جے آئی ٹی اور کچھ پریشان کن معاملات


کراچی سے پی ایم ایل (ن) کے واحد سینیٹر، نہال ہاشمی وزیر ِاعظم نواز شریف کے چوتھے وفادارساتھی ہیں جنہیں حالیہ برسوں کے دوران ہزیمت اٹھا نا پڑی ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قہر کا شکار ہونے والے دیگر افراد، سینیٹر مشاہد اﷲ، سینیٹر پرویز رشید اورطارق فاطمی ، کی طرح اُن کی غلطی اپنے چیف سے بغاوت نہیں بلکہ اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ناروا حد تک جذباتی اظہار تھا۔

ان تمام کیسز میں ان پارٹی وفاداروں کا تحفظ کرنے کی بجائے نو از شریف نے دبائو کا شکار ہوتے ہوئے اُن کی قربانی دے دی لیکن اپنے اقتدار کو محفوظ رکھا۔ مزید قہر یہ ہواکہ اس کے باوجود ابھی تک نہ تو پی ایم ایل (ن) اور نہ ہی مسٹر شریف سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد سازی میں کامیاب ہوئے ہیں، جس کے فقدان کی وجہ سے ان چاروں وفاداروں کا ہاتھ جھٹکنا پڑا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معروضی حالات میں ان کا دفاع نہ کرنے کا فیصلہ درست تھا؟ایک بات اب طے ہے کہ ان سے کیے جانے والے سلوک کے بعد اب کوئی ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ‘‘ بننے کی جسارت نہیں کرے گا۔

نہال ہاشمی اکثر پی ایم ایل (ن) اور نواز شریف کے دفاع میں انتہائی جذباتی ہوجا تے تھے ۔ اس کی وجہ سے وہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کا ہدف تھے ۔ تاہم یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ 28 مئی کو وہ احتیاط اور عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اورپی ایم ایل (ن)کے کارکنوں کے ایک چھوٹے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ’’شریف فیملی کا احتساب کرنے والوں ‘‘ سے دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب ہوئے اور کہا کہ پی ایم ایل (ن) کے کارکن اُن کے لیے اور اُن کے بچوں کے لیے ’’پاکستان کی سرزمین تنگ ‘‘ کردیں گے ۔نیز ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ مسٹر ہاشمی نے گرجتے ہوئے کہا ۔۔۔’’ہماری تفتیش کرنے والے سن لیں کہ ہم بھی یوم حساب برپا کریں گے ۔‘‘اُن کے غیض و غضب کا رخ واضح طور پر شریف فیملی کی منی ٹریل کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے ممبران ، خا ص طور پر SECP کے سابق عہدیدار، بلا ل رسول اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق افسر، عامر عزیز کی طرف تھا ۔ ان افسران کو مبینہ طور پر پی ایم ایل (ن) کا مخالف بتایا جاتا ہے ۔

نہال ہاشمی کے جذباتی خطاب نے پی ایم ایل (ن) کو سخت شرمندہ کردیا۔ صرف چند دن پہلے جے آئی ٹی کے ممبران کے خلاف اس کے کیس کو نئی زندگی ملی تھی جب میڈیا پر یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے کچھ کی نامزدگی ممکنہ طور پر طے شدہ تھی ۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے تاحال اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اُنھوں نے SECP کو مسٹر بلال رسول کی نامزدگی کی خصوصی ہدایت کیوں کی جبکہ اُنہیں کئی دیگر نام بھی بھجوائے گئے تھے ۔ تاہم نہال ہاشمی کی تقریر کے بعد تمام فوکس اس طرف مڑ گیا اور پی ایم ایل (ن) کا کیس خراب ہوگیا ۔

اب چیف جسٹس آف پاکستان نے مسٹر ہاشمی کو عدالت میں طلب کیا ہے کہ کیا اُنھوں نے شریف فیملی کا احتساب کرنے والے ججوں کی توہین کی ہے ، یا جے آئی ٹی کو دھمکیاں دی ہیں۔نہال ہاشمی کی شعلہ بیانی کے نتائج سے خود کو محفوظ رکھنے کی انتہائی کوشش کرتے ہوئے وزیر ِاعظم، جو پی ایم ایل (ن) کے صدر بھی ہیں، نے اُن کی پارٹی رکنیت معطل کردی ، نیز اُن سے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ بھی طلب کیا ، جو اُنھوں نے فوری طور پر دے دیا۔ تاہم اس تادیبی کارروائی سے اپوزیشن مطمئن نہیں ہوئی ۔ اس نے مسٹر شریف پر نہال ہاشمی کو بھڑکانے کا الزام لگایا ہے لیکن اس الزام میں کوئی جان نہیں۔ یہ بات تاحال واضح نہیں کہ اُن کا بیان تین دن تک میڈیا ہیڈلائنز سے اوجھل کیوں رہا ؟ اس کے بعد وہ شاید کسی کی مفاد پرستی کا شکار ہوگئے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایم ایل (ن) کو ان کے جارحانہ بیان نے سخت نقصان پہنچایا ہے ، اور اس کے رہنما نہا ل ہاشمی کی حماقت پر سرپیٹ رہے ہیں۔ چنانچہ وہ ان کے پیچھے نہیں ہوسکتے ۔

مسٹر ہاشمی کی تقریر سے قطع نظر، جے آئی ٹی کے کچھ مخصوص پہلو پریشان کن ہیں۔ مسٹر بلال رسو ل کے خاندان کے کچھ افراد کے اپوزیشن سے تعلقات کی تردید سامنے نہیں آئی ہے ۔ اس سے اس الزام کو تقویت مل سکتی ہے کہ وہ حکمران جماعت سے تعصب رکھتے ہیں۔ مسٹر عامر عزیز کا مشرف دور میں شریف برادران کا احتساب ( یا جبر؟) ایک مخصوص سیاسی پس ِ منظر کی غمازی کرتا ہے ۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان دونوں حقائق کو غیر اہم قرار دیا ۔ لیکن رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے سے ’’مداخلت‘‘ کی سامنے آنے والی شہادت کو کس طرح نظر انداز کیا جائے ؟ ہاں اگر اُن افراد کو منتخب کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہےتو پھر اور بات ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹر ار نے جج حضرات کی ہدایت کے مطابق اُنہیں ترجیح دی ۔

اس وقت تک یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ شریف فیملی کی مبینہ منی لانڈرنگ کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے ساٹھ دن ایک قلیل عرصہ ثابت ہوں گے ۔ جے آئی ٹی کی طرف سے مدعاعلیہان میں سے کچھ کو خائف کرنے ، جیسا کہ اُنھوں نے الزام لگایا، بھی اتناہی پریشان کن معاملہ جتنا شریف فیملی کی طرف سے اسے ابہام میں ڈالنا۔ بالکل یہی مسائل سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں عمران خان کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں درپیش ہیں جہاں وہ پی ٹی آئی کی فنڈنگ اور بنی گالہ خریدنے کے لیے اپنی سمندر پار کمپنی سے اربوں روپوں کی ترسیل کے قانونی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ ریکارڈ جلد دستیاب نہیں ہوگا۔ یہاں بھی مدعاعلیہ پر تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام ہے ۔ سیاست ایک گند ا کھیل ہے ۔ جس طرح مذہب اور سیاست کا ادغام غلط ہے ، بالکل اسی طرح سیاسی معاملات کو عدالت میں گھسیٹ لانا بھی درست نہیں۔ اگر عمران خان اور نواز شریف کیسز میں کسی فریق کو بھی انصاف ہوتا دکھائی نہ دیا تو خدشہ ہے کہ عدالت کو منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).