سید مودودی‫‌ کی یادیں اورباتیں


ایک پختہ عمر کے پرجوش مولوی منبر رسول پر بیٹھ کر زور خطابت دکھا رہے تھے۔ ہم نویں جماعت کے 2 طالب علم بھی سامعین میں موجود تھے۔ مولوی صاحب اکثر موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا سے جلسوں میں تقریر کرنے کے لئے میرے شہر جھنگ آیا کرتے تھے۔ زور خطابت میں مولوی صاحب نے سید مودودی کے ساتھ ملتے جلتے ایک ایسے لفظ کا اضافہ کیا کہ انہیں دائرہ اسلام سے خارج کردیا۔ ہم طلبا نے یقین کر لیا کہ جب ایک ذمہ دار عالم دین منبر رسول پر بیٹھ کرسید مودودی کے خلاف فتویٰ دے رہا ہے تو بات درست ہوگی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اور چند سال بعد ہم بی۔ اے کے آخری سال میں پہنچ گئے۔ کالج میں طلبا کے درمیان مسئلہ ختم نبوت پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ آخر ربوہ ہمارے شہر کے قریب ہی تو تھا۔ شہر میں علما بھی اس موضوع پر دھنواں دار تقریریں کرتے رہتے تھے۔ کسی نے سید مودودی کا ایک چھوٹا پمفلٹ”مسئلہ ختم نبوت” پڑھنے کے لئے دیا۔

یہ پہلی تحریر تھی جو میں نے سید صاحب کی پڑھی۔ بات سمجھانے کا انداز اور استدلال روایتی علماءسے بالکل مختلف لگا۔ اورپھر تحریک اسلامی جھنگ کی ننھی منھی لائبریری چند ماہ میں پڑھ ڈالی گئی۔ تب رہائش اپنے ڈیرہ پر ہی تھی۔ یہ لٹریچر اپنے کھیتوں میں موجود درختوں کے سائے میں بیٹھ کر پڑھا گیا۔ معلوم ہوا کہ اسلام تو ایک پورا نظام زندگی ہے۔ صرف مذہب نہیں ہے۔ انہیں دنوں میں ضلع ساہیوال کے قصبے قبولہ میں ایک پروگرام میں شرکت کی۔ نماز فجر کے فوراً بعد ایک وسیع گھر کی چھت پر ملتان سے آئے ہوئے ایک بزرگ نے درس قرآن دیا۔ میری یادداشت کے مطابق ان کا نام محمد خان ربانی تھا۔ اس درس قرآن کا اثر نصف صدی گزرنے کے بعد اب بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ مولویانہ طرز کے دروس قرآن سے بالکل مختلف۔ اور پھر اسی سال 1966ء کے آخر میں سید صاحب نے جھنگ کا دورہ کیا۔ موجودہ اکابرین جماعت اسلامی جھنگ کے پاس تب ڈھنگ کا کوئی مکان نہیں تھا۔ سید محترم کو ایک روایتی نواب صاحب کے کھلے سے گھر میں ٹھہرایا گیا۔ ہم تقریباً 10 طلبا نے ان سے ملاقات کی۔ سید محترم سفید کرتے اور کھلے پاجامہ میں تھے۔ مجھے ان کے بالکل ساتھ بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ عالم اسلام کے ایک بڑے انسان کو ہم اپنے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ سوالات تو ایسے ہی سطحی سے تھے جیسے کہ طلبا کے ہوتے ہیں۔ لیکن جوابات خوبصورت سادہ اردو میں اور بہت ہی مدلل۔

اسی رات نواب صاحب کے کھلے صحن میں انہوں نے جلسہ سے خطاب فرمایا۔ جلسے میں بھی سید صاحب باتوں اور مسائل کو ٹھہر ٹھہر کر اور سکون سے سمجھا رہے تھے۔ ہمارے کئی ساتھیوں نے ان کی پوری تقریر نوٹ کرلی تھی۔ پرجوش خطیبوں اور جذباتی مولویوں کے اس شہر میں ہمیں سید مودودی بالکل ہی مختلف لگے۔ بعد میں انہیں لاہور کے کئی پروگراموں میں بھی سنا۔ طلباءکا ایک پروگرام میری یادداشت کے مطابق لاہور کے داروغہ والا علاقے میں تھا۔ مختصر خطاب کے بعد سوالات و جوابات کا مرحلہ شروع ہوگیا۔ پرچیاں آتی رہیں اور وہ مختصر وجامع جوابات دیتے رہے۔ سید صاحب کو یقین تھا کہ سوالات سے ہی علم کے خفیہ گوشے کھلتے ہیں۔ اس سے پہلے روایتی علما کی تقریروں کے بعد سوال وجواب کا یہ سلسلہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ یہ صورت حال بھی میرے لئے متاثر کن تھی۔ ایسے پروگراموں میں آنے کا یہ بھی فائدہ تھا کہ تحریک کا مزید لڑیچر حاصل کیا جائے۔ مولانا محترم کا درس قرآن ہوتا یا تقریر وہ سوالات وجوابات کے لئے وقت ضرور نکالتے تھے۔ لوگوں کو اطمیناں اپنے سوالوں کے مدلل جوابات سے ہی ہوتا تھا۔

جب ہم سرکاری ملازمت میں آئے تو “تنظیم اساتذہ پاکستان”کی شکل میں تحریک اسلامی موجودتھی۔ سید صاحب نے اپنا آخری پبلک خطاب بھی اساتذہ کی اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے فیصل ایڈیٹوریم پنجاب یونیورسٹی نہیں آ سکے تھے۔ ہم اساتذہ 5۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور آئے تھے۔ انہیں آخری دفعہ دیکھا اور سنا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی بیماری شدت اختیار کرگئی۔ اور وہ بفیلو امریکہ علاج کے لئے تشریف لے گئے۔  22 ستمبر 1979ء کو امریکہ کے ہسپتال میں ہی یہ سورج غروب ہو گیا تھا۔ (ڈاکٹروں نے سید صاحب کے کمرے سے باہر آکر یہی الفاظ استعمال کئے تھے) ہم ساتھیوں کی شدید خواہش تھی کہ ان کے جنازہ میں شرکت کی جائے۔ لیکن لوکل حکومتوں کے الیکشن میں ڈیوٹیوں کے باعث ہم اس سعادت سے محروم رہے۔

خبروں میں سنا گیا کہ قذافی سٹیڈیم بھر گیا تھا۔ بہت سے لوگ اندر نہ جا سکے تھے۔ جھنگ سے گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور تبادلہ ہونے کے بعد ہم دوستوں نے 22 ستمبر 2003ء کو ان کی قبر پر جانے کا پروگرام بنایا۔ سید صاحب جہاں عصری مجالس کے لئے بیٹھتے تھے۔ دیکھا گیا وہیں 2۔ قبریں بنی ہوئی ہیں۔ دوسری قبر ان کی بیگم کی تھی۔ قبروں پر مٹی کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ لوح مزار توتب لگتی اگر مزار بنتا۔ حکم رسولﷺ کے مطابق کچی قبریں۔ لیکن ان کا سب کچھ تو پوری دنیا میں موجود ہے۔ ان کی فکر سوچ اورتصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء پر اثر ڈالا۔ دنیا میں اسلام کی موجودہ پزیرائی سید مودودی اور شیخ حسن البناء کی فکر کا نتیجہ ہے۔ بیسویں صدی میں عثمانی خلافت اپنے خاتمے سے پہلے ہی سکڑنا شروع ہوگئی تھی۔ یورپ سے ترکی دستے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ اور پھر پہلی جنگ عظیم میں یورپ کے مرد بیمار کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیاگیا۔ ترکوں کے اصل مادر وطن کو کمال اتاترک نے اپنی بہادری سے بچا کر وہاں جمہوری نظام قائم کردیا۔ بیسویں صدی میں سید مودودی۔ علامہ اقبال اور حسن البناء کی فکر سے ہی امید کا دیا جلتا رہا۔ بعد میں سید قطب کی فکر نے مسلمانوں کو حوصلہ دیئے رکھا۔ کیا اسلامی اصولوں کے مطابق کوئی ریاست دور جدید میں قائم ہو سکتی ہے؟ کیا دینی قوانین کے مطابق دور جدید کا پیچیدہ معاشی نظام چلایا جا سکتا ہے؟ مادی اور سماجی علوم کو اسلامی تناظر میں کیسے پڑھایا جائے؟ ہم عقلی علوم میں آگے تو بڑھیں لیکن تصور توحید اور وحی کو ساتھ لیکر چلیں۔ مولانا کے لٹریچر میں ایسے ہی پیچیدہ اور نئے سوالات کے جوابات بڑی تفصیل سے دیئے گئے ہیں۔ کبھی اے۔ کے بروہی جیسے آئین وقانون کے ماہر ببانگ دہل کہاکرتے تھے۔ کہ قرآن و سنت میں”دور جدید کے لئے آئینی اصول”نہیں ہیں۔ لیکن جب جماعت اسلامی کا مقدمہ لڑنے کے لئے انہیں جماعت کا پورا لڑیچر پڑھنا پڑھا تو پھر ان کی رائے بالکل ہی بدل گئی۔ پھر وہ اسلام کے سفیر بن گئے۔

مجھے وہ تقریب اچھی طرح یاد ہے جو 1973ء میں فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ہوئی تھی۔ تفہیم القرآن 30۔ سالہ محنتوں کے بعد مکمل ہوئی تھی۔ معروف علمائے دین کے ساتھ مغربی لباس میں اے۔ کے بروہی سٹیج پرموجود تھے۔ تب تک تفہیم القرآن اور دوسرے لٹریچر کے مطالعہ کے بعد دین بطور نظریہ حیات کا تصور ان کے ذہن میں واضح ہو گیا تھا۔ مطالعہ نے ان کو بدل دیا تھا۔ وہ اپنی خوبصورت انگریزی میں قرآنی آیات کی تشریح کررہے تھے۔ شاید اسی موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ سید ابوالاعلی مودودی واحد سکالر ہیں جو نظریہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سوشلسٹ اور لبرل طبقہ تب کافی سرگرم تھا۔ تفہیم القرآن جس نے بھی پڑھی اس کو بدل گئی۔ الطاف گوہر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ اتنے متاثر تھے کہ تفہیم القرآن کے کچھ حصوں کا انگریزی میں ترجمعہ بھی کر ڈالا تھا۔ تفہیم القرآن کے علاوہ دینیات، خطبات، تنقیحات۔ الجہاد فی الاسلام۔ اسلامی ریاست، معاشیات اسلامی اور دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات ۔ جس نے بھی پڑھیں وہ سید کی فکر کا گرویدہ ہوگیا۔ سید کا لڑیچر اب پوری دنیا اور مختلف زبانوں میں پھیل چکا ہے۔ لوگوں کی سمجھ میں اب یہ بات آچکی ہے۔ کہ اسلام صرف مذہب نہیں جو چند عقائد اور عبادات تک محدود ہو۔ بلکہ پوری زندگی پر محیط نظام ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے دین نے کوئی ہدایت نہ دی ہو۔

سید کی فکر نے دنیا کے نامی گرامی لوگوں کو متاثر کیا۔ میاں طفیل محمد، غلام اعظم، عبدالقادر ملا، خورشید احمد، حسن البناء، سید قطب، ڈاکٹر یوسف القرضادی۔ امین احسن اصلاحی، ابو عمار یاسر قاضی، سید علی گیلانی اور ایسے ہی دیگر ہزاروں۔ وہ علمی لحاظ سے تحریک پاکستان کے لئے بھی کام کرتے رہے۔ “مسئلہ قومیت” کانگریسی علما کے جواب میں ہی لکھی گئی۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد اپنی جماعت کے کاموں کی طرف ہی توجہ دیتے رہے۔ اگر وہ عملاً مسلم لیگ کا کسی نہ کسی حدتک ساتھ بھی دیتے تو انہیں پاکستان میں کام کرنے کے لئے رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اور یہ ممکن تھا کہ پاکستان کے عوام میں ان کے پیغام کو زیادہ پزیرائی ملتی۔ مولانا محترم کی جماعت نے دینی بنیادوں پر علمی اور فکری کام توکافی کرلیاہے۔ زندگی کے تمام شعبہءحیات سے متعلق جدید طرز کی کتابوں سے لائبریریاں بھر دی ہیں۔ لیکن یہ بات باعث تشویش ہے کہ جماعت سیاسی لحاظ سے آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹتی جارہی ہے۔ آخر میں ان کا ایک قول۔ جب مولانا مودودی کو موت کی سزا سنانے کے بعد کہا گیا کہ آپ ایک ہفتے کے اندر اندراپیل کرسکتے ہیں۔ مولانا نے جواب دیا “مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بیکا نہیں کرسکتی”

حق مغفرت کرے عجب آزادمرد تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).