تری رہ میں کرتے تھے سر طلب۔۔۔۔


دروازے کا قفل کُھلنے سے جیسے خاموشی کا طلسم ٹوٹ گیا۔

بہت عالی شان ہال میں دور دور تک کسی کا پتہ نہیں، مگر ہر چیز تیار ہے، اپنی جگہ مکمل۔

میکس پلانک سینٹر سے متعلق یہ ہانک ہائوس ہے جہاں کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔ پرانی، شان دار عمارت۔ باہر لان میں درخت خاموشی سے کھڑے ہیں۔ ایک گلہری بھاگتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پھر درخت پر پُھرتی سے چڑھ جاتی ہے۔

ہال کے دوسری طرف ایک پوری دیوار تصویروں سے بھری ہوئی ہے۔ سائنس داں، مورخ، ماہرین معاشیات۔۔۔ اپنے اپنے شعبوں میں یکتائے روزگار۔ جیسے پوری عمارت کی خاموشی ان ہی کے احترام میں ہوں۔ آئن اشٹائن کی شبیہ میں دور سے پہچان لیتا ہوں۔ اچھا، یہ ٹیگور ہیں۔ ان کی تصویر یہاں کیسے نہ ہوتی۔

اس کے قرب و جوار میں آئن اشٹائن کا مکان بھی تھا۔ اب بھی موجود ہے، مجھے بتایا جاتا ہے۔

یہاں ہم بعد میں کافی پئیں گے، ہم دوسرے ہال میں چلے آتے ہیں اور اپنی کرسیاں سنبھال لیتے ہیں۔ اجلاس کی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔

برلن یونیورسٹی کے زیراہتمام مسلم ثقافت اور تمدن کے مطالعات کا مرکز قائم ہوا ہے۔ یہ گفتگو بھی اسی مرکز نے چھیڑی ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں نئی تحریک کی ادبی و سماجی معنویت، خاص طور پر علی گڑھ تحریک سے متعلق ادبی رجحانات اس کانفرنس کا موضوع ہیں اور دائرہ کار میں سرسید احمد خان، نذیر احمد اور شبلی آجاتے ہیں۔ سرسید پر طنزو تشنیع کے ادبی پیرائے میں اودھ پنچ کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ گفتگو میں حالی کا حوالہ کئی بار آیا لیکن مجھے بعد میں احساس ہوا کہ کوئی نہ کوئی مقالہ ان کو موضوع بنا کر بھی لکھا جانا چاہیے تھا۔ نئے پرانے، وہ اب بھی بہت سے طوفانوں کا مرکز ہیں۔ ان سے تجدیدِ ملاقات ہوتی رہنا چاہیے۔ 

افتتاحی اجلاس میں ڈیوڈ لیلی ولڈ بتا رہے ہیں کہ انھوں نے 1967ء میں علی گڑھ پر اپنے تحقیقی کام کا آغاز کیا تھا، تب سے لے کر اب تک ان مطالعات میں کیا بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان کی گفتگو جتنی غیررسمی تھی، اسی قدر دعوتِ فکر سے بھری ہوئی۔

1967ء میں وہ علی گڑھ پہنچے تو کام شروع کرنے میں کس قدر دشواریاں پیش آئیں۔ وہ اس وقت کے صدر مملکت ڈاکٹر ذاکر حسین سے بھی ملے۔ ذاکر حسین تھوڑی دیر کے لیے اندر گئے اور ٹیلی فون اٹھا کر کسی سے کہا، کیا بات ہے اس لڑکے کو کام کیوں نہیں کرنے دے رہے۔ اس کے بعد بہت سے دروازے خودبخود کُھل گئے۔

اس وقت کتاب یا رسالہ لائبریری میں بیٹھ کر پڑھنا ہی ممکن تھا۔ مطبوعہ مواد کو پڑھنے کے بعد ہاتھ سے نقل کرکے اندراج کرنا پڑتا تھا۔ بعد میں وہاں کے طالب علموں کی مدد لی کہ کتابوں، رسالوں کے اقتباسات نقل کرکے رکھیں۔ میرے پاس وہ نوٹس بکس اب تک رکھی ہوئی ہیں۔

ذاتی مشاہدات کے ذکر سے گزر کر وہ ان مطالعات میں آنے والی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔

سب سے اہم نظریاتی تبدیلیاں۔ ساختیات نے پچھلے زمانے کی آفاقیت (universalism) کو زک پہنچائی۔ آفاقی اور بے لچک قوانین کی جگہ رحجانات، چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اضافی (relative) ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے مستشرقین کا علم ناقابلِ اعتبار ٹھہرا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مابعد نوآبادیاتی مطالعات، باقاعدہ انڈسٹری بن گئی۔ ان ہی کے زیراثر امریکا میں جنوبی ایشیا کے مطالعے میں بھی دور رس تبدیلیاں آئیں۔

ان کے اخذ کردہ نتائج سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر یہ اس آدمی کے مشاہدات پر مبنی تھی جو ان تبدیلیوں میں شامل رہا ہے، دور سے بیٹھ کر تماشا دیکھنے والا نہیں رہا۔

اپنی کتاب کا ذکر وہ روا روی میں کرتے ہیں۔ اس کتاب کو چھپے ہوئے بہت عرصہ گزر گیا، اس کو پیچھے چھوڑیے اور آگے نکل آئیے، وہ کہہ رہے ہیں۔

مجھ سے رہا نہیں جاتا۔ میں سوال کرتا ہوں۔ کیا اس وجہ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ موضوع برمحل نہیں رہا ان کے نزدیک پرانا ہوگیا۔ یا پھر اس کتاب کے بعد نیا اور مختلف کام سامنے آیا ہے جس نے اس کتاب کے نتائج کو نظرثانی کا محتاج بنا دیا ہے۔

وہ بہت تحمّل سے مجھے سمجھانے لگتے ہیں کہ تحقیق کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس میدان میں کوئی کتاب حتمی نہیں ہوتی۔

گُڈ بائے ٹو سرسید__ محمد حسن عسکری، انتظار حسین اور سلیم احمد نے جس نقطۂ نظر سے سرسید کو دیکھا ہے، اس سے الگ زاویہ سائمن فیوکس (Simon Fuchs) کے مقالے میں نظر آیا۔ سرسید تقلید کے مخالف کے طور پر۔ یقین کے حصول میں تقلید کا مسئلہ۔ یقین کی یہ تلاش کہاں سے آئی۔ Where does this quest for unassailable religious conviction come from? اسی سے سراغ ملے گا کہ یہ نسل جدیدیت کے تجربے سے کس طرح گزری اور ان کے لیے جدیدیت کے معنی کیا ہیں۔ میرے لیے سوال کا یہ حصّہ زیادہ اہم ہیں۔

سرسید کے لیے دوستی کا مفہوم صرف افراد کے درمیان نہیں تھا بلکہ اس کے سیاسی معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ ڈیوڈ لیلی ویلڈ کا مقابلہ برادری کے تصوّر سے شروع ہوتا ہے، پھر اس رُخ پر آتا ہے کہ کیا سرسید کے نزدیک مسلمان غیرمسلم سے دوستی کرسکتے ہیں، مثلاً عیسائی سے۔ اس میں برطانوی سلطنت کے اندر مسلمان کے مقام کا معاملہ بھی مُضمر ہے۔ پھر کیا دوستی مذہب کی نہیں، صنف کی دیوار بھی توڑ سکتی ہے؟ سوال جواب کے مرحلے میں گفتگو راس مسعود اور ای ایم فورسٹر کی دوستی تک پہنچ گئی۔ ’’پیسیج ٹو انڈیا‘‘ کا اختتامیہ ایک نئے حوالے سے معنی خیز معلوم ہوتا ہے۔ صوفیہ صدیقی نے اپنے مقالے میں اس موضوع کو بالکل مختلف زاویے سے دیکھا۔ کرسٹینا ایسٹرہیلڈ نے نذیر احمد کی اس کتاب کو اٹھایا جس پر سب سے کم بات ہوتی ہے، یعنی رویائے صادقہ۔ اس ناول کے مجموعی معنی کے لیے انھوں نے سوال اٹھایا کہ خواب کی فنّی معنویت کیا ہے، یعنی خواب بطور literary device۔ اس حساب سے: the dream as an interactive space, a space for negotiation or resolution/solution.

کیا خواب حقیقت کا کوئی فزوں تر مظہر ہیں، یا روز مرہ حقیقت سے بالاتر کوئی اور حقیقت۔

انہوں نے نشان دہی کی کہ جس ظرافت کا مظاہرہ نذیر احمد نے جابجا اپنے لیکچرز میں کیا ہے، رویائے صدقہ ان سے بالکل تہی نظر آتا ہے۔

خوابوں پر بات چلتی تو سورۂ یوسف کی تفسیر میں خوابوں پر سرسید کے بیان کا ذکر آیا۔ حیات جاوید کے آخر میں حالی نے سرسید کے چند خواب درج کیے تھے جو بعد میں نکال دیے گئے، ان کا ذکر ڈیوڈ لیلی ویلڈ نے کیا۔

مجھے یہ کہنا تھا کہ نذیر احمد قصّہ گوئی سے علیحدہ ہو کر مذہبی موضوعات کی طرف آگئے مگر ان کے اسلوب پر قصّہ گوئی کا اثر اس قدر گہرا تھا کہ وہ قرآن مجید کے ترجمے میں بھی اس سے بچ نہیں سکے۔ ناول نگار کے طور پر ان کی مشکلات کا اندازہ امہّات الاّمہ کے بیانیے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ میرا اپنا مقالہ ’’ابن الوقت‘‘ پر تھا۔ یہ ناول مجھے اس عہد کے مسلمانوں کی اجتماعی کشمکش کا بڑا موثر بیانیہ نظر آتا ہے۔ وہ عنصر جسے محمد حسن عسکری نے مغرب و مشرق کی آویزش قرار دیا تھا۔ مقالے پر گفتگو بہت سیر حاصل ہوئی۔ اصل میں کانفرنس کا انداز بھی اس قدر کشادہ تھا کہ باہمی افہام و تفہیم اور مکالے کی بہت گنجائش تھی جو ہمارے ہاں ادبی اجتماعات سے غائب ہو کر رہ گئی ہے۔

اگلے دن مارگرٹ پرنائو(Margrit Parnau) کا مقالہ واقعی چشم کشا تھا۔ انھوں نے ایک نئے تصوّر سے اردو ادب کے مطالعے کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے ’’جذبات کے نظریے‘‘ کے حوالے سے کئی اہم مضامین لکھے ہیں۔ (Theory of Emotions) جس سے اردو ادب کو دیکھنے، سمجھنے کا ایک نیا طریقہ سامنے آتا ہے۔ ان کا مقالہ سرسید اور وقت کے حوالے سے شروع ہوا اور اس کا موضوع یہ تھا کہ ’’ماڈرن‘‘ ہونے کے کیا معنی ہیں۔ سرسید کو ماڈرن ہونے کے تصوّر سے دیکھنا مشکل ہے اس لیے کہ modern اور نئے کے درمیان تفریق دھندلی ہو جاتی ہے۔ سرسید نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا تو کیا ان کے استدلال میں یہ نقص رہ گیا؟ پھر ماضی سے سرسید کا رشتہ کیا ہے۔ کیا ماضی ہمیں کچھ سکھا سکتا ہے؟ کیا ماضی میں حال کے لیے معنویت یا resource موجود ہے۔ وہ سرسید کے حوالے سے جدیدیت کے مطالعے کا آغاز کررہی ہیں۔ پھر سوال یہ آتا ہے کہ تجربہ اور جذبات کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ وقت کے تصوّر پر ان تجربات کا کیا اثر پڑتا ہے۔ جدیدیت کی علامت کے لیے سلیم احمد نے ریل گاڑی کی علامت استعمال کی تھی۔ سیرسید کے لیے ریل کا سفر کس طرح کا تجربہ بنا؟ جدیدیت کا ذکر وہ تعلیم کے حوالے سے دیتے ہیں مگر مجھے یاد آیا کہ نذیر احمد کے ایک لیکچر میں ریلی کی پٹڑی پر سامنے آجانے والے دو بیلوں کا ذکر ہے۔

جو بات ایک مختصر سے مقام پر ہورہی ہے، اس کو معنی ایک عالم گیر تناظر میں حاصل ہوتے ہیں۔ لیلی ویلڈ کا کہنا تھا کہ سرسید اپنی تحریروں میں ایک ہی مقام پر ٹہر نہیں جاتے بلکہ ان کے زاویے میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ مارگرٹ کا کہنا تھا کہ یہ تصوّرات کی مورّخ‘‘ ہیں اور ان کا استدلال اسی طور آگے بڑھتا ہے۔ جدیدیت کی اس بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پھسلواں چٹان پر پائوں جمانے کے مصداق ہے۔

بین بجا کر چندہ جمع کرنے والے جوگی کے طور پر سرسید کا کارٹون اودھ پنچ نے شائع کیا۔ اودھ پنچ کے مزاح اور خاص طور پر افسانوی ادب کے بارے میں لندن سے آنے والی نوجوان خاتون مریم سکندر نے مقالہ پڑھا۔ منشی سجاد حسین اور ان کا ناول احمق الذین ان کا خاص موضوع تھے۔ ان کا مقالہ مجھے خاص طور پر اہم معلوم ہوا کہ یہ جہت اور یہ کتاب طاقِ نسیاں پر پہنچ گئی ہیں۔ ان کا شاذ و نادر ہی ذکر ہوتا ہے۔

مریم سکندر نے اپنے مقالے میں ’’شناخت کی سیاست‘‘ identity politics کا عمدگی سے تجزیہ کیا کہ اس ناول کو بالکل ناول کی اس وضع کو سمجھنے کے لیے اہم حوالہ ثابت ہوتی ہے۔ ان کا شکوہ بجا تھا کہ مزاحیہ عناصر کی فراوانی کی وجہ سے ایسے لکھنے والوں کو سنجیدہ مطالعے کا موضوع نہیں سمجھا گیا، خاص طور پر اس لیے کہ اردو ادب کے علماء ان چیزوں کو نچلی سطح کا یا low سمجھتے ہیں۔

ان کی یہ شکایت بالکل بجا ہے۔ تاہم میں ان کے تجزیے کے اس حصّے سے متفق نہیں ہوسکا جہاں خاکہ اڑانے اور خاکہ نگاری میں تعلق بیان کرتی ہیں۔ خاکہ نگاری کا معاملہ میرے نزدیک اس سے مختلف ہے۔

میکس بروس کا مقالہ شبلی کے سفر نامۂ روم و مصر و شام کے بارے میں تھا اور رخشندہ جلیل نے علی گڑھ کے مشاہیر کی تمام تر مخالفت کے باوجود شیخ عبداللہ نے لڑکیوں کے لیے جو اسکول قائم کیا تھا، اس کی داستان پوری تفصیل کے ساتھ سنائی۔ یہی یہ شیخ عبداللہ، رشید جہاں جیسی شعلۂ جوالہ کے والد تھے اور اس اسکول میں عصمت چغتائی نے بھی پڑھا۔ یہ ایک اور تحریک ہے جس کی اپنی جگہ بہت معنویت ہے۔

میکس نے اپنے مقالے میں علم و فضل کا دریا بہا دیا۔ شبلی کے مقامی حوالوں کے بارے میں تحقیق کی کہ وہ کون تھے، کیا کرتے تھے۔ پھر یہ بات سمجھ میں آئی کہ شبلی عربی زبان و ادب کے ذریعے سے معاصر دنیا میں داخلے کا راستہ ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کو انگریزی استعمار سے شکایت تھی اور اس کے متبادل رابطوں کی جستجو۔ میکس نے اس سفرنامے کو انگریزی میں منتقل کیا ہے اور اب کے مفصل حاشیے رقم کررہا ہے۔

رزاق خان نے مسافران لندن کا بڑی تفصیل سے تجزیہ کیا کہ لندن کا شہر سرسید کے لیے عجائبات کی ایک location کس طرح بنا اور اس کے سوانحی اور ادبی معنی کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مقالہ بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ لکھا گیا تھا، پھر اس پر بحث بھی سیر حاصل ہوئی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ نئے دریچے وا ہورہے ہیں۔

میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ کسی نے ہال کی کھڑکی کھول دی تھی۔ تازہ ہوا کے ساتھ روشنی بھی اندر آرہی تھی۔

برلن کی شام میں رنگ بھرتے جا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).