اب کس کی باری ہے ؟


 طالع آزماؤں نے 5 جولائی 1977 کو جب بساط سیاست الٹ دی اور اقتدار پر شب خون مارا تو شہر شہر کوتوال پرانے روزنامچے کھول کھول کر مجرمان سیاست کے کھاتے ڈھونڈنے لگے۔ چوک چوراہوں پر میدان سجا کر مجرمان سیاست پر کوڑے برسانے کا تما شا لگا ۔ تیل کی مالش سے چمکتے بدن والا قوی الجثہ جلاد جب  ہاتھ میں چابک لہراتا اچھلتا کودتا جب تختہ مشق پر باندھے شخص  کی پشت پر زور سےچابک مارتا تو مضروب کے منہ سے نکلتی فلک شگاف چیخین اور پڑنے والے کوڑ وں کی آوازیں  مجمعے کو جرم سیاست سے توبہ پر مجبور کردیتی تھیں۔ کالجوں اور جامعات سے اپنی انکھوں میں سہانے خواب سجائے نوجوان جب غائب ہوئے تو کچھ زندانوں سے پیروں کے انگوٹھے بندھے آئے اور کچھ ایسے آئےکہ ان کا اعتبار ریاست پر سے ہی اٹھ چکا تھا۔

 اس کاروان جمہوریت کے ساتھ جو ہوا اس پر میری خامہ فرسائی کی چنداں ضرورت نہیں اس پر دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں، آج میں ان کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو شطرنج کی نئی بساط کے مہرے بن گئے تھے ۔ سیاست میں عوام کی تائید سے ہٹ کر آمروں کے تلوئے چاٹنے کی خو رکھنے والے وقت کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاست میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب اس لئے بھی ہوگئے کہ آمریت کے گیارہ سالوں میں سیاست اور جمہوریت کے خلاف نئی نسل کے ذہنوں میں زہر بھر کر متنفر کر دیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں میں نظریاتی خطوط پر استوار طلبہ یونین پر پابندی لگا کر لسانی ، مذہبی ، گروہی اور علاقائی سیاست کو فروغ دے کر ملک میں سیاست کو ایک مشن کے بجائے منافع بخش کاروبار بنا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بد عنوانی، کرپشن اور رشوت خوری کو جرم کے بجائے ایک ہنر سمجھا جانے لگا اور عزت اور تکریم کا معیار پیسہ بن گیا ۔ سیاست کے اس نئے معیار کے ساتھ نئی سیاسی قیادت بھی سامنے آگئی جس میں آمریت کی سیاسی بساط کے نئے مہرے نمایاں تھے۔

ملک سے نظریاتی سیاست کو ختم کرنے کے لئے آمر مطلق نے مذہب کے لبادے میں ایک طرف معاشرے کو فرقہ واریت کی طرف دھکیلا تو دوسری طرف سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو تختہ مشق بناکر ان کی تحقیر، تزلیل اور تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ صحافیوں کو خاموش کرانے یا پھر اپنی حاشیہ براداری پر مجبور کرنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کئے گئے۔ اخبارات اور جرائد کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور لکھاری پابند سلاسل ہوئے۔ کئی سیاسی کارکن ملک چھوڑ کر چلے گئے کئی صحافی اور لکھاری کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔

آمر تو مر گیا لیکن جور و ستم کی روایت اس کے بعد بھی جاری رہی۔ ایاز سموں اور کامریڈ نذیر عباسی جیسے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو لاشوں میں تبدیل کرنے والوں کے سیاسی وارثوں نے اپنے دور قتدار میں شہلا رضا اور راحیلہ ٹوانہ جیسی بے گناہ معصوم طالبات کو کراچی کے بد نام زمانہ سی آئی اے سنٹر میں اپنی انا کی تسکین کے لئے تشدد اور تضحیک کا نشانہ بنا کر انسانیت کے جہرے پر کالک مل دی۔ ظلمت کے پالوں نے رسم ستم گری کو ہر دور میں جاری رکھا اور میدان صحافت کے بڑے ناموں کو بھی ایسی ہی تذلیل و تضحیک کے مراحل سے سے گزرنا پڑا۔

1999 اکتوبر میں بساط سیاست ایک دفعہ پھر الٹ دی گئی تو اب کےمشق ستم بننے والوں میں وہ شامل تھے جو پچھلی بساط کی اتھل پتھل کے نتیجے میں صاحب توقیر و تکریم قرار پائےتھے اور اہل ستم کے ٹولے میں شامل رہے تھے ۔ مہمان خانوں کے دروازے پھر کھول دئے گئے۔ درو دیوار وہی تھے اور دربان بھی مگر اس بار مہمان بدل گئے تھے ۔ اب کی بار فرق یہ تھا کہ بہت سارے چوری کھانے والے مجنون خون دیتے وقت ٹھکانہ بدل چکے تھے۔ اس دفعہ اپنے راہنما کے لئے قدم بڑھاؤ کے نعرے لگانے والوں کےاپنے قدم ڈھگمگاتے نظر آئے اور گجرات سے چکوال تک قلعہ تبدیل کر نے کی صدائیں آنے لگیں۔ وفاداریاں تبدیل ہوئیں، جو کل تک ساتھ تھے اب ان کا ساتھ نہیں رہا اور جو عمر بھر بنھانےکی قسمیں کھاتے تھے ہوا کا رخ بدلتے ہی اپنا رخ بھی بدل چکے تھے۔ قید تنہائی، تذلیل، تضحیک، اورتشدد کے وہی پرانے ہتھکنڈے مگر اس بار شکار ہونے والے بدل گئے تھے۔ پھر جلاوطنی اور بحالی جمہوریت کی جدوجہد شروع ہوئی جس میں گولیاں، ڈنڈے، انسو گیس کے شیل ، میتیں، لاشیں اور کشت و خون کی داستانیں رنگ لائیں بالآ خر ایک بہت بڑی قربانی کے بعد ظلمت شب آمریت کا خاتمہ ہوا اور سلطانی جمہور کا آفتاب طلوع ہوا۔

جمہور کی طاقت کے سامنے ظلمت کے پالن ہار مجبور تو ہوئے مگر جمہوریت کا سفر اب بھی ہموار نہیں رہا اور بار بار نشیب و فراز آئے۔ وہ قاضی عدل جس کی توقیر کے لئے ہر پیر و جوان نے تن من دھن کی قربانی دی تھی جب منصب عدل پر بیٹھا تو انصاف کا دیوتا نہیں بلکہ انا کا ایک بت بن چکا تھاجس کی نظریں کسی اور کی نظروں کو اٹھتی دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھیں ۔ کروڑوں کی رائے سے منتخب ہونے والا صرف ایک ڈگری کا ٹکڑا حاصل کرکے کسی آمر کے تلوئے چاٹ کر نوکری لینے والے ایک نام نہاد منصف کی انا کی بھینٹ چڑھا اور ایک پیشی پر کمرہ عدالت میں حاضری کے بعد سیدھے گھر چلا گیا ۔ جرم یہ تھا کہ منصب عدل پر انصاف نہیں انا براجمان تھی۔ تمام ترمشکلات کے باوجود اہل جمہور نے آئین جمہوریت پرسمجھوتہ نہیں کیا اور خوش اسلوبی سے ہزاروں کے خون سے روشن اس چراغ جمہور کو ایک سے دوسرے شمع دان میں منتقل کر دیا اور جمہور یت کے شعلے کو بجھنے نہ دیا۔ بے شک جمہوریت کا یہ تسلسل ملک کے ان ہزاروں سیاسی کارکنوں، صحافیوں ، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سول سوسائٹی کے ممبران کی انتھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کا ثمر ہے۔

 جمہوریت کے خلاف جاری تمام ریشہ دیوانیوں کے باوجود ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس ملک کی سیاسی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں عوام کو جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام قابل قبول نہیں۔ گوکہ جمہوریت کے اس دور میں آزادی رائے کے حقوق کو صلب کرنے کی تمام تر کوششیں جاری ہیں کبھی لوگوں کو ان کی اظہار رائے کے جرم کے پاداش میں گھروں سے اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے اور واپسی پر کسی کے سامنے منہ کھولنے کے قابل نہیں رہتے اور کبھی کسی کے بیوی بچوں کو اس کے ناکردہ جرم کی سزا دینے کی ایسی دھمکی دی جاتی ہے کہ ہاتھ سے قلم چھوٹ جاتا ہے۔ پورے ملک میں فرقہ، نسل اور مذہب کے نام پر آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والے تو اپنی رائے کا اظہار بر ملا کرتے ہیں لیکن حق کی بات کرنے والوں پر دیدہ اور نادیدہ قدغنیں لگادی گئی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ گرفتاری اب خوش قسمتی بن چکی ہے وگرنہ غائب ہونا اہل وفا کا مقدر ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہ رہا تو تقویت ان طالع آزماؤں کے مقاصد کو ملے گی جو کاروان سیاست کے چند نادان ہمسفروں کو کو اپنے ساتھ ملا کر جمہوریت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں آج بھی مصروف عمل ہیں۔

 لوگ منہ پھاڑ کر جمہوریت کو گالیاں دیتےوقت یہ بھول جاتے ہیں کہ  جمہوریت کی بدولت وہ جمہوریت کو گالی دیتے ہیں ۔ جن کو جمہوریت کی باری بھاری لگتی ہے ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اقتدار کے ساتھ زندان کی بھی ایک باری ہے جہاں سے اہل وفا کو ہو کر گزرنا ہے اور یہ باری کل آپ کی بھی ہو سکتی ہے۔

 

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan