چودھری فضل الہٰی مرحوم۔۔۔ کچھ یادیں


 جب ایوب خان کا مارشل لگا میں اس وقت دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔ فوجی حکومت کے آنے پر لوگ خوش بھی تھے اور خوف زدہ بھی۔ سکولوں میں کوئی ایک مہینہ سے اساتذہ ہڑتال پر تھے۔ جب فوجی حکومت کا اعلان ہوا تو اساتذہ بذات خود گھروں پر جا کر یہ پیغام دے رہے تھے کہ صبح سکول کھلے گا۔ دکان دار ملاوٹ والا مال رات کی تاریکی میں جا کر نہر میں پھینک رہے تھے۔

اس حکومت کو آئے ابھی مہینہ دو مہینے ہی ہوئے تھے کہ رحیم یار خاں میں میرے ماموں، ڈاکٹر بشیر چودھری، کو گرفتار کر لیا گیا۔ پتہ یہ چلا کہ ان پر حکومت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنانے کا الزام ہے۔ قصہ یہ تھا کہ رحیم یار خان میں ایک آفیسرز کلب ہے جس کا نام صادق کلب ہے۔ ماموں جان، جو رحیم یارخان میں پرائیوٹ پریکٹس کرتے تھے، اس کلب کے ممبر تھے۔ مارشل لا سےکچھ عرصہ پہلے ایک روز ماموں جان کا کسی بات پر ڈپٹی کمشنر سے کچھ گرم سرد معاملہ  ہو گیا۔ مارشل لا لگنے کے بعد اس نے بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایس پی کو ساتھ ملا کر اور پولیس کے ایک ٹاؤٹ کی مدعیت میں یہ مقدمہ قائم کر دیا۔ اس مقدمے میں ماموں جان کے بہت سے دوستوں کو بھی لپیٹ لیا گیا، جن میں گوجر برادری کے بہت سے لوگ تھے۔ ان میں مجھے چودھری حمید گوجر مرحوم کا نام ابھی تک یاد ہے۔ بعد ازاں چودھری حمید صاحب 1970 ء کے الیکشن میں آزاد حیثیت میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ کچھ دوستوں نے معافی مانگ کر عافیت کی راہ اختیار کرنے کو ترجیح دی لیکن گوجر فیمیلی کے تمام لوگوں نے ڈٹ کر ساتھ دیا۔

گرفتاریوں کے بعد ہمارے خاندان کی خواہش تھی کہ اب جس طرح بھی ہو مقدمہ ملٹری عدالت میں چلے۔ خدشہ یہ تھا کہ سول عدالت میں یہ لوگ سالہا سال مقدمے کو لٹکائیں گے اور بہت خوار کریں گے۔ مولوی اختر علی، جو  ون یونٹ سے قبل بہاولپور کی ریاستی اسمبلی کے سپیکر رہے تھے اور اردو کے مشہور ادیب محمد خالد اختر کے والد گرامی تھے، کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر لاہور آئے۔ میرے خالو بھی ان کے ہمراہ تھے۔ لاہور میں گورنر اختر حسین سے ملاقات ہوئی اور اس کو مقدمے کے پس منظر سے آگاہ کیا۔ گورنر صاحب نے تمام روداد سننے کے بعد کہا کہ وہ  اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر خالو جان نے کہا کہ آپ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ہم غلط جگہ پر آ گئے ہیں۔ خیر اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے گورنر صاحب نے یہ یقین دہانی کرا دی کہ مقدمہ فوجی عدالت میں  ہی چلے گا۔ گورنر ہاؤس سے باہر نکلنے کے بعد مولوی اختر علی صاحب نے خالو جان سے کہا کیا آپ کے خاندان میں کوئی شخص کسی کے ساتھ آرام سے بات نہیں کر سکتا۔ ایک شخص کی زبان کی وجہ سے پہلے ہی اتنےلوگ مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں اور آپ نے یہاں گورنر سے الجھنا شروع  کر دیا۔

اب مقدمے کے لیے وکیل کی تلاش شروع ہوئی۔ کئی نامور وکیلوں سے رابطہ کیا گیا لیکن سبھی نے کسی نہ کسی بہانے انکار کر دیا۔ اس ڈپٹی کمشنر کا تعلق کسی بہت با رسوخ خاندان سے تھا۔ کئی لوگوں نے اس سے رشتے داری کی بنا پر معذرت کر لی۔ ہر طرف سے انکار کے بعد  مولوی اختر علی صاحب نے کہا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنے چودھری فضل الہٰی کو لے چلتے ہیں، فیس بھی اپنی مرضی سے دے دیں گے۔  چودھری فضل الہٰی صاحب کا تعلق بھی انھی کی برادری سے تھا۔ چنانچہ چودھری صاحب کو وکالت پر آمادہ کر لیا گیا۔

اس وقت مقدمے کے ملزمان بہاول پور جیل میں قید تھے۔ جب ملزمان کو وکیل صاحب سے ملاقات کے لیے لایا جا رہا تھا تو ماموں جان نے کھدر کا کرتہ  شلوار پہنا ہوا تھا اور کندھے پر ایک چادر رکھی ہوئی تھی۔  کسی نے اشارے سے چودھری فضل الہٰی صاحب کو بتایا کہ وہ درمیان والا شخص ڈاکٹر بشیر چودھری ہے۔ اس پر چودھری صاحب کی زبان سے بے ساختہ نکلا مجھے تو یہ شکل سے ہی ٹیررسٹ لگتا ہے۔ چودھری صاحب نے مقدمے کی تمام روداد سننے کے بعد کہا کہ سزا تو ہونی ہی ہے، اب دیکھنا صرف یہ ہے پھانسی ہوتی ہے یا عمر قید۔

مقدمہ کی کارروائی کے دن جب ملزمان کو عدالت لایا گیا تو ماموں جان نے دیکھا کہ عدالت کے اوپر جھنڈا الٹا لگا ہوا تھا۔ ماموں جان نے اعتراض کیا اور وہاں موجود صوبے دار سے کہا کہ جھنڈا سیدھا کرو۔ لیکن اس نے سنی ان سنی کر دی۔ اس پر ماموں جان نے اسے غصے میں ڈانٹنا شروع کر دیا۔ سب ساتھیوں نے ماموں جان سے کہا کہ یہاں جانوں کی فکر پڑی ہوئی ہے آپ جھنڈا سیدھا کرانے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ لیکن ماموں جان نے کہا کہ میں اس وقت تک عدالت کے اندر نہیں جاؤں گا جب تک جھنڈے کو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔ خیر وہ جھنڈا سیدھا کر دیا گیا۔

Dr Basheer Ch

مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو جو کرنل صاحب عدالت کی سربراہی کر رہے تھے، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے مدعی کو کہا تم نے صرف سچ بولنا ہے اور سچ کےسوا کچھ نہیں بولنا۔ یہ سمجھ کر بیان دو کہ تم اللہ تعالیٰ کی عدالت میں بیان دے رہے ہو اور آخرت میں بھی اس کا جواب دینا ہو گا۔ اس نے کہا یہاں اللہ تعالیٰ سن رہا ہے اور باہر پولیس کھڑی ہے جس نے میرے بیٹوں کو حراست میں لیا ہوا ہے۔ کرنل صاحب نے اسے تسلی دی کہ اسے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس پر اس نے اپنے بیان سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس شخص کو زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ دیگر گواہان بھی اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے اور کہا کہ پولیس نے زبردستی ان سے بیان لیے ہیں۔  اب جس مقدمے میں چودھری فضل الہٰی صاحب پھانسی یا عمر قید کی سزا سے ڈرا رہے تھے، وہ مکمل جھوٹ ثابت ہوا اور ایک دو پیشیوں میں ہی نمٹ گیا۔ تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا۔

 اس وقت گاؤں میں امی جان کے ساتھ ہم تین بھائی ہی تھے۔ ایک دن رات کے وقت گھر کی پچھلی گلی میں کھلنے والی کھڑکی پر دستک ہوئی۔ میں بھاگ کر گیا تو ہمارے ایک عزیز، جو سکول میں استاد بھی تھے، کھڑے تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمھارے ماموں جان کی کوئی خبر آئی ہے۔ میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر انھوں نے کہا اپنی امی جان کو بتا دو کہ بری ہو گئے ہیں۔ اس وقت مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ بری ہونے  کا کیا مطلب ہے۔ میں نے بھاگتے ہوئے جا کر امی جان سے کہا کہ ماموں جان بری ہو گئے ہیں، اس پرامی جان نے کہا اللہ تیرا شکر ہے۔ اب مجھے تسلی ہوئی کہ کوئی اچھی خبر ہے۔

ظاہر ہے کہ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اس لیے مقدمے کی یہ تفاصیل میں نے بعد میں متعدد بار بزرگوں سے سنی ہیں۔ نانا جان ہنسا کرتے تھے کہ ہمیں زیادہ تسلی وکیل کو دینا پڑتی تھی کہ آپ مت گھبرائیں، آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ ماموں جان نے البتہ کبھی اس پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ جب چودھری فضل الہٰی صاحب بھٹو صاحب کے دور میں صدر بنے تو میں نے اپنے دوستوں کو یہ خاندانی تجربات سنائے تھے۔ آج جنگ اخبار میں شائع ہونے والے وجاہت مسعود صاحب کے کالم میں چودھری فضل الہٰی صاحب کا تذکرہ پڑھ کر مجھے پھر سے یہ باتیں یاد آ گئی ہیں۔  اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک مرنجاں مرنج، شریف النفس انسان تھے اور ایوان صدر میں اپنی صدارت کا دورانیہ مکمل کرکے وہاں سے عزت و آبرو کے ساتھ رخصت ہوئے تھے۔

پس نوشت کے طور پر ایک اور بات یاد آ گئی ہے۔ جب جسٹس افتخار چودھری صاحب کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی، میرے چھوٹے بھائی، زاہد علی ظہیر ایڈووکیٹ، نے بھی  بہاولپور جیل میں کوئی دو ہفتے قید کاٹی تھی۔ اس طرح میرے خاندان کی دو نسلوں کو اس جیل کی زیارت اور اس میں قیام کا شرف حاصل ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).