بھارت سے صرف کرکٹ میں ہی مقابلہ کیوں؟


پاکستان سات دہائی پہلے جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا رکن بنا تو اس نے سب سے پہلے 1952میں پہلا دورہ بھارت کا ہی کیا، دہلی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کو شکست کاسامنا کرنا پڑا، پانچ میچز ٹیسٹ میچز کی سیریز کا دوسرا میچ لکھنو میں کھیلا جہا ں پاکستان نے بھارت کو شکست دیدی، پاکستان کی اس فتح نے بھارتی عوام کو مشتعل کردیا اور انہوں نے گراؤنڈ میں اور گراؤنڈ سے باہر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ مبصرین کی نظر میں لکھنو ٹیسٹ کی شکست پر بھارتی عوام کا ردعمل ایک روایت بن چکا ہے۔ جبکہ دوسری جانب۔ دونوں ممالک کے درمیان جب بھی کشیدگی آئی ہے تو اس کا نزلہ کرکٹ پر گرا ہے اور دوطرفہ سیریز سالوں تک نہیں ہوئی، جس کے باعث کبھی کبھار آئی سی سی ایونٹ یا کسی اور ٹورنامنٹ میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوجاتی ہیں جو میچز کی بجائے جنگ دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں جانب کی میڈیانے کرکٹ کو جنگ کی شکل دید ی، جب بھی میچز کھیلے جاتے ہیں تو ایسی رپورٹنگ کی جاتی ہے کہ شائقین کرکٹ اس کو جنگ سے تشبیہ دیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کیخلاف اچھی کارکردگی دکھائی ہے، جس کی واضح مثال دونوں ٹیموں کے مابین کھیلے جانیوالے میچز کا ریکارڈ ہیں، اب تک کھیلے گئے میچز میں 73 بار کامیابی پاکستان کا مقدر بنی ہے جبکہ بھارت نے 52 میچز میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان اور انڈیا مختلف کرکٹ ٹورنامنٹوں کے نو فائنل میچوں میں آمنے سامنے آئے ہیں جن میں پاکستان نے سات اور بھارت نے دو مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے۔ پہلی مرتبہ دونوں ٹیمیں ورلڈ چیمپیئن آف کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں مدِ مقابل آئیں۔ یہ میچ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں دس مارچ 1985 کو کھیلا گیا جس میں پاکستان کے کپتان جاوید میانداد تھے اور انڈیا کی قیادت سنیل گواسکر کر رہے تھے۔ 1985 میں انڈیا نے آسٹریلیا میں پاکستان کو شکست دے کر ’چیمپیئنز آف کرکٹ‘ ٹورنامنٹ جیت لیا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے نو وکٹوں کے نقصان پر 176 رنز کا معمولی ہدف دیا جسے انڈیا نے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر پورا کرلیا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دوسرا فائنل شارجہ میں 18 اپریل 1986 کو کھیلا گیا جسے جاوید میانداد کے آخری گیند پر لگائے گئے چھکے کی وجہ سے پاکستان نے ایک وکٹ سے جیت لیا۔ یہ میچ آج بھی کرکٹ کے سنسنی خیز ترین میچوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس میچ میں پاکستان کی قیادت عمران خان نے کی جب کہ بھارت کی جانب سے کپل دیو کپتان تھے۔ جاوید میانداد نے 116 رنز ناٹ آؤٹ بنائے تھے۔

جبکہ آخری بار پاکستان نے گزشتہ روز اوول کے تاریخ میدان میں بھارت کو 180رنز سے عبرتناک شکست دے کر چیمپئنزٹرافی جیت لی۔ ایونٹ کے دوران دونوں ممالک کی جانب سے سابق کرکٹرز اداکار اور شائقین کی جانب سے ایک دوسرے جملے کسے گئے، بھارتی شائقین اورسابق کرکٹرز کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمارا ریکارڈ اچھا ہے جبکہ ہمارے سابق کرکٹرز کے مطابق بھارت آج بھی پاکستان سے ڈرتا ہے جس کا ثبوت بھارت کا پاکستان کیخلاف دوطرفہ سیریز نہ کھیلنا ہے۔ پاکستان کی جانب سے سعید انور نے 1997میں بھارت کے خلاف بھارت ہی میں 194رنز کی اننگز کھیل کر ریکارڈ قائم کیا جو اگلے 17سالوں تک قائم رہا، شاہدآفریدی نے بھارت ہی میں ون ڈے تاریخ کی دوسری تیز ترین سنچری بنا کر قائم کیا، جو اگلے دس سالوں تک عالمی ریکارڈ رہا۔ اس کے علاوہ کئی ریکارڈ بنے ہیں جو آج تک سنہرے حروف میں یا دکیے جاتے ہیں

لیکن کیا دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ صرف کرکٹ کا ہے، کیا کسی قوم کی ترقی کا دارومدار صرف کرکٹ ہی ہے، سچ تو ہے کہ قوموں کی ترقی کھیلوں سے زیادہ تعلیم سے ممکن ہے لیکن ہم کرکٹ بھی بھارت کو جتنی بار بھی شکست دیں لیکن تعلیم میں تو پیچھے ہی ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ کہ تعلیم کو ترجیح دینے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں، تعلیم سے دور رہنے والی قومیں ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں، تعلیم میں بھارت کیساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان اس میدان میں بہت پیچھے ہے

بھارت نے دستور ہند کے کئی دفعات کے تحت 6 سے 14 سال تک کے بچوں کے لئے تعلیم کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہے، تعلیم حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے، ملک میں تعلیم کی مرکزی، حکومت حکومت، علاقائی حکومت کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھارت نے تحتانوی اور ثانوی تعلیم کافی ترقی کی۔ جس کی وجہ سے بھارت میں خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ 7 تا 10 سال کے بچوں کی تعداد کا تقریباً تین چوتھائی حصہ، 2011 تک خواندگی کے زمرہ میں آگیا۔ بھارت نے تعلیمی میدان میں قابل ترقی کرکے معاشی اور اقتصادی شعبہ جات می بھی ترقی کی ہے۔ تعلیمی شعبہ، بھارتی اقتصادی شعبہ کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے

بھارت کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نئے سرے سے اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ بھارت شروع سے ہی اعلیٰ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کو اولین ترجیح دیتا چلا آیا ہے اور یہی خصوصی ترجیح آج کے دور کے جدید ہندوستان کی بنیاد بنی۔ بھارت کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو ان کلیدی شعبوں کی ترقی میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان کی خود نگرانی کیا کرتے تھے۔ بھارت نے مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کے تعاون سے ملک میں انجینئرنگ کے سات بہترین انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) کے نام سے قائم کیے ہیں۔ آج ہندوستان میں 757 یونیورسٹیوں، 16 آئی آئی ٹی، 30 این آئی سمیت آئی آئی ایم ایس اورآئی آئی سی آر ہیں جو ملک کے طلبہ طالبات کا مستقبل سنوار رہے ہیں

بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے 17سے 23 سال کی عمر کے افراد اس ملک کے نوجوان طبقے کا 17 فیصد ہیں۔ (اس کے مقابلے میں پاکستان میں یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم افراد اس کے نوجوان طبقے کا صرف 7.6 فیصد ہیں )۔ 2030 تک بھارت اعلیٰ تعلیم سے وابستہ نوجوان طبقے کی اس تعداد کو بڑھا کر 30 فیصد تک لے جانا چاہتا ہے۔ (ہندوستان ٹائمز، نیو دہلی، اپریل 25، 2010ٌ۔

اس کے برعکس پاکستان میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق شرح خواندگی 58 فیصد ہے، مردوں میں یہ شرح 69 فیصد جبکہ خواتین میں 45 فیصد ہے، حکومتی ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک گیر سروے کے نتائج کے مطابق شہروں میں خواندگی کی شرح 75جبکہ دیہاتوں میں 48 فیصد ہے، پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ ملکی قیام کے وقت سے چلا آ رہا ہے، جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کے سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ناخوانداہ افراد کی تعداد کی عمر 15سے 24بس کے درمیان ہے، اس عمر کے 72 فیصد افراد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہے، 25سے 44 افراد میں ناخواندگی کی شرح 57جبکہ 45سے 54برس کے افراد میں شرح ناخواندگی 46 فیصد ہے

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 75 فیصد طلبا و طالبات نے میٹرک سے قبل ہی تعلیم کو خیر باد کہا اور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں تین سے پانچ برس عمر کے با الترتیب 78 اور 72 فیصد بچے سکول نہیں جاتے، سوشل اینڈ لونگ اسٹینڈرڈ میژرمنٹ کے تحت کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی میں اضافے کی بجائے مزید کمی واقع ہوئی ہے، سروے کے مطابق پنجاب اورخیبر پشتونخوا میں شرح خواندگی میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم سندھ اور بلوچستان میں کمی آئی ہے

ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو کھیلوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی ترجیح دینی ہوگی، تعلیمی ادارے آباد کرنا ہوں گے، تعلیم کو ترجیح نہ دی تو پھر کرکٹ میں جیتنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).