روزہ کی استطاعت کی بحث، فقہا اور غامدی صاحب


سوشل میڈیا پر روزہ رکھنے میں فرد کی استطاعت اور عدم استطاعت کی حالیہ بحث کے پیچھے ایک خاص فقہی ذہن کار فرما ہے جس پر بات کرنا ضروری ہے۔

لمبے چوڑے اصولی مباحث کے پیچھے مسئلہ صرف دو نکاتی ہے:

روزہ رکھنے میں فرد کی استطاعت اور عدم استطاعت کی تعیین کیسے ہو؟

اس تعیین کا فیصلہ کون کرے؟

شریعت کے احکام دو طرح کے ہیں، ایک انفرادی نوعیت کے حامل اور دوسرے اجتماعی نوعیت کے حامل۔ اجتماع سے متعلق احکامات میں اختیار حکومت یا اس کے مقرر کردہ متعلقہ ادارے جیسے عدلیہ وغیرہ کو ہوتا ہے، فرد کا اختیار نہیں ہوتا جیسا حدود، جہاد وغیرہ۔ جب کہ انفرادی نوعیت کی شریعت میں عمل کرنے نہ کرنے کا معاملہ فرد کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جیسے روزہ، حج وغیرہ۔
روزہ کی بحث میں استطاعت اور عدم استطاعت کی حدود شریعت نے مقرر نہیں کیں، اور شرع کا یہ حکم ہے بھی انفرادی نوعیت کا۔ یہاں فقیہ اور غامدی صاحب کا اختلاف یہ ہے کہ اس استطاعت و عدم استطاعت کی حدود کا تعین فقیہ خود کرنا چاہتا ہے، اس طرح وہ انفرادی نوعیت کی شریعت میں بھی فیصلہ کا اختیار فرد کی بجائے خود رکھنا چاہتا ہے؛ جب کہ غامدی صاحب ایسے شرعی احکام کی تعیین اور اختیارات دونوں فرد کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔

اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ مسافرت کیا ہے کہ جس پر نماز کا قصر اور جمع کرنا اور روزہ چھوڑ دینے کا جواز مسافر کو مل جاتا ہے؟ فقیہ نے اس کی تعیین مسافر پر چھوڑنے کی بجائے، خود طے کرنے کی ذمہ لے لی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ متعدد اقوال وجود میں آ گئے، بقول مولانا عمار خان ناصر، تین میل سے اڑتالیس میل تک کے سفر کو معیار بنانے لینے کے اقوال منقول ہیں۔ فقہا نے اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے رجحانات کے مطابق عوام کو ایک ضابطے کا پابند بنانے کی خاطر مسافرت کی تعیین میں مختلف و متضاد شرائط بیان کیں۔

مسافرت کا معیار آخر کثرت رائے طے کرنا پڑا، دیگر فقہا کے اقوال کو نظر انداز کر کے اڑتالیس میل کے سفر کو مسافرت کے لیے طے کر لیا گیا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ سفر کے ذرائع تیز رفتار ہوئے اڑتالیس میل کا سفر دنوں کی بجائے، گھنٹوں بلکہ گھنٹے میں طے ہونے لگا، مگر فقہا بضد رہے کہ مسافرت اب بھی اڑتالیس میل سے شروع ہوگی۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ آئندہ وقتوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے جب اڑتالیس میل کا یہ سفر اتنے وقت اور مشقت کے ساتھ طے ہوگا جتنا آپ کو اپنے آفس جانے میں امام صاحب کو گھر سے مسجد جانے میں لگتا ہے، یا اس سے بھی کم وقت میں، تو کیا تب بھی یہ اصرار برقرار رہے گا؟ یقینا یہ اصرار مضحکہ خیز ہوگا۔ آپ کہں گے احکام ٰمیں علت کو دیکھا جاتا حکمت کو نہیں، لیکن ہم سجھتے ہیں کہ خدائے حکیم کی علتیں حکمتوں سے خالی نہیں ہو سکتیں۔

یہ مضحکہ خیز صورت حال کیوں پیش آئی؟ دراصل، ہوا یہ ہے کہ فقہا ہر چیز کو ایک ضابطے کے تحت لانے کے خواہش مند تھے، ہر اس چیز کو بھی جسے شریعت کسی ایک ضابطے کا پابند بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ فقہا نے بہرحال کوشش کی اور نتیجہ یہ نکلا یہ شرعی معاملات افکار پریشاں میں الجھ کر رہ گیا۔

درحقیت، فقہا اپنے اس طرز عمل سے خدا کو ایک ایسے خشک ریاضی دان قسم کے فقیہ کی صورت میں پیش کرتے ہیں جسے سماجی حرکیات کا شعور نہیں جو لگے بندھے اندھے اصولوں کے مطانق چلتا ہے۔

یہاں غامدی صاحب آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس کی تعییین نہیں ہو سکتی، اس کی تعیین کے لیے کوئی ایک ضابطہ قاعدہ اور کلیہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ خدا کے دائرے میں بے جا مداخلت ہے۔ مسافرت میں کلو میٹر نہیں ناپے جائیں گے، کوئی شخص مسافرت کی افراتفری کا شکار ہے یا نہیں اس کا فیصلہ فرد کو کر لینے دیا جائے۔ ممکن ہے آیک آدمی پاکستان سے امریکہ کے ہوائی سفر میں نہایت اطمینان سے سفر کرے اور سفر کی افراتفری کا شکار نہ ہو، اور ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اسلام آباد سے راولپنڈی آتے ہوئے اس افراتفری میں مبتلا ہو۔

مسئلے کی یہی نوعیت روزہ کی استطاعت اور عدم استطاعت کی بحث میں کار فرما ہے۔ فقہا کا کہنا ہے کہ فرد کی عدم استطاعت کا تعین اور اس پر روزہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی فقیہ کرے گا۔ یہ بالکل لغو بات ہے۔ عدم استطاعت کا فیصلہ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ تو فرد خود ہی کر سکتا ہے، یا بعض صورتوں میں یہ فیصلہ ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ ایک بظاہر تندرست نظر آنے والے شخص کو مثلا گردوں کی بیماری لاحق ہو تو اس کی استطاعت کا فیصلہ ڈاکٹر ہی بہتر طور پر کر سکتا ہے کہ اسے بار بار پانی پینے کی ٖضرورت ہے۔

یہاں فقیہ کو ڈر یہ ہے کہ فرد اگر خود فیصلہ کرے گا تو بے جا رخصتیں لے گا۔ اس پر طلاق کے مسئلہ کی مثال دیکھیے۔ یہ بھی فرد کے اختیار کا مسئلہ ہے۔ اس میں بھی بے حد بے اعتدالیاں سامنے آتی ہیں لیکن کیا کبھی فقہا نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ مرد کو اس کے اس اختیار سے بے دخل کر دیں، اسے علم ہی نہ ہونے دیا جائے کہ اسے طلاق کا کتنا اختیار حاصل ہے؟ ایسا نہیں کیا گیا، تو باقی شریعت جو انفرادی حیثیت میں فرد سے متعلق ہے اس میں فیصلہ کا اختیار فرد کی بجائے فقیہ کو کیسے منتقل ہو گیا؟ یہاں بھی فیصلہ فرد ہی کرے گا۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ فقہا وہ اختیارات بھی جو شریعت نے فرد کو دیے ہیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اور ان احکامات کی شرائط کا تعین بھی خود کرنا چاہتے ہیں جن کا تعین شریعت نے نہیں کیا اور اس کا فیصلہ بھی فرد کی کے حالات اور دیانت پر چھوڑ دیا ہے۔

اس سارے معاملے میں ہمارے فقہا کا مقصد نیک بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی سادہ لوح شفیق باپ کی طرح اپنے بچے کو ناسمجھ جان کر اسے اس کے اختیارات کا علم ہونے اور اس کے اختیارات اس کے حوالے کرنے کو تیار نہیں کہ مبادا وہ ان کے غلط استعمال سے وہ اپنی آخرت تباہ نہ کر لیں۔ تاہم، اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ خود کو مسلم سماج میں وہی رتبہ دلائے رکھنا چاہتے ہیں جو دیگر مذاہب میں برہمن یا پوپ کو حاصل ہے، جو فرد سے متعلق اپنے دین کے شرعی معاملات بھی خود طے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس کے ایمان و کفر بلکہ جنت و دوزخ کا فیصلہ بھی خود کرتے ہیں۔

یہ انداز فکر در حقیقت خدا کی اس سکیم کے خلاف ہے جس نے انسان کو آزمایش کے لیے ہی دنیا میں بھیجا تھا۔

(67:2)
(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے فقہا فرد اور خدا کے درمیان حائل ہو رہے ہیں، خدا کی برپا کردہ آزمائش کی سکیم میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کا منصب بس یہ تھا کہ فرد کو بتا دیتے کہ یہ گناہ اور یہ نیکی ہے، یہ شریعت ہے اور یہ رخصت ہے، فیصلہ البتہ، فرد نے خود کرنا ہے کہ کتنا عمل کرنا اور کتنی رخصت لینی ہے۔ اس میں اگر کوئی افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے تو ان کا کام توجہ دلانا تھا کہ راہ اعتدال کیا ہے۔ اس درست طرز عمل کی بجائے ان میں یہ رجحان طے پا گیا کہ عوام کو علم نہ ہونے دیا جائے کہ شریعت نے معاملہ کہاں ان کے اختیار پر چھوڑ رکھا ہے۔ جس میں غلط یا درست فیصلہ کرنے پر وہ خدا کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔

یہ امکان ضرور ہے کچھ لوگ رخصتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے، لیکن یہی تو ان کی آزمائش ہے کہ وہ پوری دیانت داری کا مظاہرہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں یا ہوائے نفس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
فقہ ایک منضبط علم ہے۔ اس میں ہر ہر مسئلہ کو قوانین کے دائرے میں لانے اور باقاعدہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرز عمل نے شریعت کے اس اطلاقی دائرے میں بھی مداخلت کر ڈالی جہاں تعیین اور انضباط ممکن نہیں بلکہ غیر ضروری اورنقصان دہ تکلف ہے۔

فقہا فرد کو دی گئی رخصتوں کا علم اور اختیار فرد کے حوالے نہ کرنے سے دو بڑے جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایک کتمان علم کا جس کے مرتکب کے منہ میں، از روئے حدیث، آگ کی لگام پہنائی جائے گی اور دوسرے، خدا کی جگہ خود لینے کی جسارت۔ گویا رخصتیں دے کر جو غلطی خدا سے ہوئی (نعوذ باللہ) اس کی تلافی اب یہ اپنی عقل سے کرنا چاہتے ہیں۔

غامدی صاحب نے بس یہ کیا ہے کہ فرد کے شرعی اختیار اس کو واپس لوٹانے کی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روزے رکھنے کی استطاعت یا عدم استطاعت کا فیصلہ فرد خود کرے گا۔ لیکن اس بات کو فقہا کے دائرہ اختیار میں مداخلت سمجھا گیا اور درست ہی سمجھا گیا۔ فقہا کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ لوگ اگر اس انفرادی شریعت کے معاملات میں اپنی استطاعت کا فیصلہ ان سے پوچھے بنا خود کرنے لگیں گے، تو سماج میں ان کی اہمیت کم ہو سکتی ہے اور دکان کئی رونق کچھ ماند پڑ سکتی ہے۔ مگر غامدی صاحب کے نزدیک دین پر عمل اسی طرح کرنا ضروری ہے جیسے خدا چاہتا ہے، اور اس میں کسی کی پرواہ نہیں کی جا سکتی۔

مولوی صاحب نے عوام کو اس قدر اپنا محتاج بنا رکھا ہے کہ فرض نماز تو ایک طرف نفل نمازوں میں بھی جہاں ان کا بس چلتا ہے امامت کرا دیتے ہیں۔ شب بیداری کے لیے مساجد میں مدعو کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ اصلا انفرادی عبادت کے اوقات ہیں، صلوۃ التسبیح کی جماعت بھی کرا دی جاتی ہے۔ نماز کے بعد دعا بھی مولوی صاحب خود کر کے دیتے ہیں گویا دعا جو بالکل ہی انفرادی معاملہ ہے وہ بھی مولوی صاحب کے وسیلے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ یہی حال ایصال ثواب کی دعا کا ہے۔ مولوی صاحب خاص انداز سے جو دعا کراتے ہیں، تو سمجھا جاتا ہے کہ اس فارمیٹ پر دعا نہ ہوئی تو گویا دعا ہی نہ ہوئی۔

یہاں فقہا کرام جو شاید ناگوار ہو کہ اعلی علمی سطح کے فقہا کو گلی محلے کے مولوی سے کیوں ملا دیا گیا۔ یہ اس لیے کہ دونوں کے پیچھے ذہنیت ایک ہی کار فرما ہے، اور وہ ہے عوام کو ان معاملات میں بھی اپنا محتاج بنائے رکھنا جہاں اختیار خدا نے ان کے حوالے کر رکھا ہے، اور دوسرے یہ کہ شریعت کو وہاں بھی باقاعدہ اور باضابطہ بنانا ہے جہاں خدا نے اس کی تعیین و تحدید نہیں کی تھی۔ یہ تعیین اور تحدید مطلوب ہی نہیں تھی، لیکن اس کی تعیین کی نامسعود کوشش میں نہ صرف فرد کے لیے مشکلات کھڑی ہو گئیں بلکہ دین یسر کا اصلی مہربان اور پر حکمت چہرہ فقیہ کے اصولی اور منطقی تیوروں میں ایک بے لچک اور کرخت صورت اختیار کر گیا جس سے مسلم ذہن کے تنفر و بے زاری کا احساس قابل فہم ہے۔

فقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی اصولوں اور منطق کی اسیر ہو گئی ہے، اور دین کو اس کی فطری حالت کی بجائے اپنے وضع کردہ منطقیانہ اصولوں کے تحت برتتی ہے جس کے نتیجے میں ایسے غیر فطری اور بعض اوقات مضحکہ خیز نتائج سامنے آتے ہیں جو دین کے مجموعی مزاج سے متضاد اور متصادم ہوتے ہیں۔


اسی بارے میں
مذہب مخالف افراد اصل خطرہ غامدی جیسوں کو سمجھتے ہیں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).