فیض احمد فیض اور فروٹ چاٹ


لطیفوں کا موسم ہے۔ نت نئی پھلجھڑیاں۔ تازہ ترین یہ رہی کہ مہنگے پھلوں کا تین دن کے لیے بائیکاٹ! یہ لطیفہ کم تھا کہ اس پر دلائل نما لطیفے یا لطیفے نما دلائل۔ for or against دونوں شاہکار! رمضان ،رمدان کی بحث، عیدین اور چاند کا معاملہ، یہ سب ہر سال چلتا ہے۔ جب پرانے مسائل سے نہیں اکتاتے تو گمان گزرا کہ احباب پرانے لطیفوں سے بھی بیزار نہیں ہوتے ہوں گے۔ سو نذر ہیں۔

یہ کون نرم دل ہیں جنہیں غریب پھل فروشوں کے معاش کی فکر ستا رہی ہے؟ لطیفہ کچھ ایسا یاد آیا کہ ایک بدنصیب راہ گیراندھی گولی کا شکار ہوا۔ بیچ پیشانی پر گولی لگی اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ لواحقین کو دلاسہ دینے والوں میں ایک نے فرمایا کہ اللہ نے کرم کیا ، آنکھ بچ گئی۔ سو پولیس کی دیہاڑیاں، کارپوریشن کے آپریشن، اور اشفاق احمد کے سیب فروش بابے پر بیتنے والی وارداتوں کے بعد ابھی آنکھ بچانے کا عزم باقی ہے؟

یہ کون نو دولتیے ہیں، جو اتنا زیادہ کمانے کا مشورہ نما طعنہ دیتے ہیں کہ گرمیوں میں پھل اور جاڑوں میں چلغوزہ سستا معلوم ہو۔ لطیفہ یوں ہوا کہ ایک شخص نوکری کا اشتہار دیکھ کر انٹرویو کے لیے پہنچا۔ دفتر کی حالت انتہائی ابتر تھی۔نہ بیٹھنے کی جگہ نہ بجلی پانی۔ خیر، باس نے انٹرویو میں بتایا تنخواہ پچاس ہزار روپے ہے، لیکن سو فیصد کمیشن پر مبنی۔ امیدوار نے ٹوٹا پرانا فرنیچر اور دیواروں سے جھڑتا پینٹ دیکھتے ہوئے پوچھا، کام کیا ہو گا؟ باس نے اطمینان سے جواب داغا: ‘یہ پچاس ہزار کہاں سے آئیں گے، یہی سوچنا کام ہے۔ کامیاب رہے تو تنخواہ مل جائیگی۔ پرانے لطیفوں سے الرجی نہ ہو تو ملکہ فرانس کا روٹی بمقابلہ کیک والا جواب بھی یاد آتا ہے۔چیل کے گھونسلے میں ماس ڈھونڈتے اب بقراطوں کو ایک پپی ادھر، ایک پپی ادھر! آپ بھی پیار کرتے ہیں منطق سے، منطق آپ پہ مرتی ہے۔

یہ سب کوئی اور نہیں، ہم سب ہیں۔ شاید یہ ہم ہی بے فیض ہیں جو فیض احمد فیض کا کہا بھول گئے۔ آپ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ یہ پھل اسی ریٹ بکے گا۔ ایک پھلجھڑی پہ موقوف ہے گھر کی رونق!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).