتین جمع ہو تو جاتی ہیں مگر بہت ہی کم۔ میری نظر سے تو زیادہ تر خواتین ایسی ہی گزری ہیں جو بس گپ شپ کے لئے اکٹھا ہوتی ہیں۔ زیادہ ہوا تو مل کر چائے پی لی اور غیر موجود خواتین کی برائی اور محفل میں موجود خواتین سے ان کی زندگی کے بارے میں کرید کر لی۔ ہمارے ہاں مثبت باتوں کے لئے اکٹھے ہوا ہی نہیں جاتا اور سپورٹ گروپ تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سپورٹ گروپ ایک ایسے لوگوں کا گروہ ہے جو ایک ہی طرح کے حالات اور مشکلات سے گزر رہے ہوں۔ وہ بغیر کسی لالچ کے بس اکٹھے ہو کر اپنے اپنے تجربات ایک دوسرے سے بانٹ لیتے ہیں اس طرح کہہ اور سن لینے سے بہت سی مشکلات میں آسانی آ جاتی ہے۔ یہ سپورٹ گروپ کسی بھی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو سگریٹ نوشی ترک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا وہ خواتین جو حاملہ ہیں، وہ لوگ جو ایک خاص ذہنی مرض کا شکار ہیں یا وہ لوگ جن کے بچے ایک خاص ذہنی بیماری رکھتے ہیں، بس کسی بھی خاص حالات سے گزرنے والے لوگ اکٹھے ہو کر ایک سپورٹ گروپ تشکیل دے لیتے ہیں۔ ہفتہ دو ہفتہ بعد ملاقات کا ایک دن مقرر کر لیا اور مل بیٹھ کر مسائل پر بات چیت کر لی۔ البتہ ان گروپس کا مقصد مدد ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کی جانچ، دل آزاری اور کرید۔
اب سوشل میڈیا پر کچھ ایسے گروپ میرے علم میں آئے، بین الاقوامی تو بہت سے ہیں مگر پاکستان میں بھی اب کچھ بنے ہیں جیسے واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک گروپ پاکستانی سنگل والدین کا ہے۔ مگر پھر بھی ایسے گروپس تک رسائی اور پہنچ کے طریقے عام نہیں اور ایسے لوگ ہر شہر میں اکٹھا ہوتے بھی نہیں۔ ان گروپوں کا فائدہ یہ ہے کہ جب آپ ایک خاص نوعیت کے مسئلے سے گزر رہے ہوں تو دوسرے لوگ آپ کی بات سمجھ نہیں پاتے، مگر ایک ہی تجربے سے گزرے ہوئے لوگ وہ باتیں آرام سے سمجھ لیتے ہیں۔

جو لوگ مغربیت پسندی اور مغربی مثالوں سے بے زار نظر آتے ہیں وہ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ہی مثبت نوعیت کی سماجی محفلیں بہت عام تھیں۔ اب چند ادبی یا ایک آدھ اور شعبے سے ہٹ کر کوئی محافل منعقد نہیں ہوتیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کی ہم دوسرے لوگوں کی کرید اور جانچ کرنا چھوڑیں تاکہ سب لوگ اپنے مسائل اور مشکلات کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں۔ اس طرح ہی ایک نوعیت کے مسائل سے دوچار لوگوں کو ایک دوسے کے قریب آنے میں مدد کریں تاکہ وہ ایک دوسرے سے مل کر کچھ نکتے بانٹ سکیں اور ایک دوسرے کو جذباتی سہارا دے سکیں۔

اس کے علاوہ ہم سب لوگوں کو بہت سے متروک کردہ مثبت مشاغل کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہم کسی صحت مند سرگرمی کی وجہ سے بھی اکٹھے ہو سکیں۔ یقین مانیے کہ برائیاں اور کرید کرنا اور دوسروں کو دکھ دینا بہت ہی زیادہ آسان کام ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim