اہل سعود کی روایات اور طاقتور کی دنیا


ڈونلڈ ٹرمپ ایک مشکل انسان ہے۔ اس نے جس طرح امریکا بلکہ دنیا کا سب سے طاقتورعہدہ حاصل کیا، اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ٹرمپ ایک سترسالہ انسان ہے جوحقائق کوحالات کے مطابق ڈھالنے کی اہمیت سے واقف ہے۔ سعودی عرب اورمسلمانوں کے متعلق اس کے منفی خیالات سے ہرکوئی واقف ہے۔ مگریہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ امریکی صدراتنی تیزی سے عملیت پسندی کی جانب گامزن ہوگا۔ مقصد صرف ایک، بس امریکا کی ترقی۔ سعودی عرب کے حالیہ دورے کے متعلق بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اورجاتا رہے گا۔ مگراس دورہ سے سعودی عرب کے شاہی خاندان کی فکری کمزوری کھل کر سامنے آ گئی ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ ایران نے ہرجگہ اپنے حامی گروہوں اور ملکوں کومسلح کیا ہے اورجنگ کے لیے آمادہ بھی۔ مگریہ کام توسعودی عرب اور دیگر ممالک عرصہ درازسے کرتے چلے آرہے ہیں۔ مسلم دنیا میں ہرطرف سعودی عرب اورایران کی پراکسی وار جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس اَن گنت جواز ہیں مگرحقیقت میں کوئی جواز نہیں۔ عسکری اعتبارسے سعودی عرب اورایران دونوں طاقتورممالک میں نہیں آتے۔ گلوبل فائر پاور انڈکس اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔

یہ انڈکس دنیا کے تمام ممالک کی فوجی، فضائی اوربحری قوت کا تجزیہ کرتا ہے اوراس کے بعد ایک فہرست کے طور پرشایع کر دیتا ہے۔ ایران اس میں بیسویں نمبرپر ہے۔ سعودی عرب چوبیس نمبر پر موجود ہے۔ یعنی دونوں متحارب ملک تقریباً ایک جیسے ہیں۔ دلیل کی بنیاد پردیکھیں تودونوں ممالک کسی بھی فریق کو بھرپور نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے کمال سمجھداری سے تمام اسلامی دنیا کے سامنے ایران کو ایک دشمن بنا کر پیش کیا ہے۔ اس کوشش سے امریکا کوچار سو ارب ڈالر کے جنگی ہتھیار بیچنے کا موقع ملا ہے۔

بتایا گیا تھا کہ سعودی بادشاہ کبھی کسی غیرملکی حکمران کو بذات خود ائیرپورٹ پرخوش آمدید نہیں کہتا۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ میں یہ روایت بھی ٹوٹ گئی ۔ بادشاہ خود صدرکو لینے ان کے جہاز تک گئے۔ اس سے صرف ایک بات سامنے آئی کہ امریکی صدرکوئی بھی ہو، بہرحال وہ معززترین حاکم سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اہمیت مصر کے صدرسیسی یا اردن کے بادشاہ کے نصیب میں نہیں آئی۔

اب، توجہ دوسری طرف لے جائیے۔ سعودی عرب مسلم دنیا میں ایک سخت گیر معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے۔ سعودی معاشرہ میں خواتین کی آزادی ایسی نہیں جیسی پاکستان یا مصر میں ہے۔ سیاست، فیصلہ سازی اورحکومت میں سعودی خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے لباس کے متعلق ایک ضابطہ اورقانون موجودہے ۔ ٹرمپ اوراس کی فیملی نے کئی روایتوں کو توڑا ہے ۔ فسٹ لیڈی ملینا ٹرمپ نے وہی لباس پہنا جو امریکا میں پہنتی ہے۔ امریکی طرز کی اسکرٹ اوراس کے ساتھ ساتھ مغربی روایت کے مطابق برہنہ سر۔ اس نے کوئی اسکارف نہیں پہنا۔ اس سے بادشاہ نے بالکل اسی طرز سے ہاتھ ملایا جس طرح صدرسے ملایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی خاتون اول کو ایسا استثنا کیوں؟ بس اتنا کہوں گا کہ یہ طاقتوروں کی دنیا ہے۔

اب اس رویے کی طرف بھی توجہ فرمائیے جو میڈیا کے مطابق پاکستان کے ساتھ روا رکھا گیا۔ اس پر بعض حضرات جذباتی بھی ہوئے۔ سچ کیاہے اس کے لیے ہمیں ٹھنڈے دل ودما غ سے سوچنا ہو گا۔ دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں پاکستانیوں کی بحیثیت قوم احترام ہو۔ بہت تلخ بات ہے۔ مگرگزشتہ تیس سے چالیس برسوں میں قومی وقارکی حد پاکستانی ائیرپورٹ پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ دنیا کے متعدد ملک دیکھ چکا ہوں۔ تقریباً ہر براعظم میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔

ایک ملک یا ایک بھی غیرملکی ائیرپورٹ نہیں دیکھا،جہاں پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت ہو۔ آپ مغربی ممالک کو تو جانے دیجیے۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کیا قدرومنزلت ہے۔ اندازہ ایک منٹ میں کسی بھی پاکستانی کی رام کہانی سن کر ہوجاتا ہے۔ جب سعودی عرب میں ہمیں کوئی اہمیت حاصل نہیں تو صاحب، سرکاری وفد کی ناقدری کا کیسا گلہ۔ عرض کروں گا کہ نوازشریف کا تو پھر بھی ذاتی احترام اورعزت ہے۔ کبھی کسی سے پوچھیے کہ زرداری صاحب اور بینظیر سے ان کا کیسا رویہ تھا۔ میں ان دانشوروں سے اتفاق نہیں کرتا جو بتا رہے ہیں کہ ہماری بے عزتی کی گئی ہے۔

صاحب،آپ کی عزت ہوئی کب تھی کہ آپ اس سلوک کا رونا روئیں۔ طالبعلم، وزیراعظم کی تقریرنہ کرنے کوبھی متنازع نہیں سمجھتا کیونکہ یہ اختیار صرف اورصرف ہوسٹ(Host) ملک کا ہوتا ہے کہ وہ کسی سے تقریر کرائے یا نہ کرائے۔ وہاں مسلمان ممالک کے تمام جمہوری اورغیرجمہوری فرمانروا موجود تھے۔ سعودی حکومت ہرایک سے تقریرنہیں کراسکتی تھی۔ یہ اختیارہماری حکومت کا نہیں ہے کہ ہم زبردستی تقریرکریں۔ لہذا،ہم ہرسفارتی عمل کوبھی متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ادھر سوشل میڈیا پرسعودی تحفوں کی ایک غیرمصدقہ فہرست گردش میں ہے۔ جس کی کوئی تصدیق نہیں کرتا۔ اس میں ہیرے جواہرات،سونے کی تلوار، دنیا کی سب سے قیمتی کشتی کا ذکر ہو رہا ہے۔ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ تمام تحفے ڈونلڈٹرمپ کوذاتی حیثیت میں دیے گئے ہیں مگر بھائی امریکی قانون اس درجہ موثرہے کہ ٹرمپ کسی کو تحفے کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فہرست مکمل طورپرغیرتصدیق شدہ ہے۔

امریکی صدرکے سعودی دورے سے امریکا کو اقتصادی طورپر بے انتہا فائدہ ہوا۔ سعودی شاہی خاندان کو بھی فائدہ ہوا کہ سابقہ صدربارک اوباما کے دور کے سرد تعلقات یکدم بہت اچھے اورقریبی نظرآنے لگے۔ اصل حقیقت کیا ہے۔ اقتدار کی شطرنج پر کس مہرے سے کب اورکونسا کام لیا جانا ہے، اس پرکچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔ مگرایک عنصرکھل کرسامنے آ گیا ہے۔ دنیا میں اصل جوہر طاقت اورقوت کا ہے۔ لیکن کمزورفریق ہمیشہ گلہ ہی کرتے نظرآتے ہیں۔ اس لیے کہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مگر صاحب، کیسا گلہ اورکس سے گلہ۔ کمزور قوموں کی بات کون سنتا ہے۔ یہ دنیا صرف اورصرف طاقتور کی ہے۔

(بشکریہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).