فلم ’’دوبارہ‘‘: صبر کا امتحان


آج ریویو کی جانے والی فلم 2جون کو ریلیز ہوئی ایک ڈرائونی دراصل انتہائی مزاحیہ فلم ’’دوبارہ‘‘ ہے  کیونکہ میں ایک ہارور فلم لور ہوں اس وجہ سے اس فلم کا مجھے بے انتہا شدت سے انتظار تھا۔ فلم کے ریلیز ہوتے ہی میں نے یہ طے کیا کہ اس فلم کو ہر حال میں سینما ہال جا کر ہی دیکھنا چاہئے۔ مگر فلم کے شروعاتی پندرہ منٹ نے مجھے پوری طرح سے غلط ثابت کر دیا اور سینما ہال کی بڑی سکرین پر چلتے کرداروں نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ ایک اچھی خاصی مزاحیہ فلم ہے۔

فلم ’’دوبارہ‘‘ ایک امریکن شارٹ ہارور فلم ’’اوکلس‘‘ کی انسپریشن ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ایک آئینہ ہے جس کی وجہ سے فلم میں شوہر بیوی کا، بیوی شوہر کا، بہن بھائی کا اور بھائی بہن کا قتل کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ سارے لوگ ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے سارے قتل آئینے کی وجہ سے ہو رہے تھے۔ فلم کی لوکیشن ایک گھر کے تین کمرے ہیں، بس یہیں سے فلم شروع ہوئی ہے اور دیکھتے ہی دیکھنے بس اسی طرح ختم ہو جاتی ہے۔

فلم کی کہانی ہما قریشی یعنی نتاشا اور ثاقب سلیم یعنی کبیر کی ہے جن کی ماں کا قتل  اور کبیر کے ہاتھوں اپنے باپ کو مار ڈالنا ہے، جس دن کبیر جیل سے رہا ہوتا ہے ٹھیک اسی دن ہما یعنی نتاشا انہیں اپنے پرانے گھر لے جاتی ہے جہاں انہوں نے ایک سیٹپ لگا رکھا ہوتا ہے جس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہر قتل کی وجہ یہ آئینہ ہے اور یہ وہ کس طرح ثابت کرتی ہے یہی فلم کا مرکزی خیال ہے۔

فلم خلاف توقع نہ تو کوئی گانا ہے اور نہ ہی کوئی خاص ایکشن سین نظر آتا ہے لوکیشن بھی بہت محدود ہے اور ساتھ ہی اموشنل اور رومانٹک سین کی خاصی کمی نظر آتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر ایشانت سکسینا اور پراول رمان نے آخر ایسا کیوں کیا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے دو اتنے بڑے سپر سٹارز ہما قریشی اور ثاقب سلیم کو کاسٹ کر لیا ہے جس کے بعد فلم میں کسی بھی قسم کے مصالحے کی ضرورت نظر نہیں آتی۔ ڈائریکٹر کو ایسا لگتا ہے کہ ہما قریشی اور ثاقب سلیم دو اتنے سپر ہٹ اداکار ہیں جو اگر کسی رستے سے گزریں تو ان کو دیکھنے کیلئے عوام چھتوں پر کھڑی رہتی ہے اور کئی کلومیٹر لمبی لائن لگاتی ہے کہ کسی طرح ان سپر سٹارز کی ایک جھلک نظر آ جائے۔

ہما قریشی جو کہ اس سے پہلے اپنی پچھلی کچھ فلموں میں بہتر اداکاری کرتی نظر آئی ہیں اس فلم میں ان کی کی اداکاری کے سارے بھید کھل جاتے ہیں جبکہ اس فلم کے سکرپٹ کا سارا دارومدار ہما قریشی پر ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہما قریشی اچھی خاصی بری اداکارہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کی فلموں ڈیرھ عشقیہ ،ایک تھی ڈائن اور بدلہ پور میں ان کی اداکاری کس طرح سے بہتر نظر آئی؟ تو اس بات کو مدنظر رکھاجائے کہ اس سے پہلے کی تمام فلموں میں ان کے ساتھ ایک مضبوط کردار میں اداکارہ موجود ہوتی تھیں اور ہما قریشی کو لونگ ڈائیلاگز بولنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ساتھ ہی ثاقب سلیم جو کہ فلم میں ان کے بھائی کبیر کے کردار میں نظر آتے ہیں دیکھا جائے تو وہ اداکار ہی نہیں اور نہ ہی ان کے حصے میں کوئی ایسی فلم نظر آتی ہے جس میں انہوں نے کھل کر اداکاری کے جوہر دکھائے ہوں۔

فلم کا سپر ہٹ کریکٹر عادل حسین ہے جنہوں نے سکرپٹ کے ساتھ پوری طرح انصاف کیا ہے ساتھ ہی لینا رائے ان کی بیگم کے کردار کو بخوبی نبھاتی نظر آتی ہے۔ فلم کا سکرین پلے شروعات میں کافی بہتر ہے مگر جس طرح فلم آگے بڑھتی جاتی ہے سکرین پلے جو کہ پراول رمان نے ترتیب دیا ہے  بھی برا ہوتا چلا جاتا ہے اور سکرین پر فلم بور کرنا شروع کر دیتی ہے۔ فلم میں کچھ فلیش بیک سینز بہت اچھے عکس بند کئے گئے ہیں۔ میں پوری فلم میں ہارور سین دیکھ کر خود سے کافی کوشش کرتا رہا کہ ڈر جائوں مگر کوشش کے باوجود ناکام ہو گیا اور برابر والی سیٹ پر بیٹھے ایک چھوٹے سے بچے کو جب ایک ہارور سین پر قہقہہ لگاتے دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ سینما ہال میں میں اکیلا ہی نہیں جس کو یہ فلم مزاحیہ لگ رہی ہو۔

اب اگر دیکھا جائے تو ’’دوبارہ‘‘ ایک بہت ہی بکواس اور کہنے کی حد ہارور فلم ہے جس میں ہارور سین دکھائی تو دیتے ہیں مگر وہ اپنی دہشت جمانے میں پوری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ خاص کر فلم کے اینڈ کو دیکھ کر یہ فیصلہ ہی نہیں کیا جا سکتا کہ فلم ابھی شروع ہوئی ہے یا ختم ہو رہی ہے۔ بہت سارے سوالیہ نشانات کے ساتھ یہ فلم ایک گھنٹہ چالیس منٹ برباد کر کے ختم ہو جاتی ہے۔ میں اسے دس میں سے صرف ساڑھے تین ریٹ کروں گا اور اس بات کی تلقین کروں گا کہ خدارا اس فلم کو دیکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).