عمرکوٹ کے عرفان مسیح سے بہاولپور کے ڈاکٹر صغیر سمیجہ تک


عمرکوٹ (اندرون سندھ) کے سول ہسپتال میں مبینہ طور پر کسی ڈاکٹر نے عرفان نامی ایک خاکروب (جو کہ گٹر کی صفائی کرتا ہوا بےہوش پایا گیا تھا) کو دیکھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ معائنے سے پہلے اس کے جسم کی صفائی کی جائے۔ عرفان زندگی کی بازی ہار گیا اور اس خبر کے نشر ہونے کے بعد عوام الناس کے لئے تمام ڈاکٹر درندے، قصائی، اور پتھر دل ہو گئے۔ گالیوں کا سیلاب ہے جو مجھے کمنٹس میں دیکھنے کو ملا۔

میرے ذہن میں ہاؤس جاب کے پہلے چند ہفتوں کا وہ قصہ آج بھی تازہ ہے جب تین لوگ ایک بوڑھے فالج زدہ مریض کو اسٹریچر پر لاد کر ایمرجنسی لائے تھے اور مجھے اس مریض کو پیشاب کی نالی ڈالنے کا کام سونپا گیا تھا۔ میں جب اس مریض کے پاس آیا تو بدبو کے بھبھکے نتھنوں میں گھس کر دماغ سُنکیے دے رہے تھے۔ میں نے جب ساتھ آنے والوں سے پوچھا کہ وہ مریض کے کیا لگتے ہیں تو معلوم ہوا کہ دونوں بیٹے اور بہو رانی موجود ہے۔ میں نے کہا کہ آگے آ کر پیمپر کھولیں تو سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر بڑا بیٹا بولا کہ ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی کھول لیں۔ وہ جس کو ”دھونا“ شاید اس بوڑھے باپ نے سکھایا تھا آج ہاتھ لگانے سے انکاری تھا۔ میں نے پیمپر کھولا تو بمشکل غشی کھانے سے بچا، اس شخص کا پیمپر نہ جانے کب سے بدلا نہ گیا تھا، اور اس کے اپنے جسم کی گندگی پیمپر میں جمع ہوتے رہنے سے اس کے کولہوں پے زخم بن چکے تھے جن سے پیپ رِس رِس کر پیمپر کے اندرونی اجزاء کے ساتھ ملی ہوئی نظر آتی تھی۔ میں نے اس گندگی کے اندر ٹٹول کر اس کا عضو برآمد کر کے پیشاب کے راستے میں نالی (Foley‘s Catheter) ڈالی تھی۔ جب کہ صاحب زادے اپنی ناک میں کپڑا ٹھونسے ہاتھ پیچھے باندھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔

اکثر اوقات مریضوں کے اٹینڈنٹ آتے ہیں کہ مریض کی خوراک والی نالی (NG tube) باہر نکل آئی ہے، دوبارہ اندر ڈال دیں۔ ناک کے ذریعے داخل کر کے یہ نالی معدے تک پہنچائی جاتی ہے۔ بلغم سے لتھڑی ہوئی نالی پکڑ کر ہم دھیرے دھیرے اندر کرتے ہیں جب کہ اٹینڈنٹ اپنی اُبکائیاں چھپا رہے ہوتے ہیں۔

سرجری کی ہاؤس جاب روٹیشن کے دوران کئی مریض پاخانے اور ہوا کا اخراج رک جانے کی شکایت سے آتے تھے، جن میں آنتوں کے بلاک ہونے سے یہ مسئلہ بنتا تھا۔ میں نے خود کئی مرتبہ ایسے مریضوں کی ”manual evacuation“ کی ہے، جس میں پاخانے والی جگہ (مقعد) میں انگلی ڈال کر براز باہر نکالا جاتا ہے تاکہ بلاکیج دور ہو اور مریض لمبے چوڑے آپریشن سے بچ جائے۔

شوگر کی وجہ سے جن مریضوں کے پیروں کے زخم خراب ہو چکے ہوتے ہیں ان میں سے ایسی ہولناک سڑانڈ اٹھتی ہے کہ مریض ابھی ہسپتال کے گیٹ پر ہوتا ہے مگر اندر بیٹھے ڈاکٹر کو پتا چل جاتا ہے کہ ”ڈائیا بیٹک فُٹ“ آ گیا ہے۔ پٹی اتارو تو کمرے میں اٹینڈنٹ بھی کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اور مریض کے اسی پیر پے جُھک کے سرجن بڑی احتیاط سے گندے ماس کو صحت مند ماس سے الگ کر کے اتارتا ہے اور زخم کی صفائی کر کے مریض کو اٹینڈنٹ کے حوالے کرتا ہے۔

میڈیکل ایمرجنسی میں ڈیوٹی کے دوران جب میرے پاس ایک مریض خون کی الٹی کی شکایت لے کر آیا تو میں نے فوری داخلہ چارٹ بھرنا شروع کر دیا۔ اس دوران سیدھا لیٹے ہوئے اس مریض کو پھر خون کی الٹی آ گئی، جو کہ اس کے پھیپھڑوں تک پہنچ کر قاتل ثابت ہوتی اگر میں نے اس کو پکڑ کر سائیڈ پر پانسا نہ پلٹایا ہوتا۔ داخلہ چارٹ بھرنے کے بعد اس دن میں نے خون اور لوتھڑوں میں بھیگے ہوئے اپنے پیروں پر پانی ڈالتے ہوئے اطمینان محسوس کیا تھا، کہ مریض بچ گیا۔ کالے یرقان سے متاثرہ شخص کے خون سے نہا جانے پر پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات نے بعد میں مجھے بے چین کیے رکھا۔

بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے ڈاکٹر صغیر سمیجہ اسی طرح ایک کانگو وائرس سے متاثرہ مریضہ کی سرجری کرتے ہوئے اس سے یہ وائرس خود کو لگنے کے سبب موت کا شکار ہو گئے تھے اور وکٹوریہ ہسپتال کے تمام ڈاکٹروں کو آغا خان ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

اب بھی کوئی مریض سانس کی شکایت لے کر آتا ہے اور میں اپنی سٹیتھوسکوپ سے اس کے قریب ہو کر چھاتی سُنتے ہوئے اپنے منہ پر اس کی کھانسی برداشت کرتا ہوں تو اکثر اس کی جان بچانے کے بعد ہی خیال آتا ہے کہ اس کو ٹی بی ہوئی تو مجھے بھی لگ سکتی ہے۔ اکثر اوقات اٹینڈنٹ ایمرجنسی میں بتاتے نہیں ہیں اور جان بچانے کی جلدی میں نازک حالت میں لائے گئے مریضوں کے بارے میں ہم بھی سوال نہیں کر پاتے کہ اس نے پیشاب پاخانہ کپڑوں میں تو نہیں کر رکھا، اور معائنے کے دوران جب ہاتھ خراب ہوتے ہیں تو جواب مل جاتا ہے۔

خطرناک متعدی اور خون سے پھیلنے والی بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کو ہم اپنی صحت کے رِسک پر بھی دیکھتے ہیں۔ مریضوں کے جسم سے پیدا ہونے والی ہر قسم کی گندگی ہمارے لئے روٹین کی چیز ہے۔ ہم نے کبھی شکایت نہیں کی۔ کبھی یہ قصے سنا کر داد و تحسین نہیں چاہی۔ ہمیں پتا ہے کہ یہ ہمارے کام کا حصہ ہے۔ انسانی جسم ہماری فیلڈ ہے۔ اس سے برآمد ہونے والی ہر چیز سے ہم نے ہی نمٹنا ہے۔ اپنا فرض پورا کرتے ہیں، روزی کماتے ہیں اور انسانی خدمت کا اجر اللہ سے طلب کرتے ہیں۔

مگر یہ سب کر کے بھی اگر کسی ایک لاپروا ڈاکٹر (جو کہ اب تک صرف ’مبینہ‘ نیگلیجنس ہے، حتمی طور پے ثابت ہونا باقی ہے) کی وجہ سے پوری ڈاکٹر برادری کو قصائی اور پتھر دل ہونے کا طعنہ دیا جانا ہے تو اس سے بڑا ظلم اور زیادتی ممکن نہیں ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو آپ کے والدین کو اس حالت میں ڈِیل کرتے ہیں کہ جس حالت میں آپ بھی ان کو چھونے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہی صغیر سمیجہ شہید جیسے لوگ نکلتے ہیں جو کانگو سے متاثرہ بچی کا آپریشن کرتے ہوئے اس مہلک بیماری کا شکار بنے اور فرض کی راہ میں جان کا نذرانہ دے گئے۔ ہم میں سے ادیب رضوی بھی پیدا ہوتے ہیں جن کی خدمات لازوال ہیں۔ اگر عوام ہمارا حوصلہ نہیں بڑھا سکتے تو خدارا کم از کم ڈاکٹروں کی نئی نسل کو اپنے رویوں سے اور اس ملک سے بے زار مت کریں۔ اس میں سب کا نقصان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).