بیگم اختر ۔۔۔ کیسی دھوم مچائی


شروع شروع میں گلوکار جب ریکارڈنگ کرواتے تھے تو دو تین منٹ کے بعد گانا ختم کر کے توے پر خود سے اپنا نام بولتے تھے، مجھے اب بھی یاد ہے جب پہلی بار میں نے بیگم اختر کا ریکارڈ سنا اور جادوئی گائیکی کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کچھ یوں کروایا، “میرا نام فیض آباد والی اختری” وہ اس وقت اپنے چاہنے والوں میں اختری بائی فیض آبادی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔

بیگم اختر ایک ٹرینڈ سیٹر تھیں۔ ایک ایسی کلاسیکی گلوکارہ جنہوں نے غزل گائیکی پرائیویٹ محفلوں سے کھینچ کر کانسرٹ ہال میں پہنچا دی۔ انہوں نے کئی استادوں سے گانا سیکھا جن میں خاص طور پر استاد عبدالوحید خان صاحب کیرانہ والے اور استاد عطا محمد صاحب فرام پٹیالہ کا نام قابل ذکر ہے۔ چونکہ وہ راگ ودیا جانتی تھیں تو گانا ان کے لیے ایک بالکل عام سی آرام دہ تفریح تھی۔ ان کی ہر کمپوزیشن کسی نہ کسی راگ پر بنی ہوتی تھی۔ وہ جب گاتیں تو سامنے موجود ہر شخص کو یوں لگتا جیسے خاص اسی کے لیے گایا جا رہا ہے۔ بناوٹ کا تو کوئی نام و نشان نہیں تھا، اسی سادگی اسی آرام سے گاتیں جیسے پکاسو نے انہی کے لیے کہا ہو کہ فن کی معراج سادگی ہے اور فنکار اسے پا لے تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ چار دہائیاں ہو گئیں انہیں گزرے، اگر آج بھی وہ اسی ذوق شوق سے سنی جاتی ہیں تو یہ ان کی سادہ اور سدا بہار موسیقی ہی کے طفیل ہے۔

وہ بہت پیاری خاتون تھیں۔ وہ جب بھی مسکراتیں تو ان کی ناک میں پڑا ڈیڑھ قیراط ہیرے والا کوکا بھی ساتھ ہنس پڑتا۔ کیا خوش گوار اور دلچسپ شخصیت تھیں اور ایسی کہ دوسروں کی مدد کو ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ کئی نئے فنکاروں کو انہوں نے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا، بہت دفعہ خود سے کوشش کر کے ان کا تعارف بھی کرواتی تھیں۔

چالیس برس میں انہوں نے تقریبا چار سو گانے گائے جس میں سے پہلا بارہ سال کی عمر میں گایا تھا۔ برصغیر میں کوئی دوسرا گائیک غزل میں ایسے نہیں جما جیسی وہ تھیں۔ کیا ٹھمری، کیا دادرا کیا غزل ان کا گانا پنجابی اور پوربی گائیکی کا وہ ملاپ ہے جس میں ایک عجیب سی نزاکت کے ساتھ ساتھ بھرپور طاقت موجود ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ استاد کی نصیحت پر ان کی اماں انہیں کلکتے لے کر آ گئیں جہاں انہوں نے مزید فن سیکھا۔ وہاں ایک دفعہ یوں ہوا کہ کوئی چیریٹی شو تھا تو اس میں بڑے بڑے نام اناؤنس ہوئے کہ فلاں استاد آئیں گے، فلاں بڑے خاں صاحب آئیں گے، چوں کہ مفتا پروگرام تھا تو کوئی بھی نہیں آیا۔ اب ایک غدر مچ گیا، آرگنائزر پریشان ہو گئے۔ استاد عطا محمد نے انہیں کہا کہ بی بی کو موقع دیجیے، بی بی سید آئیں اور چھا گئیں۔ وہیں سے گراموفون والے بھی ان سے امپریس ہو گئے اور ان کے ساتھ معاہدے شروع ہو گئے۔ استاد کو اندازہ تھا کہ یہ نام چلنے والا نہیں تو بس نام بدل کر اختری بائی فیض آبادی اسی کنسرٹ کے بعد رکھا گیا۔

نام کا بدلنا کمال شگن تھا۔ ایک برس بعد ہی انہوں نے وہ غزل گائی، “دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے” اور ساتھ کون تھا، استاد بڑے غلام علی خان جو سارنگی پر سنگت دے رہے تھے۔ پھر چل سو چل، تھیٹر میں اس زمانے کے سوپر ہیرو استاد فدا حسین کے ساتھ انہیں کام ملا، آغا حشر کا ڈرامہ ہو، استاد فدا حسین ہوں، اعلی ترین تھیٹریکل کمپنی ہو اور اختری بائی کا ڈرامہ ہو۔ تو بس گانے کے لیے انہیں ویک اینڈ پر ہی فرصت مل پاتی تھی۔

جلد ہی انہیں فلموں میں کام ملنا بھی شروع ہو گیا۔ ان کی پہلی فلم طاہر حسین نے ڈائریکٹ کی جس کا نام ایک دن کا بادشاہ تھا۔ پھر امینہ، ممتاز بیگم، روپ کماری، جوانی کا نشہ، نصیب کا چکر اور کئی دوسری فلموں کے بعد کے آصف نے ان میں چھپا ٹیلنٹ دیکھا تو انہیں اپنی فلم روٹی میں کاسٹ کیا جس کا میوزک انل بسواس دے رہے تھے۔ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح فلم نگری دوڑی چلی آئیں، بمبئی شفٹ ہو گئیں لیکن جلد ہی انہیں بے چینی نے گھیر لیا۔ وہ موسیقی کی دنیا میں واپس جانا چاہتی تھیں۔ آخر وہ لکھنو واپس چلی گئیں۔

سن پینتالیس میں ان کی شادی ایک نواب خاندان میں ہوئی۔ بیریسٹر اشتیاق احمد عباسی نواب آف کاکور سے شادی کے بعد وہ بیگم عباسی کہلائیں۔ شادی کے بعد ہنسی خوشی انہوں نے گانا ترک کر دیا کہ گھر گرہستی سنبھالیں گی لیکن قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ سات مرتبہ حمل گرنے کے بعد ان کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ بی بی آپ گانا دوبارہ شروع کیجیے شاید اسی بہانے دل لگ جائے، وہ مان گئیں اور یوں موسیقی کی دنیا میں آٹھ برس بعد ان کا دوسرا جنم بیگم اختر کے نام سے آل انڈیا ریڈیو پر ہوا۔ یہ نام ان کا اپنا نام تھا اس میں کسی نوابی وابستگی یا سوشل سٹیٹس والی برتری نہیں تھی۔

وہ میرے ابا کی بہت عزت کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت مرتبہ انہوں نے ابا صاحب سے کہا کہ آپ بھی گانا ریکارڈ کروا لیا کیجیے لیکن وہ نہیں مانتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سب ریکارڈ انہوں نے کئی مرتبہ شادی بیاہ اور دوسرے فنکشنوں میں بجتے دیکھے تھے جہاں لوگ باتیں کر رہے ہوتے تھے، شرابیں چل رہی ہوتی تھیں، کھانے کھائے جا رہے ہوتے، تو ان کی عزت نفس کو ایسے بے سرے ماحول میں گانا گوارا نہیں تھا۔ تو ابا صاحب کی چند ریڈیو ریکارڈنگز کے علاوہ آج کوئی گانا موجود نہیں ہے۔

پہلی بار میں نے کلکتے میں بیگم صاحب کو گاتے سنا تھا۔ وہ گاتے ہوئے ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں۔ اس سے پہلے کہ میں انہیں آداب کہا کرتا وہ ہمیشہ بڑھ کر آتیں اور کہتیں، “خان صاحب، آداب۔” میں سوچنے لگ جاتا کہ یہ کہیں میرا مذاق تو نہیں اڑا رہیں۔ جب میں سامنے آڈئینس میں بیٹھا ہوتا تو وہ گانے سے پہلے ہمیشہ کہتیں، “خان صاحب اجازت ہے؟” مجھے بڑی شرم آتی کہ یہ کیا بات ہوئی، آخر مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ اجازت مجھ سے نہیں میرے پرکھوں سے مانگی جاتی ہے کہ بیگم صاحبہ نے ان کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔

ستر اکہتر کی بات ہے، ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ آل انڈیا ریڈیو نے کشمیر کے ہری بھون میں ہم دونوں کو پرفارم کرنے بلایا۔ میں چوں کہ ان سے بہت چھوٹا تھا تو میں نے درخواست کی کہ بیگم صاحبہ یہ شام میرے گانے سے شروع ہونی چاہئیے۔ یہ سنتے ہی وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگ گئیں۔ بولیں، “یہ گستاخی میں نہیں کر سکتی۔” میں اچھا خاصا پریشان ہو گیا، کافی دیر تک ان سے کہتا رہا یہاں تک کہ جب ریڈیو والے ہمیں لینے آئے تو بیگم صاحبہ نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے روکا اور تھوڑے تیز قدموں سے خود سٹیج کی طرف چلی گئیں۔ وہاں حسب معمول اسی لطیف مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے گانا شروع کیا، میں سٹیج کے پیچھے کھڑا دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ میاں میرا گانا بھی ان کے بعد چل جائے بس۔ انہوں نے چار غزلیں گائیں اور چاروں ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ اب میری باری آئی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے انہیں سامنے تماشائیوں میں موجود دیکھا۔ ان کے احترام کا واحد تقاضا یہی تھا کہ میں نے سرود ایک طرف رکھا اور کہا کہ آپ گا چکیں اب میں تمام راگ راگنیاں بھول چکا ہوں۔ میں نے لجاجت سے کہا کہ آپ پلیز ہوٹل جائیے اور آرام کیجیے۔ وہ بولیں، “لیجیے، کیا ہم آپ کو نہیں سن سکتے، بسم اللہ کرئیے۔” (تلسی بانہہ اصیل کی گر بھولے سے چھو جائے / آپ نبھاوے عمر بھر، بچوں سے کہہ جائے)۔

وہ سرتاپا مہربان شخصیت تھیں۔ کتنے ہی موسیقاروں کی چوری چھپے مدد کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک میوزک سکول بھی بنا رکھا تھا۔ ان کی شاگرد ریٹا گنگولی کہتی ہیں کہ “جب وہ اپنے فن کا عروج دیکھ رہی تھیں، ایک مہینے میں بیس بیس پروگرام کیا کرتی تھیں تب بھی وہ مجھے ساتھ ساتھ لے کر گھومتیں اور ہر جگہ باقاعدہ الگ حیثیت سے میرا تعارف کرواتیں خود سے پہلے مجھے گواتیں۔ انہیں سے میں نے اعلی ترین شاعری کا انتخاب سیکھا۔” ان کے شاگروں میں شانتی ہیرانند، انجلی بینرجی اور ریٹا گنگولی جیسے آج بھی ان کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔

 بیگم صاحبہ ہمیشہ شاعر اور اس کے کلام کو اہمیت دیتی تھیں۔ وہ کبھی بھی گانے کی بیچ میں غیر ضروری شرتیاں یا تان پلٹے نہیں لیتی تھیں، اپنے ریاض اور فن کی عظمت دکھانا انہیں کبھی مقصود نہیں ہوتا تھا، وہ شاعری کے حساب سے چلتی تھیں۔ کئی گانے والے گاتے گاتے گانے سے کٹ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں، ان کا ایسا بھی کوئی معاملہ نہیں تھا۔ پوری توجہ اور مکمل دھیان سے گاتی تھیں۔

ایسی ہمبل ایسی عاجز تھیں کہ ایک دفعہ انہوں نے کہیں کیرانہ گھرانے کے کسی شاگرد کو سنا، مبہوت ہو گئیں اور استاد عبدالوحید خان کے یہاں شاگردی کے لیے پہنچ گئیں۔ دوبارہ سے شاگرد بن کر سب کچھ سیکھا۔ یاد رہے یہ وہی بیگم اختر ہیں جو 1938 میں آل انڈیا ریڈیو پر گانے والی پہلی فنکار تھیں۔

بیگم اختر کا زمانہ گانے کی ایک پوری روایت تھا۔ وہ اسلاف کی گائیکی سے پوری طرح جڑی ہوئی تھیں، انہوں نے غزل گائیکی میں اپنا تمام فن بہت خوبصورتی سے مکس کر دیا تھا۔ آج غزل جو سب سے مشہور گانے کی صنف ہے، اس میں بیگم صاحبہ کا بہت رول ہے۔

ملکہ غزل کہلانی والی بیگم اختر ہمیشہ ہمارے دلوں پر راج کرتی رہیں گی۔

(آزاد ترجمہ و تلخیص ؛ حسنین جمال)

بیگم اختر کا ذکر ہو اور ہوا میں گرہ لگانے کا کوئی نمونہ نہ سنا جائے۔  یہ تو خلاف تہذیب ہو گا۔ آئیے بیگم صاحبہ کی گائی جگر مراد آبادی کی ایک غزل سے لطف اندوز ہوں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain