غریب صرف پھلوں کی ریڑھی والا ہی نہیں ہوتا ہے


رمضان میں پھلوں کی قیمتیں بڑھنے پر اچانک ایک مہم چلی ہے کہ تین دن کے لئے پھلوں کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ بائیکاٹ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے ناجائز قیمتیں بڑھانے والوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے کیونکہ ان کا مال گلنے سڑنے لگے گا اور وہ قبل از رمضان کی مناسب قیمت پر بیچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس کے خلاف ردعمل آیا ہے کہ فروٹ تو ریڑھی والا بیچتا ہے۔ وہ غریب آدمی ہوتا ہے۔ ساری دیہاڑی میں جو کماتا ہے رات کو اسی سے اپنے بچوں کو کھانا کھلاتا ہے۔ تو اس کا بائیکاٹ کر کے اسے بھوکا مت مارو۔ اس گروہ کا یہ خیال ہے کہ قوم میں صرف دو طبقات ہیں، پہلا پھلوں کی ریڑھی لگانے والا اور دوسرا وہ جو مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کر کے سیدھا بوتیک پر جاتا ہے اور اپنے لئے بیس ہزار روپے کا سوٹ خرید لیتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب بائیکاٹ کریں یا افطاری میں فروٹ چاٹ کی پلیٹ کھا ہی لیں تاکہ غریب ریڑھی والا بھی کچھ کھا سکے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ صرف سپلائی یا ڈیمانڈ کا سادہ سا معاملہ نہیں ہے کہ رمضان آتے ہی پھلوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہو جاتی ہے تو اس وجہ سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں بلکہ اس کے پیچھے تاجروں کی اندھا منافع کمانے والی ذہنیت ہے۔ ڈیمانڈ کا مسئلہ ہی ہو تو یہ ڈیمانڈ ہمسایہ غیر مسلم اکثریتی ممالک یعنی بھارت اور چین سے پھل امپورٹ کر کے بھی پوری کی جا سکتی ہے۔ یہ تجارتی کارٹیل کا معاملہ ہے۔ کارٹیل مارکیٹ میں موجود تاجروں کا وہ آپسی سمجھوتہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مصنوعی طریقے سے اشیا کی قیمت بڑھا کر عوام کو لوٹنا ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی میں بھی حکومت کارٹیل کو غیر قانونی سمجھتی ہے اور اسے توڑتی ہے۔

عوام کو پریشان کر کے منافع کمانے کے اس معاملے کو ایک مثال سے سمجھیں۔ جب پندرہ دن بعد پیٹرول کی قیمت میں رد و بدل ہوتا ہے تو پیٹرول کی قیمت کم کرنے پر اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک دو دن کے لئے ملک بھر کے پیٹرول پمپوں پر پیٹرول نایاب ہو جاتا ہے۔ ان پیٹرول پمپوں کے مالکان سٹاک میں موجود مہنگا پیٹرول سستا کیوں بیچیں؟ وہ قیمت گرنے سے پہلے ہی سٹاک بیچ دیتے ہیں اور نیا سٹاک نہیں خریدتے۔ پیٹرول مہنگا ہونے پر یہی مالکان ایک دو دن کے لئے اپنے سستے سٹاک کو ہولڈ کرتے ہوئے عوام کو بیچنے سے انکار کرتے ہیں اور قیمت بڑھنے پر اسے مہنگا بیچتے ہیں۔ اب یہ معاملہ حکومتی کنٹرول کا ہے کہ ہر دو صورتوں میں پیٹرول کی فراہمی کو ممکن بنائے مگر صارف کے مفادات کا تحفظ کرنے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ایک دوسری مثال ادویات فروش کمپنیوں کی ہے۔ جب عام جنیرک نام سے ادویات فروخت کی جاتی ہیں، تو وہ سستی ہوتی ہیں۔ مگر جب وہ کسی برانڈ کے نام سے فروخت کی جاتی ہیں تو ان کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔ بھٹو دور میں جب پاکستان میں جنیرک نام سے ادویات فروخت کی جاتی تھیں تو وہ عام آدمی کی پہنچ میں تھیں، اب برانڈ نیم، ڈاکٹروں کو لالچ دے کر یہ ادویات بیچنے، ہر سال قیمت بڑھانے اور حکومت کا کنٹرول برائے نام ہونے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں ہوشربا حد تک جا پہنچی ہیں جبکہ یہی کمپنیاں بھارت میں یہی ادویات کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہیں۔ یہاں بھی حکومتی کنٹرول ناپید ہے۔

رمضان میں پھلوں کی مارکیٹ میں زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں بعینہ یہی پیٹرول والی صورت حال ہوتی ہے۔ سستے سٹاک کو پھلوں کے آڑھتی منڈی میں راتوں رات دگنی قیمت پر بیچنا شروع کر دیتے ہیں اور حکومت کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں غائب ہوتی ہیں۔ ریڑھی والے بھی جہاں ایک کلو پھل پر پچاس روپے منافع لے رہے ہوتے ہیں، اب وہ بھی اپنے منافعے کی شرح کو زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔ یوں پھل کو کولڈ سٹوریج میں رکھ کر رمضان کے دنوں میں مہنگا بیچنے والا بیوپاری، آڑھتی، ماشاخور اور ریڑھی والا مل کر اندھا دھند ناجائز منافع کماتے ہیں۔

جبکہ رمضان میں قیمتوں میں یہ مصنوعی اضافہ ہونے پر وہ کروڑوں لوگ جو رمضان سے پہلے کی قیمتوں کے پھل کو اپنی قوت خرید میں پاتے تھے، یکلخت خود کو پھل خریدنے سے قاصر پاتے ہیں۔ ریڑھی والے کا خیال تو ضرور کریں، مگر یہ سوچیں کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ پچاس ہزار؟ ایک لاکھ؟ پانچ لاکھ؟ دس لاکھ؟ جبکہ پھلوں کو اس بے تحاشا بڑھی ہوئی قیمت کے باعث حسرت سے تکنے پر مجبور ہونے والے سفید پوشوں کی تعداد کتنے کروڑ ہے؟ غریب مزدور کے گھر کا تو بچہ بوڑھا سب کمانے پر لگے ہوتے ہیں، سفید پوش کنبوں میں تو صرف گھر کا سربراہ بیس تیس ہزار کماتا ہے اور پورا گھر سارا مہینہ اسی پر گزارا کرتا ہے۔ کیا ریڑھی والے کی محبت میں ہم ان کو نظرانداز کریں گے؟ کیا یہ کنبے بھی رمضان میں چند دن افطاری میں پھل کھانا نہیں چاہتے ہیں؟ کیا صرف ریڑھی والوں نے ہی عید پر بچوں کے مہنگے کپڑے لتے خریدنے ہوتے ہیں اور غربت اور شرم کے مارے یہ سفید پوش ایسا نہیں کرتے ہیں؟

یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دیں کہ پھلوں کی ریڑھی والا صرف پھل فروخت کرنا ہی جانتا ہے۔ اس کے پھل نہیں بکیں گے تو وہ سبزی بیچنا شروع کر دے گا۔ رمضان میں وہ سموسے اور پکوڑے بنانا شروع کر دے گا۔ دہی بھلے بیچنے لگے گا۔ رمضان میں کھانے پینے والی ہر شے زیادہ بکتی ہے۔

فروٹ کے باغ سے منڈی تک پہنچنے کا طریقہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ کسان سے باغ کا سودا بیوپاری کرتا ہے۔ وہ اس سودے کو یا تو زیادہ قیمت پر بیچنے کی خاطر کولڈ سٹوریج میں کچھ وقت رکھتا ہے یا سیدھا باغ سے منڈی میں ٹرک لا کر آڑھتی کے حوالے کرتا ہے جو اسے اپنا کمیشن رکھ کر ماشاخور (ہول سیلر) کو بیچتا ہے جس سے پرچون فروش اور ریڑھی والے خریدتے ہیں۔ بائیکاٹ کی صورت میں بنیادی نقصان بیوپاری اور آڑھتی کا ہو گا جو ان سودوں میں دن کے لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ اگر منڈی میں آنے والے ٹرک تین دن نہ بکیں تو مزید ٹرک آنے بند ہو جائیں گے اور موجودہ مال گلنے سڑنے لگے گا۔ اس سے کسان کو اس لئے نقصان نہیں ہو گا کہ اس کا پھل اگر درخت پر تین دن مزید لگا رہے تو وہ خراب نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عام طور پر باغات کے سودے پھل اتارنے کے وقت سے پہلے ہی کیے جا چکے ہوتے ہیں۔

اگر عوام پھل نہیں خریدیں گے تو ریڑھی والا تو پکوڑے فروخت کر لے گا، لیکن جو بیوپاری کولڈ سٹوریج اور ٹرک میں پھل رکھے بیٹھا ہے وہ کتنے عرصے تک یہ پھل محفوظ رکھ سکتا ہے؟ اسے قبل از رمضان کی قیمت پر پھل نکالنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہ آڑھتی فصل آتے ہی پورا باغ کسان سے ارزاں نرخوں پر خرید کر ہمیں رمضان میں مہنگے نرخوں پر بیچنے کے لئے کولڈ سٹوریج میں رکھے بیٹھا ہوتا ہے۔ پھل نہ بکیں تو نقصان اس کا ہو گا۔

پھلوں کے بائیکاٹ کی یہ عوامی مہم تاجروں کے اسی اندھا منافع کمانے کی کوشش اور حکومت کی بے حسی کا ردعمل ہے۔ بائیکاٹ کی یہ مہم نہ صرف رمضان میں مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے لئے کارگر ہو گی بلکہ یہ حکومت کے لئے بھی ایک وارننگ ہو گی کہ اگر اس نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائیں اور عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز نہ کیں تو ردعمل کی ایسی لہریں اس کے خلاف بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسے پرائس کنٹرول اور معیار پر خاص توجہ دینی پڑے گی۔

آپ تصور کریں کہ اگر ہسپتالوں کی صورت حال پر ایک ایسی بھرپور عوامی مہم چلتی ہے تو کیا کوئی بھی حکومت اس کا سامنا کرنے کو تیار ہو گی یا پھر صحت کے سیکٹر میں تبدیلیاں لا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے گی۔ ایسی ہی مہم پھر موبائل کمپنیوں کی لوٹ مار کے خلاف چلے گی۔ ناقص خوراک کے خلاف چلے گی۔ حکومتی لوٹ مار کے خلاف چلے گی۔

پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا یہ ستون اپنا درست کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن اب سوشل میڈیا اس چوتھے ستون کی جگہ لینے لگا ہے۔ اس لئے عوامی مفاد کی اس پہلی مہم کو خوش آمدید کہنا چاہیے اور حکومت اور ناجائز منافع خوروں پر مزید دباؤ بڑھانا چاہیے۔ اگر بیس ہزار کا ایک سوٹ خریدنے والا بھی سفید پوشوں کے حق میں یہ مہم چلا رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ وہ تو سو روپے کلو کا سیب بھی خرید سکتا ہے اور ہزار روپے کلو کا بھی، وہ یہ بائیکاٹ اپنے لئے نہیں کر رہا ہے۔

جہاں تک رمضان، عید اور غریبوں کا معاملہ ہے تو اس مہینے اپنی استطاعت کے مطابق ہر محنت کش کو معمول سے زیادہ ٹپ ضرور دیں۔ اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ مال خریدیں اور مستحقین کو دیں۔ جو لوگ محنت کر رہے ہیں اور ایمانداری سے روزی کما رہے ہیں، آپ کے فالتو پیسے کے زیادہ حقدار وہ ہیں بہ نسبت ان تمام ناجائز منافع خوروں کے کے جو دو نمبری کر کے آپ سے پیسے لوٹنے کے چکر میں ہیں۔ اپنی ضروریات محدود کریں اور اپنا دل بڑا کریں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar