پاکستان پیپلز پارٹی کا مستقبل


پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے اب50سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس کے بالمقابل جماعت اسلامی کے سوا تمام پارٹیاں نئی ہیں۔ اس کے بانی ایک کرشماتی اور ذہین شخصیت تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد جب بھٹو اور ایوب تعلقات خراب ہوئے تو بھٹو نے نئی پارٹی کے قیام کے لئے یہ موقع غنیمت جانا۔ 30۔ نومبر1967ء کو بائیں بازو کے دانشور وں کا اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر منعقد ہوا اورPPPمعرض وجود میں آگئی۔ چئیرمین تو بھٹو نے ہی بننا تھا۔ روائتی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے یہ ایک سیاسی دھماکہ تھا۔ جمہوریت ہماری سیاست، اسلام ہمارامذہب، سوشلزم ہماری معیشت اور قوت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ جیسے چار نکات تب بڑے معروف ہوئے تھے۔ الیکشن سے پہلے ہی بھٹو نے پورے ملک میں ہل چل پیدا کردی تھی۔ اور1970ءکے عام انتخابات میں انہوں نے اپنی مقبولیت 138 میں سے  81 سیٹیں جیتنے کے بعد ثابت کردی تھی۔ دائیں بازو کی تمام پارٹیاں بری طرح فلاپ ہوئی تھیں۔ لیکن ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد اب پارٹی سے معروف علاقائی شخصیات پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہی ہیں۔ آخری دو پرندے جو پی پی کے اجڑے باغ سے اڑ کر امید بھرے سبز باغ کی طرف گئے وہ نذر محمد گوندل اور فردوس عاشق اعوان تھے۔ گزشتہ دو سال سے ایسی ہی صورت حال جاری ہے۔ کیا اب پی پی کا سیاسی مستقبل مخدوش ہوگیا ہے؟

تجزیہ نگاروں کی رائے یہی ہے کہ اب تک پیپلز پارٹی اپنی دو کرشماتی شخصیتوں کی وجہ سے عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتی رہی ہے۔ بے نظیر کے بعد اب سیاسی شخصیات اور عوام کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ موجودہ قیادت ماضی کی دونوں شخصیتوں کا نام کیش کراتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور شہیدوں کے نام گنوائے جاتے ہیں۔ سیاست صرف گڑھی خدا بخش کے قبرستان کے اردگرد ہی رہی ہے۔ کوئی نیا خیال کوئی نئی فلاسفی پارٹی ابھی تک متعارف نہیں کراسکی۔ چھوڑ کر جانے والوں کو اب پارٹی کی کامیابی کا امکان بالکل نہ ہے۔ پنجاب میں تولگتا ہے کہ پارٹی کے پاس کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ کائرہ، اعتزاز احسن، ندیم افضل چن اور سید نیئر بخاری رہ گئے ہیں لیکن ہر روز ان کے بارے میں الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبریں چلتی رہتی ہیں کہ صبح گئے یا شام گئے۔ سوشل میڈیا نے تو ایک دروازے سے جھانکتے ہوئے آصف علی زرداری کے بارے بھی یہ لکھ دیا ہے “کہ میں بھی آجاؤں”گزشتہ دو سال میں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری صاحب نے پنجاب کے لوگوں کو جگانے کی کافی کوشش کی ہے۔ لیکن عوام کے تالاب میں کوئی بڑا ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر علاقائی سیاسی شخصیات تیزی سے پی پی سے تحریک انصاف کی طر ف جاتی نظر آتی ہیں۔ لوگ زرداری خاندان کو بھٹو خاندان کا جانشین ماننے کے لئے تیار نہیں ہو رہے۔ جناب آصف علی زرداری کا نام تو کرپشن کے سلسلے میں90ء کی دہائی سے ہی بدنام ہے۔ لیکن گزشتہ 5 سالہ دور میں بھی کئے قصے زبان زدعام ہوئے تھے۔ بہت سے مقدمات ابھی بھی نیب اور دوسرے اداروں کے پاس ہیں۔

سوئیٹزر لینڈ کے بنکوں میں جناب آصف علی زرداری کی لوٹ کر جمع کرائی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن ایک وزیر اعظم کی قربانی تو دے دی گئی لیکن رقم واپس نہیں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں میں سوشلزم کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماحول میں یہ ایک نیا نعرہ تھا۔ بے نظیر نے چیئرمین اور وزیر اعظم بننے کے بعد یہ نعرہ چھوڑ دیاتھا۔ نجکاری کا ابتدائی عمل بھی ان کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ بے نظیر کو حالات کے بدلنے کا احساس ہو گیا تھا۔ سوشلزم اور بایاں بازو اب صرف ماضی کی باتیں رہ گئی تھیں۔ اب پارٹی بائیں بازو کی بجائے سنٹر کی طرف آگئی تھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پارٹی کا مستقل ووٹ بنک سب سے زیادہ صرف سندھ میں ہے اسکی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ بھٹو خاندان کا تعلق سندھ سے ہے۔ 1997ءکے جنرل الیکشن میں بھی پارٹی کو برائے نام ووٹ ملے تھے۔ لیکن قومی اسمبلی کی 18۔ سیٹوں کے ساتھ پارٹی کا وجود برقرار تھا۔ ایک لمبے عرصے کی جلاوطنی کے بعد بے نظیر2007ء میں واپس آئیں۔ لوگ انہیں امید کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن دسمبر2007ءمیں ان کا قتل پارٹی کے لئے بڑے نقصان کا سبب بنا۔

بعد کے الیکشن میں پی پی کو مظلومیت کا ووٹ ملا۔ یوں2008ء سے2013ء تک زرداری صاحب حکومت اور پارٹی پر چھائے رہے۔ ایک وصیت کے تحت انہوں نے اپنے آپ کو چئیر مین بنایا تھا۔ صدارت کے 5 سال تو انہوں نے اپنے پیروں کے مشورہ سے مکمل کر لئے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کے سیاسی وارث کے طور پر وہ بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ قیادت کے پاس اپنے گزشتہ 5 سالہ دور کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ ووٹر بھی اب کافی سمجھدار ہوگئے ہیں۔ صرف بھٹو ازم کے نام کی بجائے کچھ نہ کچھ کارکردگی دیکھتے ہیں۔ لیکن سندھ جہاں پیپلز پارٹی گزشتہ9سالوں سے برسراقتدار ہے۔ غربت اور مایوسیوں کے علاوہ وہاں کچھ اور نہیں ہے۔ مرکز ہویا سندھ ہرجگہ یہی دوڑ رہی ہے۔ کہ زیادہ سے زیادہ نوٹ اکٹھے کئے جائیں اور انہیں باہر بھیجا جائے۔ اب یہ کلچر پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ دوسری پارٹیوں میں بھی سرایت کرگیا ہے۔ ایک پارٹی کا کڑا احتساب آج کل لوگ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ باقی سیاسی لیڈروں اور کرپٹ افراد کو بھی اسی پروسیس سے گزرنا چاہئے۔ پارٹی کا مستقبل تو واقعی روشن نظر نہیں آتا۔ جب بھی پارٹی کہیں جلسہ کرتی ہے۔ اس کی خبر کبھی کسی اخبار یا ٹی وی پر آتی بھی ہے۔ اور اکثر جگہوں پر ذکر ہوتا بھی نہیں۔

ہمیں پیپلز پارٹی کا وہ ابتدائی زمانہ یاد ہے جب اس کا اپنا روزنامہ مساوات اور ہفتہ وار نصرت ہوا کرتا تھا۔ کوثر نیازی اور حنیف رامے جیسے معروف لوگ ان کی نگرانی کیا کرتے تھے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا کے زمانے میں پارٹی کا میڈیا سیل بے کار نظر آتا ہے۔ جناب آصف علی زرداری کا امیج جو 90ء کی دہائی میں بن گیا تھا وہی آج تک قائم ہے۔ اس شخصیت کو لوگوں کی اکثریت اپنا قائد ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کے خطاب کے دوران بھی کبھی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر نہیں آتا۔ پارٹی کو باصلاحیت اور عوام دوست قیادت کی ضرورت ہے۔ کیا رضا ربانی اور اعتزاز احسن ایسی قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ تجربہ کرنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ اب اتنے عرصے کے بعد پارٹی کو”خاندان” سے نکالنا بھی ضروری ہے۔ یہ روایت تمام پارٹیوں سے ختم ہونی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کی اب تک دو خصوصیات بڑی اہم رہی ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی وفاق کی سیاست کرتی ہے۔ دوسری یہ کہ پارٹی کا ووٹ بنک چاہے کم ہو یا زیادہ وہ ملک کے تمام حصوں میں موجود ہوتا ہے۔ صوبوں کے علاوہ گلگت، بلتستان ، آزاد کشمیر اور فاٹا کے علاقے بھی پی پی کے ووٹ سے مکمل خالی نہیں ہوئے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے لئے پورے ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی پارٹیوں کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ پارٹی کا مستقبل صرف اسی صورت میں روشن ہوسکتا ہے جب پارٹی کو ایماندار اور عوام دوست قیادت مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).