بیماریوں میں لفافہ دینے کا رواج


ایک شخص نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر فروٹ مالکان کے خلاف تحریک شروع کردی، وہ پوسٹ شیئر ہوتا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ مین سٹریم میڈیا پر بھی آگیا ، جس نے بی بی سی اور وائس آف امریکہ تک کو بھی اپنے حصار میں لے لیا۔ اور انہوں نے اپنے رپورٹرز کو اسائنمنٹ دی کہ آپ بھی رمضان میں اس پیکیج پر کام کرو کیونکہ رمضان میں ویسے بھی خبروں کا قحط ہوتا ہے ، اور زیادہ تر صحافی رمضان المبارک سے پہلے ہی اپنے لئے نیوز کا سٹاک رکھ لیتے ہیں کہ یہ خبریں رمضان میں چلائیں گے، تو بات ہورہی تھی ، فروٹ بائیکاٹ کی۔ تین دن کے فروٹ بائیکاٹ سے فائدہ ہوا یا نہیں مگر لوگوں میں ایک شعور بیدار ہو گیا کہ سوشل میڈیا پر تحریکیں پیدا کی جاسکتی ہیں جس کی واضح مثال فروٹ بائیکاٹ مہم تھی۔ اسکے بعد روزانہ کوئی نہ کوئی سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کرنے لگا کہ اب موبائیل کمپنیوں کے خلاف مہم ہوگی، کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مہم ہوگی، مگر ان پوسٹوں کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی امید کی جارہی تھی اور یہ مہم پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور میسج بہت زیادہ شیئر ہوتا گیا جس کے بھی وال پر دیکھتے وہی میسج سامنے آتا، وٹس اپ گروپ میں شیئر ہوتا رہا ، اس کو پذیرائی تو ملی مگر اس پر عمل کتنے لوگوں نے کیا اس بارے میں میڈیا اور وہ لوگ خاموش ہیں جنہوں نے اس کو شیئرکیا تھا۔

میسج چل رہاتھا کہ شادیوں میں لفافے دیتے ہیں تو بیماری میں کیوں نہیں۔جب ہم لوگ کسی کی شادی کی تقریب میں جاتے ہے تو پیسوں کا ایک لفافہ ضرور ساتھ رکھتے ہیں وہاں موجود دلہا اور دلہن کو دینے کے لئے مگر جب ہمارا کوئی اپنا ہسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ رہا ہوتا ہے اور ہم اس کی عیادت کے لیے جاتے ہیں تب ہم کوئی لفافہ نہیں لے کر جاتے کیوں؟ جبکہ اس وقت مریض کے گھر والوں کو پیسوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔کیا ہم سب مل کر یہ نیا رواج شروع نہیں کر سکتے ؟

یہ پیغام واقعی لائق تحسین ہے حالانکہ کچھ علاقوں میں ایسے رواج ہیں جس سے مدد کرنامقصود ہوتا ہے جیسے پنجاب میں اس چیز کا رواج موجود ہے کہ عیادت کے لئے آنے والے مریض کے تکیے کے نیچے کچھ پیسے رکھ جاتے ہیں جسے ’پوچھ‘ کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم لوگ رواجوں کو بڑھاوا دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں ، نت نئے رواج بنانا کوئی ہم پاکستانیوں سے سیکھے، مگربات دراصل یہ ہے کہ ہم رواج بھی وہ بناتے ہیں جس میں ہمیں فائدہ نظر آتاہے، ہم میت پر کھانا انہی خاندانوں کو بھجواتے ہیں جنہوں نے ہمیں کھانا بھجوایا ہوتا ہے ، حالانکہ یہ انسانیت نہیں ، ہم اس خاندان میں سامان لے جاتے ہیں جو ہمارے گھر آتے ہوئے کچھ ساتھ لایا کرتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں کسی کی موت کے بعد جب قل ہوتے ہیں یا کبھی ختم قرآن ہوتا ہے تو جن خاندانوں کو مدعو کیا جاتا ہے وہ ساتھ میں ضرور کچھ لاتے ہیں جس میں زیادہ تر بیکری کا سامان ہوتا ہے یا پھرکولڈ ڈرنکس وغیرہ اور اس کو یاد رکھا جاتا ہے کہ وہ کیا لائے تھے تاکہ بدلہ چکادیا جائے۔ اسی طرح جب کسی کی نئے گھر میں شفٹنگ ہوتی ہے تب بھی حسب توفیق مدد ہوتی ہے جس کا ریٹرن لازمی ہے۔ اگر کبھی ایسانہ کیا جائے تو پھر برداری میں کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو بہت مدد کی تھی انہوں نے تو کچھ بھی دینا گوارا نہیں کیا اور یہ باتیں عورتوں کی ہوتی ہیں مگر مرد بھی اب اس حمام میں ننگے ہوگئے ہیں۔

زیادہ دور مت جائیں دو دہائی پیچھے چلے جائیں جب کسی خاندان میں فوتگی ہوتی تھی اس وقت تعزیت کے لئے جب لوگ آتے تو جس کی جتنی حیثیت ہوتی تھی، جو پچاس بھی ہوسکتے تھے اور ہزار بھی، وہ مدد کیا کرتے تھے تاکہ فوتگی والے خاندان کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور تدفین میں وہ خرچ ہوجائیں جو کہ ایک اچھی سوچ تھی مگر بعد میں یہ ایک رواج بن گیا اوردعا کے وقت ایک شخص کی ڈیوٹی لگا دی جاتی کہ آپ نے پیسے لکھنے ہیں کہ کس نے کتنے دیئے ہیں کیونکہ وہ مدد نہیں ہوتی تھی وہ قرض ہوتا تھا۔ جب باری آتی اس کو چکانا پڑتا۔ خدا کے فضل سے اب فوتگی کا یہ رواج ختم ہوگیا ہے مگر آج بھی شادیوں میں تحفے تحائف یاجو منہ دکھائی کا رواج موجود ہے دلہن یا اس کی ساس کو پیسے دیئے جاتے ہیں جو یاد رکھے جاتے ہیں کیونکہ اس رقم کو بعد میں چکانا ہوتا ہے ، اسی طرح جب کسی خاندان میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو بھی تحفہ یا پیسے دیئے جاتے ہیں جس کی واپسی کرنا ہوتی ہے۔

سوچ رہا تھا کہ اگر سوشل میڈیا پر چلنے والے اس میسج نے اثر کر دیا اوریہ پیغام کارگر ثابت ہوا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ کہیں گے کہ ان کے ہاں بخار آنے پر ہم 1000 روپے دے آئے تھے اور ہمارے یہاں ہارٹ اٹیک آیا تو وہ صرف 500 روپے دے گئے۔ہمارے لڑکے کو 200 روپے میں ان کا پورا خاندان دیکھ گیاجبکہ ہم نے2000 دیئے تھے۔ وہ تو مشترکہ خاندان والے ہیں ایک ہی نے ہمارے مریض کو پیسے دیئے جبکہ ہم سب نے پیسے دیئے تھے۔ارے یار یہ بتاﺅ ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے، دیکھنے جانا ہے، کتنا دے دوں؟ہماری ان سے کوئی خاص دوستی نہیں ہے صرف دعا سلام ہو جاتی ہے۔ ہم نہیں جا رہے۔ دیکھنے جاﺅ تو پیسے دینا پڑتے ہیں ۔ارے یار ان کے گھر میں تو کوئی نہ کوئی بیمار پڑا ہی رہتا ہے۔ روز ان کے ہاں جاتے ہی دو تین سو کا واٹ لگ جاتا ہے….

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).