ایک سپیشل بچی کی ماں کی زندگی


یہ میری دوست کی کہانی ہے اور اسی کی زبانی….

میں ایک خاص ضروریات والی بچی کی ماں ہوں کیونکہ یہ ذہنی طور پر کمزور ہے۔ جب یہ پیدا ہونے والی تھی تو مجھے ایک بیٹی ہی کی خواہش تھی۔ اس کے پیدا ہونے سے پہلے کچھ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میں اگر زیادہ پھل کھاﺅں گی تو پیدا ہونے والے بچے کا رنگ گورا ہو گا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پیدائش میں آسانی کے لئے کچھ آیات قرانی بتائیں تو میں نے ان کا بھی ورد کیا اور ہاں اس کی پیدائش آسانی سے ہی ہوئی۔ جب مجھے الٹرا ساﺅنڈ میں اس کی جنس پتا چلی تو میں نے گلابی رنگ کے جوڑوں اور کھلونوں کا ڈھیر لگا لیا۔ میرے شوہر کو بھی لڑکی کی آمد کی خوشی تھی اور سسرال والوں کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گی۔ میں اپنی مرضی کی پڑھائی پڑھ نہ سکی مگر اس کو پڑھنے دوں گی۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ ذہین ہو گی، خوبصورت بھی اور لائق بھی۔ اس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے میں نے سب خواب دیکھ لئے تھے۔ سب ماں باپ کی طرح میں اپنی اولاد کو سب سے آگے اور سب سے کامیاب دیکھنا چاہتی تھی۔

مگر جب یہ پیدا ہوئی تو ڈاکٹر نے بس اتنا کہا کہ اس کو کچھ ذہنی پیچیدگیاں لاحق ہیں۔ یہ شاید اٹھ کر چل پھر تک نہ سکے۔ ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہم ڈاکٹر، ڈاکٹر اور ہسپتال، ہسپتال گھومے۔ اس کی رپورٹس بیرون ملک بھیجیں۔ پیروں فقیروں کے پاس بھی گئے۔ ہر روز میں ایک معجزے کا انتظار کرتی تھی۔ مجھے لگتا تھا یہ سب ایک خواب ہے۔ میں جب صبح کو اٹھوں گی تو یہ صحت مند ہو گی۔ میری آنکھ کھلے گی تو سب جھوٹ نکلے گا۔ میں روتی تھی اور سوال کرتی تھی کی میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ مگر ساتھ ہی مجھے اس میں خوبیاں بھی نظر آتی تھیں اور اس کی ترچھی آنکھوں میں خوبصورتی بھی۔ پھر جب یہ دو سال کی ہوئی تو ایک معجزہ ہوا۔ ایک دن یہ اپنے قدموں پر چل پڑی۔ کچھ مہینوں بعد اس نے کچھ لفظ بھی بولنے شروع کر دیے۔ ڈاکٹروں نے جو بتایا وہ سب سچ نہیں تھا۔ مگر یہ ابھی بھی ذہنی طور پر پیچھے تھی، بہت پیچھے۔

میرے سارے شب و روز بس اس کے ساتھ بیت رہے تھے اور ابھی بھی بیت رہے ہیں۔ پھر اس کے سکول جانے کی عمر آ گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ میں اسے سب عام بچوں کے ساتھ پڑھاﺅں۔ اپنے ہم عمروں کے ساتھ اس کا اعتماد بڑھے گا۔ ایک پرائیویٹ سکول والے مان بھی گئے۔ وہ سکول جاتی ہے۔ وہ کچھ کچھ سیکھتی بھی ہے۔ مجھے اس سے بہت پیار ہے۔ اتنا ہی جتنا کسی کو بھی اپنے بچے سے ہوتا ہے۔ جب میں اس کے ساتھ اکیلی ہوتی ہوں تو مجھے وہ بالکل تندرست لگتی ہے۔ اس کی اپنی خوشیاں ہیں جو میں جانتی اور سمجھتی ہوں۔ اس کی ہنسی کی کھنک میرے دل کے تاروں کو چھوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک مجھے آسمان کے ستاروں سے زیادہ روشن لگتی ہے۔ اس کی ہم عمر بچیاں حساب میں جمع تفریق کرتی ہیں۔ یہ پانچ تک گنتی لکھ لیتی ہے، وہ بھی اپنی مرضی سے۔ مجھے اس کی بھی خوشی ہوتی ہے۔ مجھے آپ کے بچوں سے کوئی جلن یا حسد نہیں کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہ آپ کے جگر کے ٹکڑے ہیں اور آپ کی خوشی کا باعث۔ مگر میرا دل اپنی بچی کے لئے ہر روز دکھتا بھی ہے۔ یہ ابھی اپنی حوائج ضروریہ سے میرے بغیر فراغت نہیں حاصل کر سکتی اور میں نے ایک دن بوڑھے ہو جانا ہے۔ مجھے اس کے مستقبل کی فکر ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ صرف اپنی دیکھ بھال کر سکے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ناممکن لگتا ہے۔ وہ اپنے پیٹ میں ہونے والے درد کا بھی مجھے سمجھا نہیں سکتی۔ وہ تیزی سے بڑی ہو رہی ہے اور اس کی جسمانی نشوونما کسی بھی بچی کی طرح ہے۔ اس سماج میں وہ کیسے رہے گی، یہ سوچ کر میرا دل ہر روز کٹتا ہے اور سو ٹکڑوں میں بٹتا ہے پھر جڑتا ہے۔ یہ وہ تکلیف اور آزمائش ہے جو خدا نے میرے لئے مقرر کی ہے۔ اگر میں کہوں کہ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا تو ایسا نہیں ہے۔ مگر ایک اور چیز بھی ہے، جو اس دکھ کو دو چند کر دیتی ہے۔

جیسے وہ ایک دن ،جب دماغی طور پر صحت مند بچوں نے اسے پاگل پاگل کہا، اس پر ہنسے اور اسے دھکا دے کر گرا دیا۔ جب آپ نے سکول جا کر اعتراض کیا تھاکہ ایک ایسی بچی آپ کے نارمل بچوں کے ساتھ کیوں پڑھتی ہے؟ جب آپ آ کر مجھے پوچھتے ہیں کہ کیا اس کی تکلیف موروثی ہے؟ کیا میرے خاندان میں اور بھی کوئی ذہنی بیمار ہے؟ جب آپ مجھے پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے امید کے دنوں میں کوئی ایسی دوائی کھائی تھی کہ جس کا یہ نتیجہ ہے۔ جب آپ مجھے پوچھتے ہیں کہ میں اگلا بچہ کب پیدا کروں گی؟ اور بتاتے ہیں کہ مجھے ایک نارمل بچہ پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب آپ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ ایک جھنجھنے سے کھیلنے کے لئے بہت بڑی ہے اور اسے خود سے کہتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کرے۔ جب آپ مجھے کہتے ہیں کہ ٓپ کے شوہر کی بڑی قربانی ہے کہ انہوں نے ایسے بچے کے ساتھ آپ کو قبول کیا ہوا ہے۔ جب آپ میرے شوہر کے میرے ساتھ اور میری بچی کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کے بارے میں کرید کرتے ہیں اور جب کچھ امید سے ہونے والی خواتین مجھ سے دور بیٹھتی ہیں کہ کہیں میرا سایہ ان پر نہ پڑ جائے۔ جب کچھ لوگ اس ڈر سے اپنے بچوں کو پیچھے ہٹا لیتے ہیں کہ میری ذہنی طور پر کمزور بچی انہیں نقصان نہ پہنچا دے۔

بعض اوقات میں اور یہ کھڑکی سے لگ کر باہر سڑک پر بچوں کو کھیلتا دیکھتے ہیں۔ بعض اوقات میں خود کو اکیلا کر لیتی ہوں۔ ان سب سوچوں کے ساتھ، اور اس بچی کو پالنے کی جسمانی مشقت کے بعد آپ کے سوالوں کے جواب دینا آسان نہیں۔

اگر میری بچی مختلف ہے تو ہر انسان ہی منفرد ہے۔ اس کی کمیاں سامنے ہیں مگر لوگوں کے تو دلوں میں وسعت ہی نہیں ہے۔ میرے قریبی رشتہ داروں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا کہ مجھے بھی پرواہ اور آرام کی ضرورت ہے۔ میں ’جو ہے جیسا ہے ‘کی بنیاد پر بنا کرید کے قبولیت چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ میرے بچے کی اس کی صلاحیت کے مطابق حاصل کی گئی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کر سکیں۔ آپ اپنے بچوں میں احساس برتری پیدا کرنے کی بجائے میری بیٹی جیسے بچوں کے بارے میں قبولیت پیدا کریں۔ میرے ساتھ تاسف بھرا رویہ رکنے کی بجائے اگر کسی کام میں مدد کر سکتے ہیں تو وہ ہی کر دیں اور اگر یہ سب بھی آپ کے بس میں نہیں تو بس، خاموش ہی رہیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim