درون سنگ سے پھوٹا عشق پیچاں۔۔۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی داستان


عزیز دوست ، میڈیا ٹیچر، کالم نگار اور بی بی سی لندن کے پرانے رفیق کار شاہد ملک نے ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا۔ بتائیے کہ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام معروف مصنف خوشونت سنگھ، جنرل راحیل شریف، اداکار دیوآنند، مزاح نگار کنھیالال کپور اور پروفیسر خالد آفتاب میں کیا بات مشترک ہے؟ محفل پہ سناٹا چھا گیا۔ مجھے بھی اس سوال کا جواب ہرگز معلوم نہ ہوتا اگر ایک ہی روز پہلے میں نے سنگ میل پبلی کیشنز کے شوروم میں ڈاکٹر خالد آفتاب کی تازہ تصنیف Against All Odds پر ایک نگاہ نہ ڈال لی ہوتی۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نابغہ روزگار افراد کی یہ تربیت گاہ اپنی ڈیڑھ سو برس کی تاریخ میں کیسے کیسے ادوار سے گزری اور سیاست کی کیسی کیسی پرخار وادیاں راستے میں آئیں لیکن افسر شاہی کے ہفت اقلیم طے کر کے اس ادارے نے بہرحال اپنے مستقبل کا راستہ خود تلاش کر لیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے خالد آفتاب کا تعلق بظاہر ایک طالب علم، ایک استاد اور پھر ایک انتظامی سربراہ کے طور پر رہا لیکن کتاب کے ابتدائی حصے سے پتا چلتا ہے کہ خالد آفتاب کو بچپن سے اس کالج کی عمارت نے مسحور کر رکھا تھا اور سنٹرل ماڈل ہائی سکول تک جانے کے لیے وہ گورنمنٹ کالج کے بیچ میں سے ایک شارٹ کٹ دریافت کر چکے تھے۔
طالب علمی کا زمانہ ختم ہوا تو انہوں نے خود کو اقتصادیات کا ایک لیکچرار پایا جو اپنے من پسند ادارے میں شعبہ اقتصادیات سے منسلک تھا۔ جس دوران میں وہ ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ کے مرتبے تک پہنچے۔ ملک کئی طرح کی سیاسی اتھل پتھل سے گزر چکا تھا۔ تعلیمی اداروں میں بھی ملکی سیاست کا عکس جھلک رہا تھا اور طالب علم تنظیمیں، ٹریڈ یونین کا رنگ ڈھنگ اختیار کر چکی تھیں چنانچہ طلبا تنظیموں کے لیڈر اسی رعب اور دبدبے سے کالجوں میں دندناتے پھرتے تھے جیسے فیکٹری کے احاطے میں کوئی مغرور لیبر لیڈر اس دعوے کے ساتھ گشت کرتا دکھائی دیتا ہے کہ مل مالک نے ذرا سی اکڑ فو ں دکھائی تو وہ فیکٹری کو جلا کر خاک کر دے گا۔
خالد آفتاب کی تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ان کی انتظامی خوبیوں کی بھی دھاک بیٹھ چکی تھی چنانچہ گورنمنٹ کالج کی بگڑتی ہوئی انتظامی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے جوکہ خود بھی گورنمنٹ کالج کے اولڈ بوائے تھے، فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر خالد آفتاب کو پرنسپل کا عہدہ پیش کیا جائے۔ وزیراعظم گورنر ہاﺅس میں اپنے چند قریبی ساتھیوں کے ہمراہ خالد آفتاب سے ملے اور انہیں پرنسپل بننے کی پیشکش ان الفاظ میں کی۔ ’ڈاکٹر صاحب، کالج کی حالت بہت خراب ہو چکی۔ کیا آپ اپنی مادر علمی کو اس عذاب سے نجات دلا سکتے ہیں‘؟
ڈاکٹر صاحب اس سوال میں چھپی ہوئی پیشکش کو فوراً بھانپ گئے اور بولے ’کالج کا ماحول واقعی اتنا خراب ہو چکا ہے کہ فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ کالج کی ساکھ کو گُھن لگ گیا ہے۔ کسی کو آگے آنا چاہیے‘۔ وزیراعظم نے کہا ’اگر آپ کو موقع دیا جائے تو کیا آپ ان بدمعاشوں کو ٹھکانے لگا سکتے ہیں جنہوں نے کالج کی عزت خاک میں ملا دی ہے‘۔
ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا ’ یہ تو خیر پہلا قدم ہو گا، لیکن کالج کی ساکھ بحال کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ حالات کی خرابی کا اندازہ یہاں سے کر لیجئے کہ بے لگام طالب علموں کو ایک دھڑے کا لیڈر خود لاہور کے میئر کا بیٹا ہے۔ جب اس طرح کی سیاست کالج میں در آئے تو پرنسپل بے چارہ کیا کر سکتا ہے‘۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ کمرے میں خاموشی چھا گئی کیونکہ لاہور کا میئر اس وقت وزیراعظم کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ تاہم نواز شریف نے ماحول کو گمبھیر ہونے سے بچا لیا اور موضوع بدلتے ہوئے بولے۔ ’بھئی یہ جھینگے تو بہت ہی مزے دار ہیں۔ آپ نے چکھے ہیں‘۔
ڈاکٹر خالد آفتاب اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جس ناخوشگوار موڑ پر یہ ملاقات ختم ہوئی تھی ، کسی بہتر نتیجے کی امید عبث تھی لیکن خلاف توقع اگلے ہی روز یعنی سترہ جنوری 1993 ءکو انہیں گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل مقرر کر دیا گیا۔
اسی روز ان کے دفتر میں آنے والا پہلا (بن بلایا) مہمان لاہور کے میئر کا بیٹا تھا جوکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سٹوڈنٹس ونگ کا سربراہ تھا۔ اس نے داخل ہوتے ہی نئے پرنسپل کو اپنی خدمات پیش کیں لیکن پرنسپل صاحب نے اسے ڈانٹ کر واپس بھیج دیا اور کہا کہ آئندہ بغیر اجازت کے اس دفتر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرنا۔
یہ حکم نامہ گویا ابتدا تھی ایسے بہت سے احکامات کی جو ایک بگڑے ہوئے تعلیمی ادارے کو سنوارنے کے لیے آئندہ برسوں میں جاری کئے گئے۔ اگر یہاں تک پڑھنے کے بعد ڈاکٹر آفتاب کا تاثر ایک ایسے سخت گیر ناظم اور واعظ کا بنتا ہے جو ڈنڈا ہاتھ میں لئے سارے کالج کے گشت پر ہے اور ہر بدنظمی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہے تو یہ تاثر بے انصافی پر مبنی اور تبصرہ نگار کے عجز بیان کا غماز ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر آفتاب نے انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اصلاحات کا ڈول ڈالا اور قدم بہ قدم اس پر عمل کیا۔ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب خود ان یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں (صفحہ 17,18 ) ان کے سامنے یہ واضح مقاصد تھے:
۔ کالج میں ڈسپلن کو بحال کرنا۔
۔ ٹیوشن کلچر کا خاتمہ۔
۔ ہاسٹل کی اصلاحات۔
۔ پرانے تدریسی نظام کی بحالی۔
۔ شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانا۔
۔ غیر نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں پر توجہ دینا۔
۔ کالج کو ایک خودمختار ادارے میں تبدیل کرنا۔
1989 ءمیں ملنے والی نام نہاد خودمختاری عملاً بے کار تھی کیونکہ بہت سے معاملات میں اب بھی ادارہ حکومت یا دیگر مقتدر اداروں کا دست نگر تھا۔ کتاب کے تیسرے باب کے بعد اس جدوجہد کی داستان شروع ہوتی ہے جو کالج کو صحیح معنوں میں تدریسی اور انتظامی طور پر ایک خودمختار ادارہ بنانے، ڈگری جاری کرنے کے اختیارات دلانے اور بالآخر ایک آزاد اور خودمختار یونیورسٹی میں تبدیل کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تمام مراحل ڈاکٹر خالد آفتاب کے زمانہ سربراہی میں طے ہوئے اور ان کا قدم بہ قدم احوال ہی کتاب کی جان ہے۔
جن لوگوں نے ڈاکٹر خالد آفتاب کے افسانے پڑھ رکھے ہیں وہ ان کی اردو نثر کے کمالات سے واقف ہوں گے لیکن اب ان کی انگریزی نثر بھی آپ کے سامنے ہے جو اپنی سادگی، روانی اور دلکشی میں ثانی نہیں رکھتی اور ایسے لوگ بھی جو بھاری بھر کم عالمانہ نثر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس کتاب کو ہنسی خوشی بڑھ سکتے ہیں۔ البتہ کم آمدنی والے بھائیوں سے گزارش ہے کہ ابھی اس کتاب کا صرف لائبریری ایڈیشن ہی شائع ہوا ہے جس کی قیمت چودہ سو پچانوے روپے ہیں چنانچہ آپ یا تو لائبریری سے لے کر پڑھ لیجئے یا پھر اس کے پیپر بیک ایڈیشن کا انتظار کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).