جمہوریت کی لچکدار شاخ اورآمریت کا بے لچک تنا  


جمہوریت لاکھ خامیوں اور کمزرویوں کے باوجود آمریت جیسی ہر گز نہیں ہوتی۔ سرشام ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھ کر جو جمہوریت کی مخالفت میں تجزیے داغتے ہیں کبھی وہ خود سے سوال کریں کیا مشرف دور میں بھی وہ اتنے ہی آزاد اور خود مختار تھے۔ قوم کبھی 2007 کی یادوں کو تازہ کرے۔ آمرکے خلاف بولنے اور لکھنے والوں سے قلم اور کیمرے چھین لئے گئے تھے۔ آمر کی مداح سرائی نہ کرنے پر انہیں اسیری کا مزہ چکھایا گیا تھا۔ آج جمہوریت کی نرم شاخ پر تنقید کا کلہاڑا چلایا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں ،اقتدارکی مسندوں پر براجمان حکمرانوں سے دل کھول کر اختلاف کیا جا تا ہے مگر جمہوری حکومت ہرگز کسی صحافی کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر اٹھنے بیٹھنے اور ہاتھ اوپر کرنے کا اشارہ نہیں کر تی۔ شدید ردعمل یہ ہو تا ہے کہ اینکر یا چینل کا بائیکاٹ کردیا جا ئے۔ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں عجب کرپشن کی غضب کہا نیاں چلتی رہیں مگر کسی چینل پر آنچ آئی نہ کسی اینکر کے خلاف انتقامی کارروائی ہوئی۔ بوٹوں کی ٹاپ اور بھاری آواز سنانے والوں کے ستم یاد ہوں تو جمہوریت کا آمریت سے موازنہ شاید کوئی نہ کرے۔

جمہوری دور میں یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیے گئے ،آمریت میں کیا یہ ممکن تھا؟ آمریت ہوتی ہے تو ججز پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے ہیں ،نظریہ ضرورت کے تحت انصاف کے ممبر پر بیٹھ کر قانون کا جنازہ نکالتے ہیں اور جمہوریت ہوتی ہے تو وزیراعظم کے خاندان کو گاڈفادر ،حکومت کوسسلی مافیا کہنے کی جرات دکھاتے ہیں۔ یہ فرق ہو تا جمہوریت کی لچکدار شاخ اورآمریت کے بے لچک تنے میں۔

دوتہائی نشتوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کے بیٹے حسن اورحسین نواز عدالتوں کا طواف کر رہے ہیں، دو دو گھنٹے انتظار اور چھ چھ گھنٹے تک جے آئی ٹی کے تلخ سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔ کیا عدالتی فیصلوں پر عمل داری اور احکامات کا پاس کبھی آمریت میں بھی ہوتا ہے۔ مشرف کے بیٹے بلال کیا کبھی ایسے گردن جھکاتے۔ یہ جمہوریت کے ثمرات ہیں کہ آج ہم بڑے بڑے ناموں کو عدالت کے سامنے پیش ہوتے اور ان کا محاسبہ ہو تے دیکھ رہے ہیں۔ پرویز رشید، مشاہد اللہ، نہال ہاشمی جیسے لوگوں کو گھر جاتا دیکھ رہے ہیں۔ عدلیہ کی یہ بالا دستی ہرگز آمریت میں ممکن نہیں۔ آمر کسی کو جواب دہ نہیں ہو تا جب کہ منتخب نمائندوں کو ہر پانچ سال بعد عوام سے ووٹ مانگنے ہو تے ہیں اس لئے وہ عوامی امنگوں کا احساس رکھتے ہیں۔ جب عوام اپنے نمائندوں سے ناراض ہوتے ہیں توپھر ان کا حال پیپلز پارٹی جیسا ہوتا ہے۔ الیکشن 2007میں وفاقی حکومت کا پھل کھانے والی پارٹی 2013کے عام انتخابات میں پنجاب سے صرف دو نشتیں حاصل کر سکی۔ اور اب وہ سندھ میں خود کو بہتر کرنے ،سیاسی مشینری کو بروئے کار لانے ،عوام میں مقبول ہونے اور اپنے بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔

آمریت پورے معاشرے کو چوس کر رس نکالتی ہے اور قصیدہ گو اس مشروب کا مزہ لیتے ہیں۔ مخصوص طبقہ جس کے آمرانہ نظام سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں صرف وہی انگلیوں پراس کے کلمے کی تسبیح چلاتے ہیں۔ اہل نظر ،اہل قلم اور اہل زبان جہاں ٹٹول ٹٹول کر جمہوریت کی شاخ سے کیڑے نکالتے ہیں ،کیا بہتر نہ گا وہ آمریت کے بے لچک تنے کو جنت کا پھل دار درخت ثابت  کرنے والوں پر بھی دلائل سے حقائق واضح کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).