ہمارے بچے بھوک، محرومی اور جہالت کی جارحیت کا شکار ہیں


 پاکستان میں ہر روز  22 لاکھ بچے بھوکے سو جاتے ہیں، سکول کٹ نہ ہونے کی وجہ سے 19 لاکھ بچے ہر سال سکول چھوڑنے پر مجبور ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک چوتھائی سے زیادہ بچے سکول ہی نہیں جاتے جو کہ باقی تمام ممالک کے سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے، بیماریوں کی بر وقت تشخیص نہ ہونے کے باعث 8% بچے اپنی پانچویں سالگرہ تک دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

ایک فلاحی ادارے مسلم ہینڈز کی جانب سے لگائے جانے والے تخمینہ کے مطابق افلاس کے مارے بھوکے سونے والے بچے کا ایک وقت کے کھانے کا سالانہ خرچہ 6545 روپے ہے، ایک بچے کی سکول کٹ جس میں وردی، جوتے اور کتابیں شامل ہیں کا سالانہ خرچہ 5980 روپے ہے، اور وہ بچے جو امراض کی بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث اپنی پانچویں سالگرہ تک بھی نہیں پنہچ پاتے ان کے سالانہ دو مرتبہ طبی معائنہ کا خرچہ  485 روپے فی بچہ ہے۔

 میں کوئی ماہر معاشیات نہیں نہ ہی خدمت خلق کا علمبردار ہوں، نہ ہی کسی چندے کی اپیل کرنے لگا ہوں بلکہ صرف ایک شکوہ ہے اپنے اعلیٰ و ذیشان حکمرانوں سے کہ اوپر دئے گئے تخمینہ جات کا ٹوٹل خرچہ اتنا بھی نہیں جتنا آپ اپنے منصوبہ جات کی تشہیری مہم پر لگا دیتے ہیں۔ چینلز پر مستقبل کے منصوبہ جات کا اعلان کرتے منہگے ترین اشتہار، سڑکوں پر لٹکتی آپ کی تصویریں، اخباروں میں آنے والے اشتہارات پر آپکے مسکراتے چہرے یقیناًٰ کروڑوں عوام کے دلوں کی تسکین کا باعث بنتے ہوں گے لیکین کیا یہ ان ننھی کلیوں کی زنگیوں سے بھی زیادہ ضروری ہیں جو ہر سال طبی معائنہ نہ ہونے اور بیماریوں کی بر وقت تشخیص نہ ہونے کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کیا یہ زیادہ ضروری ہے مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت سے جو سکول کٹ نہ ہونے کی وجہ سے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔

کیا آپ کی ذاتی تشہیر 22 لاکھ بچوں کی خوارک سے زیادہ ضروری ہے جو ہر روز بھوکے سو جاتے ہیں۔  ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اس حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں لیکین متعلقہ رپورٹس بھی آپ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے باوجود بھی متاثرہ بچوں پر مشتمل ہے اور ہم آپ کی تشہیر کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کے خاتمے کا بھی مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ صرف چند فیصد ہی اس کام پر خرچ کر لیا جائے تو بہت مناسب ہو جائے گا اورضرورت اس امر کی بھی ہے کہ آج جب 4 جون کو دنیا بھر میں جارحیت سے متاثرہ بچوں کا عالمی دن منایا جائے تو ان تمام بچوں کے لئے بھی کچھ عملی اقدامات کئے جائیں جو چائلڈ لیبر کی زد میں آکر والدین، دکانداروں، ہوٹل مالکان اور ورکشاپس والوں کی جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں، طیبہ جیسی ان بچیوں کا بھی خیال کیا جائے جو پڑھے لکھے اشرافیہ کے تشدد کا شکار ہو رہی ہیں، قصور کے ان بچوں کی آہیں اور سسکیاں بھی آپ کی توجہ کی طلبگار ہیں جنہیں درندہ صفت افراد نے سیاسی پشت پناہی میں اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).