چاند کے مسافر ہیں، چاندنی سے بھاگے ہیں


لندن آنے کا باعث بھی کُھل گیا۔ چند ادبی تقریبات میں شرکت نے بہانہ فراہم کر دیا۔ لندن کا سفر سونے پر سُہاگہ۔ تفصیلی بیان تو بوجھل ہوجائے گا، چند تاثرات دل ودماغ میں محفوظ کر لینا چاہتا ہوں۔ جیسے عید سے پہلے چاند رات ہوتی ہے جس کی الگ رونق اور اپنا مزہ ہوتا ہے، اسی طرح لٹریچر فیسٹول سے ایک رات پہلے پاکستان ہائی کمیشن نے رات کے کھانے کا پُرتکلّف اہتمام کیا تھا۔ ہائی کمیشن کے عمارت میں جانے کا پہلا اتفاق تھا ورنہ کسی بھی بیرونی سفر میں پاکستانی سفارت خانے کی یاترا کا یقینی مطلب ہے دستاویزات میں گڑبڑ ہو گئی۔ پاسپورٹ کھو گیا یا ویزا میں کمی رہ گئی۔ اور پھر ایک کافکائی سلسلہ۔ مگر یہاں ہم مہمان طریق آئے تھے۔

نہایت شان دار عمارت اور ایسے اعلیٰ درجے کے مہمان کہ میں مرعوب ہوگیا۔ پاکستان کے سفیر اور ان کی بیگم خندہ پیشانی سے مہمانوں کا استقبال کررہے تھے۔ تمام مہمانوں کی نشستیں پہلے سے طے تھیں۔ میزوں کے نام پاکستان کے مختلف شہروں پر رکھے گئے تھے۔ ٹھٹھہ اور گوادر کے بجائے مجھے اسلام آباد لے جایا گیا۔ میرے ایک طرف ایک باوقار صاحب تھے جو دو کرسی چھوڑ کر بیٹھنے والے صاحب سے پاکستان کی سیاست، افغانستان کے مفادات پر گفتگو کررہے تھے۔ وہ چیخ نہیں رہے تھے اور منصوبہ سازی کے علاوہ انگریزی میں شاعری بھی کرتے تھے۔ میرے دوسری جانب ایک خاتون سیاہ چشمہ لگائے ہوئے تھیں۔

تعارف میں انھوں نے اپنا پہلا نام بتایا۔ ظاہر ہے کہ مجھ پر اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔

’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ انھوں نے مجھ سے پوچھا۔

’’پڑھتا پڑھاتا ہوں‘‘ میں نے دو ٹوک بتا دینے میں عافیت سمجھی۔

’’اٹھارہ برس کی عمر تک والدین نے جو زبردستی تعلیم دلوائی تھی، اس کو اپنے ذہن سے صاف کرنے میں ایک عرصہ لگ گیا‘‘ انھوں نے بڑے فطری انداز میں بتایا۔ ’’والدین چاہتے تھے میں بھی ڈاکٹر یا انجینئر بن جائوں۔ میں نہیں چاہتی تھی۔ اسکول کالج کی تعلیم کو ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ پھر سب کچھ میں نے خود سیکھا۔۔۔‘‘

انھوں نے جو سیکھا وہ بتایا تو میری سمجھ میں آگیا کہ مجھے پہچان جانا چاہیے تھا۔ ان کا نام معروف تھا۔ ’’میں نے اپنے گھر کے گیراج سے کام شروع کیا۔ جو لوگ میرے گھر میں جھاڑو لگاتے تھے وہ بھی اب لاکھوں کماتے ہیں۔۔۔‘‘

شاید میرے چہرے پر ہوّنق پن برس رہا ہوگا، اس لیے کہ وہ مجھے بتانے لگیں کہ یہ تو باقاعدہ انڈسٹری بن گئی ہے اور اس میں بڑے اتار چڑھائو ہیں۔ بڑا سخت مقابلہ ہے۔

فیشن شو ہونے والا ہے اور اس میں اونچے اونچے ماڈلز آئے ہوئے ہیں انھوں نے مجھ پر واضح کرنا ضروری سمجھا۔ چند لوگ جو ایسے ہوسکتے ہیں، اس میز پر بھی بیٹھے تھے۔ میرے چہرے کی حماقت میں کئی درجے اضافہ ہوگیا ہوگا جو انھوں نے بتایا کہ آپ ان کو پہچان نہیں رہے اس لیے کہ یہ پورے میک اپ کے بغیر ہیں۔

ہماری میز پر بیٹھا ہوا نوجوان ذرا ذرا دیر بعد کیمرہ نکال کر اس کے عدسے میں اپنا چہرہ دیکھتا اور بالوں کی لٹ کا زاویہ ترچھا کرتا۔ ان خاتون کی بے حد دل چسپ گفتگو سے میری معلومات میں اضافہ ہورہا تھا جب کہ سیدھے ہاتھ پر موجود معزّز صاحب میری توّجہ بھٹکتے ہوئے دیکھتے تو میرا نام لے کر مخاطب کرتے۔ میں وہ باتیں سُن سکتا تھا جو ٹی وی کے بے حساب ٹاک شوز میں کبھی نہیں کی جاتیں۔

میں اس طرف کی سنوں یا ادھر دیکھوں، میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوا جارہا تھا۔ آخر کھانے نے مسئلہ حل کیا۔ کھانا بہت اچھا تھا اور اتنا زیادہ کہ اس پر دل دُکھنے لگا۔

اگلے دن کا استقبال صبح کی نرم دھوپ نے کیا۔ آج موسم اچھا رہے گا، ناشتے کی میز پر کسی نے موسم کی پیشن گوئی پڑھ کر سنائی۔ جان میں جان آئی۔ بارش کا کوٹ لاد کر پھرنے سے بچ گئے۔

لندن کی گلیوں میں سیّاح امڈنے لگے تھے اور ویسٹ منسٹر ایبے کے باہر ایک پوری قطار بڑھتی جارہی تھی۔ ہم ان لوگوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے دریائے ٹیمز کے پل پر سے گزرے۔ بگ بین کی مانوس شبیہہ پر نظر دوڑائی۔ اس کی سوئیاں کیا وقت بتا رہی ہیں، اندازہ لگایا اور ذرا دیر میں سائوتھ بینک سنٹر کے سامنے پہنچ گئے۔ اس سینٹر کے مستقل پروگرام کے تحت اس بار کراچی لٹریچر فیسٹی ول کا لندن ایڈیشن برپا ہورہا ہے۔ مہینہ بھر پہلے سے تمام ٹکٹ بک چکے ہیں۔ لوگوں کی خاصی معقول تعداد یہاں موجود ہے۔

اس شان دار عمارت کے مختلف ہال اور کمروں کا اندازہ لگانا تھا کہ کون سا پروگرام کہاں ہے۔ ایک ہی وقت میں تین پروگرام اور ان کی تفصیلات الگ۔ کتنے ہی شناسا چہرے نظر آرہے تھے۔

آغاز سے یہاں تک سفر کیسا رہا اور اب کیا ارادے ہیں، اس بارے میں چند الفاظ افتتاحی اجلاس میں مجھے بھی کہنا پڑے۔ مگر اس اجلاس کا سہرا محمد حنیف کے سر جاتا ہے جنھوں نے کلیدی خطبہ دیا۔ طنز و تلمیح کی آمیزش سے انھوں نے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کو مخاطب کیا اور پاکستان کی موجودہ حالت کا ایسا نقشہ کھینچا کہ سننے کے لائق تھا۔ اس حالت تک کیونکر پہنچے اور یہ ظاہر کس طرح ہوتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہر شخص پوچھتا ہے حکومت کے اب کتنے دن رہ گئے ہیں اور اس ملک کا کیا بنے گا۔ محمد حنیف کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ میں اسٹیج پر سے پوری طرح دیکھ نہیں سکا لیکن ڈان میں عرفان حسین کی رپورٹ چھپی تو اس میں صاف لکھا تھا کہ محمد حنیف کے خطبے کے دوران ہائی کمشنر صاحب پہلو بدلتے رہے۔

اس تلخ صاصف گوئی کے ساتھ ساتھ اتنے بہت سے لوگوں کی شرکت سے پاکستان کے بارے میں ایک مختلف تاثر بھی تو ابھر رہا ہے، میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ اسٹیج سے اُتر کر ہائی کمشنر صاحب میری طرف بڑھ رہے تھے اور پروگرام کے کامیاب آغاز پر مبارکباد دے رہے تھے۔

دن بھر مختلف پروگرام، میں کبھی ایک میں کبھی دوسرے میں جاتا رہا۔ بیچ بیچ میں گرین روم میں کافی اور سینڈوچ کے ساتھ کتنے ہی لوگوں سے ملا۔ نئے شاعروں میں ظفر کُنیال اپنا سکّہ جما رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی آبائی زبان (پہاڑی) کے حوالے سے کیسی نازک نظم مجھے سنائی۔ امتیاز دھارکر ایسی بین الاقوامی اہمیت رکھتی ہیں جو کم ہی شاعروں کے حصّے میں آتی ہے۔ میرے لڑکپن کے دوست پروفیسر کامران اصدر علی جہاں بیٹھ جاتے ہیں، محفل جم جاتی ہے۔ اس ہُنر میں وہ یکتا ہیں مگر یہی ہمارے حارث خلیق کا بھی فن ٹہرا۔ جہاں جانا گفتگو کا دھارا موڑ دینا اور ہر محفل کی جان بنے رہنا۔

مانچسٹر سے باصر کاظمی اور امریکا سے عشرت آفرین اس تقریب کے لیے خاص طور سے آئے تھے۔ ناشتے کی میز سے ہمارا ساتھ شروع ہوا تو رات کے کھانے تک بے تکان جاری رہا۔ مزے مزے کے قصّے، نئی حکایتیں۔

مجھے ست رنگی مشاعرے کا اہتمام کرنا تھا۔ اس میں پاکستان کی کئی زبانوں کے شاعر شریک تھے__ حارث خلیق، عشرت آفرین اور باصر کاظمی کے علاوہ سندھ کے شاعر امانت مغل، پشتو کے شاعر جمیل پانیزئی، پنجابی کی جسویر کانگ اور نزہت عباس اور پشتو کے ذاکر حسین، سبھی کا لحن مختلف تھا اور انھوں نے خوب داد سمیٹی کہ ان کی شاعری، ان کے تجربے کا ابلاغ کررہی تھی۔

پہلے گھنٹے کے پروگراموں، خاص طور پر جنس اور شناخت والی گفتگو میں نہیں جاسکتا کیوں کہ اسی وقت جنگلی جادوگر کے پروگرام میں جانا تھا۔ مریم مجید اور ان کی ٹیم نے پرانی کہانیوں کو بچّوں کے لیے تھیٹر کا روپ اتنی کامیابی کے ساتھ دیا تھا کہ جی چاہنے لگا بچہ بن کر وہیں بیٹھ جائیں۔ پودنی پودنے کی کہانی بچپن میں سُنی تھی، آج اس کو ایسے نئے روپ میں دیکھا کہ اچنبھے میں آگیا۔

پاکستان کے معاشی استحکام میں ’’سب اچھا ہے‘‘ کا رنگ ذرا زیادہ ہوگیا۔ کراچی پر گفتگو خوب جمی مگر میرے ذہن میں ایک شحص اٹک گیا جو سوالات کے واقفے میں کھڑے ہو کر اپنی کہانی سنانے پر اصرار کرنے لگا کہ ایک اعلا درجے کی تعمیراتی پروجیکٹ نے اتنی بڑی رقم ہضم کرلی اور ان کے خلاف شکایت بھی درج نہیں کرائی جاسکتی کہ ان کے کرتا دھرتا، ایک بہت بڑے افسر کے سگے بھائی ہیں۔ معاشی استحکام کے سکّے کا یہ دوسرا رُخ بدعنوانی کی ہوش ربا داستانیں۔۔۔

پارٹیشن سے لے کر فیشن، اردو کی سرکاری حیثیت سے لے کر تاریکن وطن کے سیاسی مفادات، سعیدہ وارثی کا زندگی نامہ، تعلیمی نظام کا مدرسوں اور انگریزی اسکولوں میں دولخت ہوکر رہ جانا، میڈیا اور پاکستان کے شاعر و ادیب۔۔۔ کتنے ہی اجلاس اور کتنی بہت ساری باتیں، افسوس کہ مرزا غالب کی طرح ازار بند میں گرہ نہیں لگا سکا۔ ہاں، آخر میں خماریاں گروپ کے نوجوان اپنے ساز سنبھالے اسٹیج پر آئے تو انھوں نے محفل کو گرما دیا۔ لوک دھنوں پر جدید سازوں کی کارفرمائی لوگوں کو بس وجد میں لے آئی۔ مگر میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔۔۔ ہم نے پختون کو ہاتھ میں صرف بندوق اٹھانے والا اسٹریو ٹائپ بنا ڈالا۔ لوگ حیران ہو کر سوچتے ہیں ان کے سینے سے یہ راگ رنگ کیسے پھوٹ پڑے؟ خیر، سوچنے کے لیے تو بہت ساری باتیں ہیں۔ میں پیچھے کی طرف اپنے کالج کے پرانے دوستوں کے ساتھ بیٹھا موسیقی سُنتا رہا اور کافی کے ساتھ کاجو اور مونگ پھلیاں کھاتا رہا۔ یہ دوست اس پروگرام میں شرکت کے لیے خاص طور سے آئے تھے اور ان سے ملاقات کا اچھا موقع مل گیا۔

اگلی صبح کی خوش گوار دھوپ میں نرمی سی گُھلی ہوئی تھی جب برٹش لائبریری کا قصد کیا کیونکہ وہاں جے پور لٹریچر فیسٹول کا دوسرا دن تھا۔ برٹش لائبریری میرے لیے تقریباً عبادت گاہ کا سا درجہ رکھتی ہے، اور پھر آج وہاں بڑی گہماگہمی تھی۔ ایک کے بعد ایک اچھے پروگرام اور ادیبوں کی کہکشاں سی ہر طرف بکھری ہوئی۔۔۔ مُغلوں کی سی وضع قطع اختیار کرنے والے انگریزوں، یعنی دی وہائٹ مغلز کا قصّہ سناتے ہوئے ولیم ڈالرمپل مجھے بالکل پرانی وضع کے داستان گومعلوم ہوئے۔ اس داستان کے بیچ بیچ میں ودّیا شاہ نے قلی قطب شاہ اور مہ لقابائی چندا کی غزلیں گا کر سُنائیں۔ پُرانے وقت کے حیرت کدے سے ایک عجیب داستان نکل کر آگئی، مگر میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں کے اردو والے اس قصّے سے نہ جانے کیوں بے اعتنائی برتتے ہیں۔ اس سے پہلے ودّیا شاہ نے گراموفون کے اولین دور کی مُغّنی خواتین خاص طور پر بیگم اختر کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ گفتگو معلومات سے بھرپور تھی مگر گائکی میں مجھے اتنا مزہ نہیں آیا۔

چار ناول نگاروں نے ایک سبھا سجائی، اپنے فن کے محرکات گنوائے اور ناولوں کے اقتباس پڑھ کر سنائے۔ بنگلہ دیس کی تہمیمہ انعم، کراچی کی نئی لکھنے والی ثروت حسین اور ہندوستان کے امیت چودھری اور کُنال باسو نے نمیتا گوکھلے سے بڑی دل چسپ گفتگو کی، اپنے فن کے اسرار و رموز بیان کیے۔ لوگ اس اجلاس سے اٹھ اٹھ کر جلدی جانے لگے کیونکہ ششی تھرور کو گفتگو کرنی تھی اور ہال کے باہر لائن طویل ہوتی جارہی تھی۔ ہندوستان پر انگریزی قبضے کی استعماریت پر ان کی نئی کتاب کسی قدر ناہموار کیوں نہ ہو، ان کو گفتگو کا ہُنر خوب آتا ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے شک ہورہا تھا کہ بعض تیز جملے اور مذاق انھوں نے پہلے سے طے کر رکھے ہیں کہ ایسا موقع آیا تو یوں کہیں گے۔

معروف ناول نگار کُنال باسو نے انگریزی کے ساتھ ساتھ بنگلہ میں بھی لکھنے کا باقاعدہ تجربہ کیا ہے۔ انھوں نے اس کے بارے میں بتانا شروع کیا تو میں ہمہ تن گوش ہوگیا مگر پھر سوالوں کا ریلا ان کو کسی اور طرف لے گیا۔

فیسٹی ول کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، یہ ناممکن تھا کہ میں لائبریری کی عمارت میں عقیدت اور تجسّس کے ساتھ گھومتا نہ پھروں۔ میں نے خاص طور پر وقت نکال کر وہ نمائش دیکھی جو روسی انقلاب کی صدسالہ سالگرہ کے حوالے سے لگی ہوئی تھی، حالاں کہ اس کا ٹکٹ گراں گزر گیا۔ امید، المیہ، اساطیر، اس کا ذیلی عنوان تھا جو بہت کچھ کہہ رہا تھا۔ اس دور کے پوسٹرز مجھے تاریخی آثار سے زیادہ بامعنی لگے۔ اور پھر اس موضوع کے بارے میں شائع ہونے والی نئی کتابوں کی پوری قطار سجی ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دور کے تاریخ ساز واقعات کو نئے سرے سے کھنگالا گیا ہے اور ان کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جی چاہتا تھا وہیں برٹش لائبریری کے فرش پر منڈکری مار کر بیٹھ جائوں اور پڑھ کر دیکھوں کہ ان لوگوں نے کیا نتیجہ نکالا ہے اس انقلاب کے بارے میں جو سو سال پرانے روس سے لے کر میرے لڑکپن تک لوگوں کو مسحور کیے رہا ہے۔ جی چاہنے کے باوجود میں ایسا نہ کرسکا کیوں کہ ایک گارڈ نے اشارہ کیا، لائبریری بند ہونے کا وقت ہوگیا۔ یہ الفاظ سُن کر دل جیسے ڈوب سا گیا۔ یہ لائبریری بند بھی ہوسکتی ہے؟ اگلی صبح تک کے لیے، میں نے دل کو سمجھایا اور وہاں سے باہر نکل آیا۔

کل صبح پھر آئوں گا، باہر نکلتے وقت میں نے سوچا۔ اس شام وہاں کامران اصدر علی کی گفتگو تھی جس کا موضوع تھا راول پنڈی سازش کیس اور پاکستان کی سیاست۔ مگر عین اسی وقت سواز (SOAS) میں یعنی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں بلال تنویر کی کاملہ شمسی سے گفتگو تھی۔ دیر تک دُبدھا میں پڑا رہا کہ یہاں جائوں یا وہاں؟ میں اس وقت بلومزبری کے قریب تھا، اس علاقے میں جہاں چند سال پہلے کچھ دن کے لیے رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ راستہ میرے پائوں کو مانوس معلوم ہوا اور میں سواز پہنچ گیا جہاں گفتگو کے آغاز کے لیے لوگ جمع ہورہے تھے۔ میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔

میری مُہلت اب ختم ہونے کو تھی۔ سنڈریلا کی گھڑی میں بارہ بچ گئے ہیں۔ اب میرے ہاتھ میں صرف یہ بلّوری جوتی رہ گئی ہے۔ اور گرفت میں آنے سے گریزاں یادیں جیسے لندن کی گلیوں میں لہراتا ہوا کوئی رنگین آنچل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).