سی پیک میں ہمارے لیے کیا ہے؟


سی پیک کے موضوع پر اتنے تجزیات سامنے آ چکے ہیں کہ اگر انہیں پڑھا جائے تو عوام کسی بھی قسم کی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں جنہیں اعتراض کرنا ہوتا ہے وہ بلوچستان کو سی پیک سے حاصل ہونے والے فوائد میں کمی کی بات کرتے ہیں، ہزارہ کمیونٹی کے تحفظات کی بات کرتے ہیں، دور بیٹھ کر نشانے لگاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اے چین والو! وہ غلطی مت دہرانا جو امریکہ کرتا رہا ہے، پیسے دو تو اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ حساب کتاب رکھنا کہ کہاں کہاں کیا کیا خرچ ہو رہا ہے۔ ڈرانے والے سول ملٹری تعلقات پر نظر رکھنے کو کہتے ہیں، اتنی دیر میں ایک آواز آتی ہے کہ سیاست دان سی پیک پر دل چھوڑ بیٹھے ہیں اور پاکستان اس میں ذاتی طور پر کوئی بڑی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک طرف تلوار نیام سے باہر آتی ہے تو علیحدگی پسند تحریکوں کا رونا بین الاقوامی سطح پر رویا جاتا ہے اور تجزیے یہ بھی ہوتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات سی پیک سے مزید خراب ہوں گے کیونکہ جہاں جہاں یہ راہداری آزاد کشمیر سے گزرے گی وہاں وہاں دونوں علاقوں میں اقتصادی مفادات کی جنگ مستقل زمینی پھڈے میں بدل جانے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے۔

چین بے چارہ ان سب معاملات کے بارے میں عالمی سطح پر وضاحتیں دیتا پھرتا ہے صرف اس لیے کہ اس کے مفادات ہم سے بھی زیادہ اس راستے سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں کچھ کرنا ہے تو یہ پخیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔ وہ اپنے موجودہ تنگ سے ٹریڈ روٹ کے ہاتھوں مجبور ہے اور ہم شروع دن سے اپنوں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ اس سب کے باوجود آج کی تاریخ تک جو کچھ ڈویلپمنٹس سی پیک پر ہو چکی ہیں وہ مکمل طور پر یہ باور کراتی ہیں کہ پاکستان اور چین‘ دونوں اس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ ہیں اور جلد از جلد اسے کسی نتیجہ خیز مرحلے تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے رہنے والے بہرحال کان لپیٹے اپنے اپنے مسائل کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور ان تک سی پیک کے حوالے سے کوئی خاص معلومات نہیں پہنچ رہیں بلکہ بعض معلومات تو خواص میں سے بھی گنتی کے افراد تک پہنچ پاتی ہیں۔ قرضہ کتنا ہو گا، ادا کیسے ہو گا، نہیں ادا کریں گے تو کیا ہو گا، چین ہمارے ساتھ وہی کرے گا جو پالیسیاں مغرب چلتا رہا ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی والی حرکتیں کرے گا یا ویسا ہی بڑا بھائی بنا رہے گا جیسا ہم اسے پروجیکٹ کرتے آئے ہیں؟ یہ سب سوال لوگوں کے دماغوں میں کلبلاتے رہتے ہیں۔

سیدھی سی بات ہے بھئی یہ لوگ تو پہلے بھی کئی پنج سالہ منصوبے بھگت چکے، کبھی ایشین ٹائیگر بنے اور دم میں نمدہ باندھے گھومتے رہے، کبھی حکومتوں نے گھاس کھانے کے دعوے کیے اور عوام گھاس کھودنے پر مجبور ہو گئے، کبھی ملک سنوارنا چاہا تو مزید قرض چڑھوا بیٹھے، کبھی پیرس بناتے بناتے چوبرجیوں اور شالاماروں کو بھی ہاتھوں سے گنوا دیا تو عوام بہرحال جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ”سی پیک انہیں کیا فائدہ دے گا؟‘‘ اس سلسلے میں ایک تشہیری مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے جو ہر صوبے کے کنسرنز کو شافی طور پر حل کر سکے۔ تھڑا سیاست یا چوپال میں ہونے والی گفتگو اگر بدستور لوگوں کی معلومات کا اہم سورس رہے گی تو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ملکی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس راہداری کے معاملے میں کم از کم ایک بات پر متفق ہیں کہ اسے مکمل ہونا چاہیے اور جلد ہونا چاہیے۔ وہ جماعتیں جو سیاسی نہیں‘ وہ بھی اس کے مکمل ہونے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس ساری ہم آہنگی کا خوبصورت نتیجہ کراچی سٹاک ایکسچینج کو طاقت کے ٹیکے لگائے جاتا ہے، سیمنٹ فیکٹریوں کی موج لگتی ہے اور کٹاس کے تالاب بہرحال کسی کھاتے میں نہیں آتے جو انہیں فیکٹریوں کے ہاتھوں سوکھتے جاتے ہیں۔ تو جماعتیں اکٹھی ہیں، ملکی طاقتیں دل و جان سے اس راہداری کے حق میں ہیں اور سٹاک ایکسچینج بہترین پوزیشنوں پر ہے۔ اس سب کا ریفلیکشن حالیہ سیاسی معاملات میں آرام سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈان لیکس، پاناما لیکس، ٹویٹی بیان، گاڈ فادر فیصلے، جے آئی ٹی جو بھی جوار بھاٹا آتا ہے بس نپا تلا رہتا ہے، نہ ایسا کہ شہر بہا لے جائے، نہ ہی ایسا کہ مچھیرے موتی چنتے رہیں، تو یہ جو میانہ رو قسم کے سکون پذیر حالات ہیں یہ بھی سی پیک سے بندھے ہوئے ہیں اور یہ سب سے مزے کی بات ہے۔ برسوں بعد تمام سٹیک ہولڈر ایک ایسے دھاگے سے بندھے ہیں جسے جھٹکا دے کر توڑنا فی الوقت ان میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔

سی پیک کے حوالے سے اس وقت شدید احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی کام ایسا نہ ہو جو بعد میں شامل ہونے والوں کو اس پروجیکٹ سے بد دل کر دے۔ پاکستان ریلوے کو مزید امپروو کرنے کی ضرورت ہے کم از کم اس معیار تک کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اسے بھی ایک اہم فیکٹر جانتے ہوئے اہمیت دے سکیں۔ پٹڑیوں کا بہترین جال موجود ہے اسی میں تھوڑا اضافہ اور سرمایہ کاری محفوظ ترین متبادل راستے مہیا کر سکتی ہے۔ ترقیاتی کام سے متعلق تمام ٹھیکوں کی شفافیت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ امن عامہ اور سکیورٹی کے مسائل اہم ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ علاقائی سیاست دانوں تک اس راہداری سے متعلق تمام چیزیں اچھی طرح کمیونیکیٹ ہوتی رہیں تاکہ وہاں سے معلومات عام آدمی تک بہتر انداز میں پہنچ سکیں۔ بہتر ہے کہ یہ تمام کام اس انداز میں ہو جس سے کسی ایک سیاسی حکومت کا ٹھپہ اس پر نہ لگے، آنے والی حکومتیں بھی اسے عین اسی طرح اپنا سکیں جیسے موجودہ دور میں کام ہو رہا ہے۔

عام آدمی جب ایک مرتبہ رائے قائم کر لیتا ہے تو اس کی سوچ کو بدلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ابھی معاملات درمیان میں ہیں، بلوچستان ہو، ہزارہ ہو، ساؤتھ پنجاب ہو، پشاور ہو یا سندھ کے لوگ ہوں، ہر کسی کی اپنی اپنی ریزرویشنز ہیں۔ وہ ڈور جس نے پاکستان کی تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کو قسمت سے ایک جگہ اکٹھا کر ہی دیا ہے تو اسے بچانے کی اور مستقبل میں محفوظ رکھنے کی مہم باقاعدہ شروع کی جانی چاہیے۔ دور دراز کے رہنے والوں تک درست اور جامع بنیادی معلومات پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ ابھی تازہ ترین رپورٹ گوادر کے حوالے سے آج صبح دیکھی، وہاں موجود ایک لاکھ پینتیس ہزار سے زائد مچھیروں کے بھی وہی تحفظات ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ ان تمام مسائل سے بروقت نمٹنا اس وقت حکومت کی اہم ترین ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہیے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain