مولانا فضل الرحمان، لدھیانوی، شیرانی اور سراج الحق صاحبان کیا سوچ رہے ہیں


مولانا لدھیانوی کہتے ہیں کہ سات محرم تھا جب مجھے شہباز شریف نے بلایا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ جھنگ کیسا ہے تو میں نے انہیں کہا کہ امن ہے۔ آپ دیکھ لیں آج کیا تاریخ ہے میں امام بارگاہوں کے سامنے سے گزر کے آیا ہوں۔ یہ بتا کر مولانا کھو سے گئے اور کہنے لگے یہ وہ جھنگ تھا جہاں راکٹ چلتے تھے گاڑیاں اڑائی جاتی تھیں۔ مولانا نے کہا کہ ہم نے جانا کہ انسانوں کے ساتھ معاملات میں فرقہ واریت نہیں ہو سکتی۔ بنیادی انسانی ضرورتیں سب کی ایک جیسی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک محلے کو گیس دیں یا وہاں بجلی آئے اور اس میں سات گھر اس لیے چھوڑ دیے جائیں کہ ان کا فرقہ مختلف ہے۔

مولانا نے کہا کہ ان کافر کافر کے نعروں نے ہمیں بڑا برباد کیا ہے۔ یہ نعرہ نہیں لگنا چاہیے تھا۔ مولانا سے پوچھا کہ مولانا یہ آپ کو کب پتہ لگا کہ غلط ہے۔ کیا تب بھی آپ اس کو غلط سمجھتے تھے جب مولانا حق نواز جھنگوی، ایثار الحق قاسمی اور ضیا الرحمن فاروقی صاحبان زندہ تھے۔ مولانا نے کہا یہ ہمیں وقت نے سکھایا ہے کہ ایسا کرنا غلط تھا۔
ہم سب کے ساتھ ہوئی مولانا لدھیانوی کی بات چیت کا یہ کچھ حصہ ہے۔

سراج الحق کہتے ہیں کہ ہمیں ان سب ملکوں کی سرحدوں کا احترام کرنا ہو گا جو ہماری سرحدوں کا احترام کرتے ہیں۔ چینی مسلمانوں کو اپنے مسائل کا حل چین کے اندر تلاش کرنا ہو گا۔ اگر وہ بندوق اٹھائیں گے تو سب سے زیادہ نقصان بھی وہ خود ہی اٹھائیں گے۔ امیر جماعت اب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تمام افغانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہو گا۔ سب کے ساتھ ایک ہی قسم کا برادرانہ اور دوستانہ رویہ رکھنا ہو گا۔ امیر جماعت کا یہ کہنا بہت اہم ہے کہ کبھی جماعت اسلامی نے افغان جہاد میں سرگرم حصہ لیا تھا۔ آج امیر جماعت افغانستان میں امن بھائی چارے کی بات کر رہے ہیں۔

سراج الحق بہت واضح ہیں کہ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جماعت کی عالمی سرگرمیوں دلچسپیوں کو محدود کیا جائے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کے اندر فوکس کیا جائے۔ امیر جماعت کا ماننا ہے کہ جماعت تب ہی موثر ہو سکے گی جب اندرون ملک اپنا اثر بڑھائے گی۔ اسی طرح پاکستان تب ہی اپنا کوئی عالمی کردار ادا کر سکتا ہے جب معاشی طور پر تگڑا ہو گا سیاسی طور پر مستحکم ہو گا۔ ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ نئے امیر جماعت اس حوالے سے بڑا واضح پروگرام رکھتے ہیں۔ جلد ہی پاکستان میں سیاسی قوتوں کو جماعت اسلامی کے حوالے سے بڑا سرپرائز بھی مل سکتا ہے۔

سراج الحق خواتین کے لیے جائیداد میں وراثتی حصہ کو لازمی قرار دینے کے لیے یکسو ہیں۔ اگر اس حوالے سے وہ اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے اور قانون سازی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے دکھائی دیے تو جماعت کے سیاسی اثر میں اضافہ ہوگا۔

مولانا شیرانی پاکستان کے ایسے مذہبی راہنما ہیں جنہیں میڈیا متنازعہ معاملات میں ہیں موضوع بحث بناتا ہے۔ مولانا شیرانی کا موجودہ دور کے حوالے سے مذہبی موقف الگ تو ہے ہی بہت ہی قابل غور بھی ہے۔ مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ مذہبی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ موجودہ دور میں صدیوں پرانی مذہبی تشریحات قابل عمل نہیں ہیں۔ وہ ایک اور دلچسپ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ادوار وقت خیر اور وقت فساد میں تقسیم ہیں۔ وقت خیر کسی صورت تین صدیوں سے زیادہ نہیں تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ وقت فساد آج کا دور ہے، وقت خیر اور وقت فساد کے لیے احکامات میں فرق ہے۔ اس کی ایک مثال وہ یوں دیتے ہیں کہ وقت فساد میں مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر صورت لڑائی جنگ سے بچ جائے۔ اسی ایک مثال میں ہمارے ہزار مسئلوں کا جواب ہے۔

مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ پاکستان ایک سیکیورٹی سٹیٹ ہے۔ اب تو نئی پالیسی بھی بنا لی ہے ریاست نے کہ بیرونی سے اندرونی خطرہ بڑا ہے۔ اس سے مراد وہ یہ لیتے ہیں کہ ریاست نے اپنے ہی شہریوں کو مارنے کے لیے نیت باندھ لی ہے۔ مولانا شیرانی پاکستان کو ایک ویلفیئر سٹیٹ میں بدلنے کو ہی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ وہ بہت کھل کر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو اپنی اوقات پہچاننی چاہیے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ دنیا میں ہماری کیا حیثیت ہے۔ عالمی نظام کو چلانے میں ہمارا کیا حصہ ہے کیا ذمہ داری ہے۔ جو طاقتیں عالمی نظام چلا رہی ہیں وہ کیا چاہتی ہیں۔ عالمی قوانین کیا کہتے ہیں، مولانا کہتے ہیں کہ ہماری بچت اسی میں ہے کہ ہم عالمی قوانین پر عملدرآمد پر اصرار کریں اور انہیں کے مطابق اپنے لیے آگے بڑھنے کے راستے تلاش کریں۔

مولانا فضل الرحمان کا موقف جو سمجھ آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ علما کی جماعت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ ہمیشہ آئین اور قانون کی بات کرتی ہے۔ اسی آئین کے دیے گئے راستے کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ لوگ علما کی شباہت بنا کر بندوق کا راستہ اختیار کرنے والے دہشت گردوں کے برے کاموں کا الزام علما پر نہ دھریں۔ وہ کسی اور کے اعمال کے قصور وار نہیں ہیں۔ مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہمارا موازنہ قرون اولی کا مسلمانوں سے مت کیا کریں۔ ہمارے اسلامی ماڈل کو ایرانی یا سعودی ماڈل سمجھنا چھوڑ دیں۔ ہمیں اپنے ملک کی ڈائنامکس کا پتہ ہے کہ یہاں کتنی اقسام کے لوگ رہتے ہیں۔ ہم جو بھی اسلامی ماڈل لائیں گے وہ موجودہ دور کے تقاضوں کے اور ہمارے لوگوں کی طبعیت کے بھی مطابق ہو گا۔

’ٹیم ہم سب‘ کی حالیہ انٹرویو سیریز میں مذہبی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد یہ وسی بابا کے تاثرات ہیں۔ ہماری مذہبی قیادت موجودہ صورتحال، سیاسی تقاضوں اور وقت کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس کے مطابق اپنی پالیسیوں میں بھی تبدیلی لا رہی ہے۔ اس کی ترجیحات بھی بدل رہی ہے۔ جو کام نہیں ہو رہا وہ یہ ہے کہ یہ قیادت اپنے حلقہ اثر تک اپنا پیغام پہنچانے میں واضح طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہ ناکامی اتنی واضح ہے کہ اس ساری قیادت کی اہلیت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے کسی حد تک مصنوعی بھی لگتی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ہماری مذہبی قیادت ایک دم سے پالیسی تبدیل کر کے اپنے حلقہ اثر کو کھونا نہیں چاہتی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi