کشوری امونکر…. خیال روٹھ گیا


  ہندوستانی موسیقی گانے والے شاید ہزاروں میں یا لاکھوں میں ہوں مگر ایسے چند ہی ہوں گے جو راگ کی سلسلے وار بڑھت اس ڈھنگ سے کر سکیں کہ سر دھرائے نہ جا رہے ہوں، بڑھت کے ساتھ ساتھ راگ کی نت نئی خوبصورتیاں عیاں ہوتی جائیں، تانوں کا پہاڑا نہ رٹا جا رہا ہو، راگ کی شکل اور حسن برقرار رہے اور سننے والوں پرایسا سحر طاری ہوتا جائے جس سے وہ باہر نکل نہ پائیں۔ مرحومہ کشوری امونکر ایسی ہی تھیں۔ گانا تو بہت بعد میں آتا، وہ تو اپنے سر منڈل کو ملاتے ملاتے ہی راگ دکھا دیتی تھیں۔ سرمنڈل سے ہی مزہ آنا شروع ہو جاتا تھا۔ پھر سر منڈل ایسا چھیڑنا کہ لگے سمندر کی لہریں ہوائیں چلا رہی ہیں۔ بہت کم لوگ سر منڈل کے ساتھ گاتے ہیں اور خواتین میں شاید وہ واحد ہی تھیں۔ افسوس گزر گئیں اپریل 3کو اپنی 85ویں سالگرہ سے صرف سات دن قبل!

پدما وی بھوشن تھیں وہ۔ بھارت رتنا بھی ہوتیں تو حقیر سا ایوارڈ ہی رہتا ان کے فن کے آگے۔ اپنی دنیا میں مگن رہتی تھیں ۔ بہت کم ملک سے باہر فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ درست سوچ تھی کہ جس نے سننا ہو مجھے میرے دیس میں آ کر سنے۔ میڈیا سے بہت دور رہتی تھیں۔ اسی لئے میڈیا نے ایسا تاثر بنا دیا کہ لگے بہت مغرور ہیں۔ مگر ایسی بات نہ تھی۔ درویش لوگ کب کسی کی پروا ہ کرتے ہیں۔ سٹیج پر بیٹھتی تو کہتی روشنیاں میرے چہرے سے ہٹا لو۔ ایک سایہ سا گا رہا ہوتا تھا۔ لگتا تھا سرسوتی دیوی امبر سے زمین پر اتر آئی ہے۔ گانے کے بعد تالیوں کے شور سے دور بھاگتی تھیں۔ ہوتی کنسرٹ ہال میں تھیں پر گاتی اپنے لئے تھیں۔ بالکل ایسے جیسے سچی عبادت دکھاوے کے لئے نہیں اپنے رب کے لئے ہوتی ہے۔

مجھے یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کس گھرانے سے تھیں۔ کس کی شاگردہ تھیں۔ یہ سب باتیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ مجھے صرف اپنے احساسات کا اظہار کرنا ہے۔ ہم میں سے اکثر موسیقی اس وقت سنتے ہیں جب کوئی بیزار کر دینے والا کام کر رہے ہوں تا کہ وقت گذر جائے، کام بھی ہو جائے، کوفت بھی نہ ہو۔ کشوری جی کی موسیقی کچھ اس طرح کی تھی کہ اسے سن کر آپ کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہ سکتے تھے۔ لہذا پسِ منظر میں تو سن ہی نہیں سکتے۔ اسے تو اہتمام سے سننا پڑتا تھا۔ جیسے ہی سر منڈل چھڑا آپ گئے کام سے! جادو تھا سر چڑھ کر بولتا تھا۔ بلمپت کا گانا گاتیں تھیں۔ لمبی لمبی بلمپت۔۔دھیرے دھیرے ایک ایک سر کو دیکھنا، اسے کھولنا، بڑھانا ۔ ایسے جیسے آپ سمندر میں داخل ہو اور آہستہ آہستہ گہرائی میں داخل ہوتے جائیں اور ایک وقت ایسا آئے کہ پیر تہہ سے نہ لگ رہے ہوں ۔ اس کے بعد آپ کی ہمت کہ کتنی دور اور کتنے اندر پانی میں جا سکیں۔ بس سمندر تھا ان کا گانا۔ کبھی ختم نہ ہونے والا ۔۔سننے والوں کیلئے!

ہر راگ کو رچا دینا ہر ایک کے بس میں نہیں۔ مگر کشوری جی کچھ بھی گائیں رنگ جم جاتا تھا۔ ان پر عاشق ان کے جونپوری سے ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھگوان اتر کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ہے۔ ہمارے دوست اور ایڈیٹر وجاہت مسعود کا بچہ بھی اسی جونپوری پر عاشق ہو گیا۔ سر لے کا کچھ پتہ نہیں اس بچے کو۔ ایک بار سنا تو بستر میں رضائی کے اندر جونپوری ہی سنے جا رہا ہے! ایسا ہوتا ہے سر اگر کوئی سچا لگانے والا ہو تو۔ کشوری جی اس دور کی آخری لڑی تھیں جو ایسا سر لگانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ وہ آکار کا گانا گاتی تھیں یعنی سر کا آ ّآ کر کے گلے سے لگانا نہ کہ شاعری یا الفاظ کا سہارا لینا۔ کمزور گانے والے آکار سے میلوں دور بھاگتے ہیں۔ اب تو موسیقی میں صرف کچرا، ردی اور چھان بورا رہ گیا ہے جس کا کاروبار ہر شیدا مجیدا، جیری شیری اور رام اور شیام کر رہا ہے۔ ہندوستان میں ہر جاہل، بے سرا گھٹیا سے گھٹیا موسیقی کرنے والا پدما شری یا پدما بھوشن بغل میں دبائے پھر رہا ہے۔ گانا بے اثر، دو منٹ میں ختم اور باتیں ایسی کہ تان سین کے ماتا پتا ہیں!

کشوری جی کا سب سے بڑا احسان یہ کہ دیانت داری سے سکھایا جو سیکھنے آیا۔ عموماً گھرانے دار لوگ سکھانے میں انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ ان کی ایک شاگردہ آرتی انکالی کر ایسا کمال کا گاتی ہیں کہ پوچھو مت! خوبی یہ ہے گانا نقل نہیں ہے۔ گانے میں انداز اور لگاﺅ اپنا ہے۔ آرتی کا باگیشری سنئے خاص طور پر بارہ ماترے میں بندش، نہ ڈارو رنگ مو پے۔ آرتی کے علاوہ اور بہت سے شاگرد ہیں ان کے مگر مجھے تو آرتی ہی پسند ہیں!

کشوری جی کے بارے میں ایک بار ذاکر حسین نے کہا تھا کہ وہ geniusہیں۔ اس پر کشوری جی نے کہا کہ geniusہی geniusکو پہچان سکتا ہے۔ سو حسِ مزاح تو تھیں ان میں مگر میڈیا نے انہیں ایک روکھا انسان بنا دیا۔ وہ کہتیں تھیں کہ میں ہر وقت سر کے بارے میں سوچ رہی ہوتی ہوں اس لیے میں سننے والوں سے علیک سلیک نہیں کر سکتی۔ درست تو ہے۔ سچے فنکار کو یہ سننے کی کوئی ضرورت نہیں کہ صاحب آپ تو بہت اچھا گاتے ہیں۔ ارے واہ واہ، کمال کر دیا! وہ واقعی geniusتھیں۔ جس زمانے میں وہ ابھریں اس وقت بڑے غلام علی خان، امیر خان ، سلامت علی خان اور روشن آرا بیگم کا طوطی بول رہا تھا۔ ایسے میں اپنی جگہ بنانا اور اپنے آپ کو بطور عہد ساز گائیکہ منوانا تقریباً ناممکن تھا جو کہ انہوں نے ممکن

کر دکھایا۔

کشوری جی کاکوئی بھی راگ اٹھا لیں آپ کو اچھا لگے گا۔ ان کا سمپورن مالکونس، باگیشری، راگیشری، للت، للت پنچم، کونسی کانڑہ، مالکونس، ہنس کنکنی، گوڑھ سارنگ، بھوپالی اور بہاگ ضرور سنیں۔ مودی جی نے ایک اچھا کام تو ضرور کیا۔ کشوری جی کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں ۔ ہماری مودی جی سے گذارش ہے کہ کشوری جی کو بعد از مرگ بھارت رتنا سے نوازا جائے۔ ان سے بڑھ کر اس ایوارڈ کا گانے میں کوئی دوسرا حقدار نہیں۔

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم صحافی اور محقق ہیں۔ اس کے علاوہ طبلہ اور کلاسیکل گانا بھی سیکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ©: Yamankalyan@gmail.com

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad