پاکستان کو پاکستان سے خطرہ ہے


دور نہ جائیے بارہویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب کا جملہ کہ پاکستان کا سوویت یونین کی بجائے امریکی بلاک کا حصہ بننے کا فیصلہ غلط تھا یا درست؟ ہم اگلی بات کرتے ہیں۔ سیٹو ہو یا سینٹو۔ بغداد پیکٹ سے سارک تک۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر لکھی تمام اندرونی و بیرونی کتب کا مطالعہ کیا جائے یا موجودہ صورتحال،عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس۔ اسلامی امریکی کانفرنس میں پاکستانی خارجہ پالیسی کی شرکت تک۔ کمزوری یا مجبوری سمجھیے تا حال پاکستان بدقسمتی سے عالمی فورم پر مضبوط آزادانہ موقف پیش نہیں کر پایا ہے۔ حقے کا کش لگاتے چھڑی سے زمین پر پاکستانی جغرافیہ کے بڑے بڑے خط کھینچتے ہوئے اللہ ڈیوائے چاچا بولے جا رہے تھے۔

ہم چند دوست چاچا سے ملے۔ کچھ کو بان سے بنی چار پائی پر سرہانے جگہ دی، ایک کو پائنتی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں سامنے رکھے بوسیدہ تیلیوں سے بنے موڑھے پر بیٹھ لیا۔ یوں گھر کی خارجہ پالیسی سے عالمی ممالک کی خارجہ پالیسی پر دیسی تجزیہ شروع ہوا۔

چاچا ڈیوایہ بولے۔ خارجہ پالیسی دوست دشمن کی پہچان، اپنے اور غیر کے تعلقات کی نوعیت سے بنتی ہے۔ جس کی آپ سے زیادہ آپ کے گھر آنے والوں کو ضرورت ہوتی ہے آپ کی ضرورت اتنی، جتنا آپ کا دوسروں کی طرف تجاوز یا تعلقات یا ایک دوسرے سے معاملات چاہنا ہے۔

بیٹا اچھا پڑوسی قسمت کے ھاتھ میں ہے۔ برے پڑوسی آپ کی حکمت (پالیسی) کے ھاتھ میں ہے کہ اچھے کے ساتھ کیسے چلنا۔ برے سے کیسے گھر بچانا ہے۔ پڑوسی شرپسند تو دوستوں کا سہارا رہتا ہے۔ دوست مفاد پرست تو دانائی ہے کہ پڑوس سے مناسب تعلقات بحال رکھے جائیں۔ سمجھدار لوگ چار یواری سے زیادہ بہترین پڑوس سے محفوظ ہوتے ہیں۔ آہ بھرتے گویا ہوئے۔ پڑوسی انتظار میں ہو اللہ ڈیوایہ کا گھر خالی ہو کہ لوٹ مچا دیں۔ دوست اس لیے راہ رسم رکھیں کہ ڈیوایہ کے گھر کا کھانا لذیذ۔ ڈیوایہ کے بیل ہمارے میلے پر ناچیں گے۔ ڈیوایہ کا کتا ہم پر نہیں، ہمارے دشمن پر بھونکے۔ ڈیوایہ کی مرغیاں ہماری خواہش پر ذبح ہوتی رہیں ۔

 پترو! پہلے دن سے گھرکی خارجہ پالیسی کمزور نہیں، مجبور ہے۔

چاچا ڈیوایہ ٹھنڈے حقہ کا ادھ منہ کش لیتے بولے۔

خارجہ پالیسی کمزور تب ہوتی ہے جب گھر کا ہر فرد مفاد کی دنیا آباد۔ گھر کی ساخت اور معاملات سے الگ برے پڑوسی سے ذاتی معاملات طے کر لے۔ مطلب پرست دوست کی چال سمجھتے ہوئے تعلق کو حد سے بڑھاوا دے بیٹھے۔ جذباتی تعلق داریاں قائم۔ گھر کے امور کی نسبت دوسروں کے معاملات پر توجہ ہو۔ گھر کے افراد بیرونی تعلقات کی بنیاد پر تقسیم۔ ہر فرد گز گز کا مالک ہونے لگے۔ سربراہ جانب دارانہ چشم پوشی سے کام لے۔ ایسے گھر میں اپنوں کی شکل میں پرائے آباد ہوجاتے ہیں۔ ایسے گھر کی خارجہ پالیسی مجبوری ہی نہیں، کمزور ی بھی ظاہر کرتی ہے

بیٹے! خارجہ پالیسی میں داخلی پالیسی کا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے۔ داخلی پالیسی مضبوط و پرامن اور خوشحال ہو تو خارجہ پالیسی کے اعصاب اتنا ہی دم دار ہوتے ہیں۔ پر سکون ذہن ہی پر امن مضبوط دفاعی پالیسی اپناتا ہے۔ چاچا ڈیوایہ کی آنکھوں میں سبز کھیت کھلیان کے عکس کے بیچ درد کی نہر بہہ نکلی۔ کہا پاکستان کا یہی مسئلہ ہے ا س کی خارجہ پالیسی کمزور بھی ہے مجبور بھی ہے۔ اس کے شاطر پڑوسی لوٹنے کو گھر کے اندر بھیدی پیدا کر چکے۔ دوست مفاد پرست جن کو پاکستان کے بیل میلے پر نچانے۔ کتے اپنے دشمن پر بھونکانے کو چاہییں۔ داخلی تقسیم در تقسیم کی کمزوری خارجہ گیدڑوں کو ھاتھی بنا چکی۔ اب مجبورخارجہ پالیسی کے سوا کچھ نہیں۔

چاچا ٹیک چھوڑ کربولے۔ ابھی تازہ صورتحال دیکھیے ! ہم بحث کر رہے ہیں سعودیہ کو خطرہ۔ کچھ کا کہنا ایران سے دشمنی کی جا رہی ہے۔ کس کو کس سے خطرہ کون کس کا دشمن! چھوڑیے۔ گھر کے ا فراد جذباتی وابستگیوں کی لہر میں آپس کے دشمن بن گئے لیکن وہ انہیں دوست نہیں مانتے۔ یہاں مفاد کی اپنے مفاد مخالف سے جنگ ہے۔ عالمی سیاست مفادات کی میٹھی کھیر جس کو پکاتا کوئی اور کھاتا کوئی ہے۔ ایندھن پاکستانی بنتے ہیں۔ کہا، شاہ نے گدا کو بلایا دربار میں۔ بھری محفل کے سامنے بطور مہمان بولنے کا موقع نہ دینا۔ ستر ہزار جنازے اٹھانے والے آزاد پاکستان کا تذکرہ تک نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کی حیثیت۔ داخلی کمزوری کے راز افشا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالانکہ یہ قربانیا ں کانفرنس کے میزبان اس کے مہمان کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان نے دیں۔ تا حال دیے جا رہا ہے۔ ادھر جلنے،والے آگ لگانے والوں کوذمہ دار ٹھہرانے سے قاصر۔ جذباتی وابستگیاں تراشتے یہ سادہ لوح بھیدی، جانب دار ضد میں۔ داخلی کمزوری کا سبب بننے کے سوا کیا دے پائیں گے۔ اس پر چاچا اللہ ڈیوایہ نے فرمایا۔ خطرہ سعودیہ کو ہے نہ ایران کو۔ خطرہ ہے پاکستان سے پاکستان کو۔

اسلامی امریکی کانفرنس میں شاہان حرمین اور امریکہ کے پاکستان کے ساتھ رویے پر بولے! اطمینان رکھو۔ پہلی بار کمزور ملک نے ھاتھی سے ٹاکرا لینے کا اشارہ کیا۔ دم کی طرف کھڑے ہو کر سر دبوچنے کی جلدی حکمت کے خلاف ہوتی ہے۔ ابھی تو اسکے پاوں کاٹنے ہیں۔ دوسری طرف اپنے مفاد پرست دوستو ں کے اکھاڑے کے لیے بیل۔ کتے نہ بھیجنے کا واضح موقف اپنا کر اپنی ساخت، شناخت کی لاج رکھتے ہوئے پر امن باہمی برابری کے تعلقات کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ امریکہ بزنس مین ہے اسلامی ملک میں اسلام یعنی امن و سلامتی کے نام پر جنگی سامان بیچا و خریدا گیا۔ اسے مال بیچنے کے لیے کل آپ کی جگہ منڈی لگانا درکار تھی آج کسی اور جگہ منڈی لگا کر سینکڑوں ارب ڈالرز کی پروڈکٹس سیل کر گیا۔ عرب شاہوں نے خارجی دشمن کے خلاف اقدام سے زیادہ داخلی کمزوری کا اسلحہ مہنگے داموں خرید کر عجموں کے آگے لٹتی عزت ٹرمپ کے سہارے بچا لی۔ چنداں پاکستانی تلور۔ پاکستانی عزت۔ اور پاکستان بھی محفوظ ہو جائے گا۔ مفاد کی تقسیم ہے ازل سے۔ دوست بھی، دشمن بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).