نادیہ مراد: داعش کی جنسی غلامی، اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر اور اب نوبل انعام


عراق کے علاقے سنجار میں نادیہ کے ہم نسل ایزدی 2 جون 2017 کو اپنے گھروں سے نکل آئے۔ تین برس پہلے ان کے گاؤں سے جنسی غلام بنائی جانے والی لڑکی نادیہ مراد آج اقوام متحدہ کی خیرسگالی سفیر بن کر گاؤں واپس آ رہی تھی۔

جارج بش اور ٹونی بلیئر نے 2003 میں جب عراق پر حملہ کیا تو نادیہ مراد 8 سال کی تھی۔ اس احمقانہ حملے کے نتیجے میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو جڑ پکڑنے کے مواقع میسر آئے اور اس نے خون کی ندیاں بہا دیں۔ اگست 2014 ء کا وہ خوفناک دن آج بھی نادیہ کی یادداشت پر نقش ہے جب داعش نے عراق کے شمالی علاقے سنجار کے گاؤں کوچو پر حملہ کیا۔ دہشت گردوں نے گاؤں کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور تقریباً 3200 عورتوں اور ننھی بچیوں کو اپنے گڑھ موصل لے گئے۔ نادیہ کے 6 بھائی اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے گئے اور اسے اس کی دو بہنوں اور بھتیجیوں کے ساتھ یرغمال بنا لیا گیا۔ داعش نے سنجار کے علاقے میں 5 ہزار ایزدیوں کا قتل عام کیا۔ 50 ہزار سے زائد ایزدیوں نے بھاگ کر کوہ سنجار پر پناہ لی۔ موصل میں دہشت گردوں نے ان خواتین اور بچیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، کچھ کو فروخت کیا گیا جبکہ کچھ کو تحفتاً ایک دوسرے کو دے دیا گیا۔ نادیہ نے تین ماہ جنسی غلامی میں گزارے جہاں اسے کئی ہاتھوں میں بیچا گیا، پھر وہ اپنی ہی طرح مصیبت کے شکار ایک خاندان کی مدد سے فرار ہوئی اور عراق میں کردوں کے علاقے دھوک میں موجود پناہ گزین کیمپ چلی گئی، جہاں سے اسے دیگر تارکین وطن کے ساتھ سیاسی پناہ کے لئے جرمنی لے جایا گیا۔

(نادیہ مراد اپنے واحد بچ رہنے والے بھائی سعید مراد طحہ سے گلے ملتے ہوئے)

داعش کی جہنم سے نکل کر آزاد فضاؤں میں سانس لینے تک کا سفر نادیہ مراد طحہٰ کے لیے آسان نہیں تھا۔ اجتماعی زیادتی، جسمانی تشدد اور پھر جنسی غلام بنا کر بار بار فروخت ہونے کے عمل نے انسان ہونے کا احساس ختم کر دیا تھا۔ انسان نما درندوں کے چنگل سے فرار ہونے کے بعد نادیہ مراد نے عالمی برادری کا ضمیر جگانے اور دنیا کو داعش کی بہیمیت سے آگاہ کرنے کا تہیہ کیا۔ جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے بعد نادیہ کی ملاقات انسانی حقوق کی کارکن اور معروف لبنانی نژاد برطانوی بیرسٹر امل کلونی سے ہوئی اور امل نے دنیا کو اس جرات مند لڑکی سے متعارف کرایا۔عراق کی پرامن ایزدی (یزدی)برادری سے تعلق رکھنے والی نادیہ کو اقوام متحدہ نے انسانی تجارت کا شکار بننے والے افراد کے لیے خیرسگالی سفیر مقررکیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ظلم سہنے والے کسی فرد کو اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔23  سالہ نادیہ کو داعش کے درندوں کے ظلم سہنے اور پھر مظلوم لوگوں کے حق کے لیے جدوجہد کرنے پر امن کے نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ دسمبر 2015 میں سلامتی کونسل نے پہلی دفعہ جنسی غلامی اور انسانی سمگلنگ کے موضوع پر اجلاس منعقد کیا جس میں نادیہ نے عالمی رہنماؤں کو بریفنگ دی۔ ستمبر 2016 میں نادیہ کو آزادی خیال کے سخاروف پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ ٹائم جریدے نے نادیہ کو 2016 کے 100 بااثر افراد میں شمار کیا تاکہ اس کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے آشکار کیا جا سکے۔ نادیہ نے متعدد ریاستی و حکومتی سربراہان سے ملاقات کی اور انہیں ایزدی برادری کی حالت زار کے متعلق آگاہ کیا۔

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں سفیر مقرر کرنے کی تقریب میں نادیہ مراد انتہائی جذباتی دکھائی دی۔اس نے دنیا کو بتایا کہ داعش نے ایزدی برادری کی نسل کشی کی ہے۔ خواتین کو جنسی غلام بنا کر فروخت کیا گیا جن میں سے کئی تو آزادی کی آس دل میں لیے جنسی قیدخانوں میں ہی مر گئیں جبکہ سینکڑوں ابھی تک داعش کے قبضے میں ہیں۔ انصاف ان مظلوموں کا حق ہے جو انہیں ملنا چاہیے۔ تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل (تب) بان کی مون نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “نادیہ نے ہولناک مظالم سہے ہیں، میں اس کی کہانی سن کر رو پڑا تھا، لیکن میں صرف شدت غم سے نہیں رویا بلکہ میری آنکھوں میں اس وجہ سے بھی آنسو آئے کہ نادیہ میں بہت زیادہ جرات،حوصلہ اور وقار ہے۔ اس نے ایسی دنیا کے لیے آواز بلند کی ہے جہاں تمام بچے امن اور سکون سے رہیں”۔

مئی 017 ء کے آخری ہفتے میں عراق اور ان کی اتحادی افواج نے بالآخر نادیہ مراد کا آبائی گاؤں کوجو داعش کے پنجوں سے بازیاب کرا لیا۔ نادیہ مراد فوراً جرمنی سے شمالی عراق میں واقع اس گاؤں میں پہنچی جس کے چاروں طرف اب قبریں ہی قبریں ہیں۔ نادیہ جب اپنے اسکول کے پاس پہنچی جہاں داعش کے درندوں نے کوجو گاؤں کے سب مردوں کو گولیوں سے اڑا دیا تھا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔ نادیہ مراد نے اسی اسکول میں گیارہ برس تک تعلیم پائی تھی۔

اپنا اسکول دیکھنے کے بعد نادیہ اپنے آبائی گھر کی طرف گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک پرانا لباس اٹھائے باہر آئی۔ یہ نادیہ کی ماں کے کپڑے تھے جسے داعش کے جنگجوؤں نے اس لئے ہلاک کر دیا تھا کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے اسے جنسی غلام نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ رندھی ہوئی آواز میں نادیہ نے بتایا کہ اس روز وہ سب لڑکیاں دعا مانگ رہی تھیں کہ انہیں بھی ان کے بھائیوں اور باپوں کے ساتھ قتل کر دیا جائے۔ کاش انہیں شام، عراق، تیونس اور یورپ سے آئے ہوئے نام نہاد جہادیوں کے ہاتھوں بار بار جنسی درندگی کا نشانہ نہ بننا پڑے۔

2 جون 2017ء کی اس سہ پہر سب سے زیادہ جذباتی لمحہ وہ تھا جب نادیہ نے اپنے واحد بچ رہنے والے بھائی سعید کو گلے لگایا۔ تین برس پہلے کے اس قیامت خیز دن نادیہ کے چھ بھائی اور ماں اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے تھے۔ نادیہ نے بتایا کہ اس کارروائی کی نگرانی کرنے والے داعش کے کمانڈر نے ان سب سے اپنا مذہب بدلنے کا مطالبہ کیا لیکن کسی نے اس کی بات نہیں مانی۔ نادیہ نے بتایا کہ داعش کے درندے غلام عورتوں سے جنسی زیادتی سے قبل انہیں نماز پڑھنے پر مجبور کرتے تھے۔

نادیہ کا بھائی سعید آج کل کرد اور عراقی شیعہ دستوں کے ساتھ مل کر داعش کو موصل سے باہر نکالنے کی لڑائی لڑ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).